جب میں پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے عربی کا امتحان پاس کرکے اور گولڈ و سلور میڈل اپنے نام کراکے" میدان عمل " میں پکا قدم رکھ چکا تھا، حصول رزق و معاش کے چھوٹے چھوٹے ابتدائی سفر تو آغاز شباب ہی سے شروع ہو چکے تھے اور قدم بھی رکھے جا چکے تھے۔ یہ 1977ء کی بات ہوگی،میں شیخوپورہ میں اسلامی جمعیت طلبہ کی ذمہ داریوں اور تحریک نظام مصطفیٰ کی سرگرمیوں سے فارغ ہوا تھا،کہ جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کا بھوت سیاسی سرگرمیوں کے سر پر پوری قوت سے ناچنے لگا۔ اس تحریک میں بحیثیت طالب علم رہنما اور سیاسی کارکن بہت بھرپور اور فعال کردار کا انجام و اختتام اس 21 روزہ جیل یاترا اور ڈسٹرکٹ جیل شیخوپورہ میں قید تنہائی سے ہوا۔ جناب بھٹو کے عرصہ اقتدار کے اخری دنوں میں جب قومی اتحاد اور حکومت کے مذاکرات جاری تھے،اور سیاسی کارکنوں پر سختیوں اور دباؤ میں رکھنے کی کوششیں جوبن پر ہونے کا مرحلہ تھا،تو اپنے دوہرے کردار جس کا اظہار بعد میں ایک ایس پی صاحب نے ایک اتفاقی ملاقات میں کیا،جب میں بحیثیت ناظم جمعیت ان کے دو بیٹوں سے ملنے ان کی سرکاری رہائش گاہ گیا،جو جمعیت کے ساتھ منسلک تھے ۔
میں ان دنوں جیسے تیسے بی اے کاپرائیویٹ امتحان دے چکا تھا اور بوجوہ کامیاب نہ ہوسکنے کے پختہ یقین کے ساتھ تلاش معاش میں سرگرداں تھا۔ ایک ایف اے پاس بہت کم علم اور محدود صلاحیتوں کا مالک ،خود اعتمادی اور معقول یا مناسب یا اس بھی کم تر روزگار کے لیے مطلوب و درکار "پہیوں " کی طاقت یا کوئی اور مروجہ قوتِ دافعہ سے محرومی کے سبب کسی غیبی مدد کا منتظر تھا۔ ان دنوں میں اخبارات کے اشتہاری کالموں میں سہ سطری اشتہارات پڑھتا رہتا اور روزگار کے مواقع تلاش کرتا، اور ان میں درج ایڈریسز پر مختلف دفاتر اور ویئر ہاوسز یا کمپنیوں کے چکر لگاتا،جہاں ٹافیوں گولیوں اور اسی نوع کی پراڈکٹس کی "سیلز مینی " کی آسامیاں موجود ہوتیں،مگر میں ان کے لیے بھی "مس فٹ "ہی رہا۔ پھر ایک روز مجھے اپنے "ناتواں ہاتھ پیر ہلائے" بغیر غیبی مدد میسر آ ہی گئی۔۔کیوں کہ میں تو انہیں اپنی بساط بھر پہلے ہی ہلا جُلا چکا تھا۔اور تقدیر کا فیصلہ سن چکا تھا کہ یہ بازو میرے آزمائے ہوئے ہیں۔ ان سے تلوار کہاں اٹھنی تھی اور تیر کہاں چلنے تھے۔ جو تیر چلے وہ بھی نشانے خطا کر بیٹھے۔
ہوا یوں کہ میری ایک خالہ کی ساس۔۔بی بی جان۔۔مرحومہ کے گجرات والی" سروس " شوز انڈسٹریز کے مالکان کے ساتھ گھریلو مراسم تھے،ان کی سفارش پر مجھے گوجرانوالہ کے معروف" سید مِٹھا بازار" میں واقع ایک آؤٹ لیٹ پر ٹرینی مینیجر کی نوکری مل گئی۔ یہ میری پہلی باقاعدہ ملازمت تھی، جس کا معاوضہ ماہانہ تین سو بیس روپے تھا،یہ 1977 کا زمانہ تھا۔مجھ جیسے فقیر شخص کے لیے یہ ایک بڑی رقم تھی۔میری ضروریات جاریہ صرف دو وقت کا کھانا ہی تھا ،میں نے نہ غیر ضروری حاجتیں رکھیں،اور نہ ہی فضول شوق پالے اور نہ ہی اونچے نیچے خواب دیکھے۔ میں سارا دن سروس اسٹور پر رہتا ،جہاں کے مینیجر صاحب اور سیلزمین مجھے مینیجری کی ٹریننگ دینے کے بجائے سٹور کے اوپر گودام میں مہینوں سے گرد و غبار اور مٹی و جالوں میں اَٹے پرانے اور نہ فروخت ہونے والے جوتوں کے ڈبوں کی جھاڑ پونچھ میں لگائے رکھتے۔ یوں دن بھر مٹی اور غبار کی بڑی مقدار میری داڑھی اور سر کے بالوں کو ہی سفید اور غبار آلود نہیں کرتی تھی،بلکہ میری دوپہر کی غذائی ضرورت بھی پورا کرتی۔ ان دنوں مجھے طبعی ذوق شوق کے باوجود کتاب و قلم سے کچھ زیادہ واسطہ نہ تھا کہ غریب الدیاری،خانہ بدوشی اور فکر معاش بلکہ فکرِ "قُوتِ لا یموت "نے سب سے بیگانہ کر چھوڑا تھا۔اسلامی جمعیت طلبہ کے پلیٹ فارم سے طلبہ قیادت اور پی این اے کے فورم سے تحریک نظام مصطفیٰ کی سیاسی جدوجہد سب کچھ ہوا میں اڑ گئے۔ اگر مطالعہ جاری رہتا تو مجھے اس مٹی کو قبول کرنے میں کوئی قلق نہ ہوتا۔۔کہ انسان اسی مٹی سے تخلیق کیا گیا،اسی میں اُسے لوٹنا ہے اور اِسی سے اُسے دوبارہ اٹھایا جائے گا۔ مِنھا خلقناکم و فیھا نُعیدکم ،و منھا نُخرجکم تارۃً اُخریٰ
انسان کی زندگی میں معاشی سفر ،پڑاؤ اور منزل بہت اہمیت کی حامل ہے ۔یہ اس کی دنیاوی زندگی کا بھی اہم حصہ ہے ،اور اخروی زندگی کے کچھ زاد راہ کی تیاری کا بھی وسیلہ ہے۔ کوئی خاندانی طور پر کتنا ہی خوشحال اور معاشی کلفتوں سے بے نیاز ہو،منہ میں سونے کا چمچ لے کر پیدا ہو،یا ماں باپ کی کمائی اس کی کئی نسلوں کے لیے کافی بھی ہو،تو بھی معاشی تگ و دو سے بے گانہ رہنا نہ ممکن ہے،نہ اس سے فرار کا کوئی تصور اور راستہ۔ متوسط اور غریب گھرانوں میں تو یہ زندگی موت کا مسئلہ ہوتا ہے،جو بچے کے ہوش سنبھالتے ہی مختلف انداز سے گھروں میں موضوع گفتگو بن جاتا ہے ۔ تعلیمی ادارے کی تلاش، مضامین کے انتخاب،ٹیوٹر کی جستجو بھی خاندانی زندگی میں اہمیت اختیار کرجاتی ہے ۔ خط غربت سے نچلےغریب گھرانوں میں تو چھوٹی عمر سے ہی بچوں کو کام کاج پر لگادیا جاتا ہے،یا باپ کے کام پہ بھیج دیا جاتا ہے، تاکہ بچہ کچھ سیکھے بھی اور کمائے بھی کہ کمائے گا تو کھائے گا۔ اسی موڑ پر ہر شخص کی شخصیت،مزاج،طبیعت،عادت،فطرت،طرز کلام و طعام،طرز بود و باش،طرز فکر وعمل سب کی جہت اور راستہ طے ہو جاتا ہے۔وقت گزرنے کے ساتھ اسی نمونے کے انسان اور رویے وجود میں آتے ہیں،جن کا آغاز کئی سال پہلے کیا جاچُکتا ہے۔ زندگی کا یہ پڑاؤ،معاشی حیثیت، آنے والی زندگی کے خد و خال طے کرتا ہے۔ اور یہ حقیقت ازلی و ابدی ہے کہ اس میں تعلیم بنیادی کردار ادا اور مستقبل کے معاشی سفر کی جہات کا تعین کرتی ہے۔ اس کی بہت ساری مثالیں تحریر کو ثقیل بنا دیں گی۔۔اپنے اردگرد ان کئی مثالوں کے تصوراتی منظر دیکھے جا سکتے ہیں۔
انسان کے اس اہم معاشی سفر میں بالعموم اس کے معاون والدین ہوتے ہیں۔۔ یا۔۔اساتذہ۔۔۔ اساتذہ ذہن سازی کرتے ہیں ،رول ماڈل بنتے ہیں اور اس سفر کے نشیب و فراز سمجھاتے،فنی نکات بتاتے اور فکری آبیاری کرتے ہیں ۔والدین وسائل اور مواقع بہم پہنچاتے ہیں ۔اور زیادہ سبق زمانہ اور زمانے والے پڑھاتے ہیں۔ یہ عجیب اتفاق رہا کہ معاشی سفر میں میرا راہنما نہ کوئی استاد تھا،نہ والدین ۔زمانہ اور زمانے کے تھپیڑوں نے مجھ بے سر و ساماں کو جہاں چاہا چلادیا،کھڑا کردیا۔ تقدیر نے جس شاہراہِ حیات کو میرے لیئے منتخب کیا۔۔وہ اطمینان بخش بھی ہوا اور باعث عِزّ و شَرَف بھی۔
1973 میں میری عمر سترہ اٹھارہ سال تھی،جب میں نے شاہ ولی اللہ اورینٹل کالج منصورہ سندھ سے انٹر اور فاضل عربی کا امتحان پاس کیا اور شیخوپورہ واپس آگیا۔ میری مالی ضروریات بہت مختصر تھیں۔اسلامی جمعیت طلبہ کے ساتھ فعال وابستگی اور نظام مصطفیٰ کی تحریک میں تین سال مزید گزرگئے۔ معاشی مستقبل کے بارے نہ سوچا،نہ سفر کا آغاز ہوا۔ قناعت پسند اور متوکل الی اللہ میرے اباجی مجھے فاضل عربی اور انٹر کی بنیاد پر اپنے ایک اسکول ٹیچر دوست کے مشورے پر نویں گریڈ کا اوریئنٹل ٹیچر۔۔ot...بنانا چاہتے تھے کہ یہ ممکن بھی تھا اور آسان بھی،مگر میری تقدیر میں کچھ اور ہی لکھا تھا۔ سو میں پہلے گوجرانوالہ پہنچا۔ روزگار کا کچھ بندوبست تو ہوا،مگر یہ کام میرے مزاج کے خلاف بھی تھا اور سروس سٹور کے موجود ملازمین کے لیے بھی میں ناقابل قبول تھا۔دو یا تین ماہ گزرے تو نجانےکیسے میں لاہور آیا اور اچھرہ میں مولانا گلزار احمد مظاہری رح سے ملاقات ہوگئی۔وہ ان دنوں منصورہ میں مرکز جماعت اسلامی کے بالمقابل علماء اکیڈیمی کی داغ بیل ڈال چکے تھے۔یہ 1978 کاسال اور غالباً مارچ اپریل کا مہینہ تھا۔ مولانا مظاہری رح مجھ سے زیادہ میرے والدین کو جانتے تھے،انہوں نے مجھے اپنے ادارے میں کام کرنے کی پیشکش کی،اور معاوضہ بھی چار سو روپے دینے کی نوید سنائی ۔یہ کام میرے مزاج سے قریب تر اور لکھنے پڑھنے کا تھا،یعنی دفتر سنبھالنے کا، سو میں لاہور چلا آیا۔
لاہور میں میرے بھاگ یوں کھلے کہ میں نے منصورہ ہی میں کچھ اضافی کام شروع کیے،آمدنی میں بھی کچھ اضافہ ہوا اور قلم و قرطاس سے بھی وابستگی بڑھی۔ سال ڈیڑھ سال تو یوں ہی چلتا رہا،پھر ایک دوست ،جو جمعیت کے زمانے کے ساتھی تھے،اور بعد میں پروفیسر بنے اور ادیب،مؤرخ اور مصنف ہوئے۔۔کے مشورے،بلکہ تحریض پر پنجاب یونیورسٹی میں ایم اے عربی میں داخلہ لیا۔ اس کے بعد گرچہ بہت سی مالی مشکلات اور دربدری کا سامنا بھی کرنا پڑا،تاہم مارچ 1982 میں فرسٹ کلاس فرسٹ پوزیشن کے ساتھ ایم اے کی تکمیل ہوئی ۔ اب ۔۔ادارہ معارف اسلامی منصورہ ۔۔ نئی منزل قرار پائی،جہاں مولانا خلیل احمد الحامدی رح کی سربراہی اور ممتاز و معروف اسکالرز جناب نعیم صدیقی رح،جناب سید نظر زیدی رح،جناب مولانا عبدالوکیل علوی رح ،جناب جمیل رانا رح جیسے دانشوروں ،ادیبوں،اور محققین و مصنفین کی رفاقت میں دو سال کام کرنے کا موقع ملا۔ پھر۔۔۔1984 کے اختتام پر پنجاب پبلک سروس کمیشن نے لیکچرر عربی کے لیے منتخب کرلیا، اور ٹھیک چالیس سال قبل 1985 کے اپریل کے تیسرے روز اس حقیر و فقیر کو قسمت و قدرت نے پنجاب گورنمنٹ کا ملازم بنا کر سانگلہ ہل ضلع شیخوپورہ کے گورنمنٹ کالج میں پہنچا دیا۔ یہ اپریل 2025 ہے،اور اس کا چوتھا دن ،جس نے چالیس سال کے اس سفر کا دریچہ کھولا اور وہ سب کچھ یاد کرادیا ، جو میں کہہ سکا ،اور وہ بھی جو میں نہ کہہ سکا۔ فالحمد للہ حمداً کثیراً یُوافی نِعَمَہ۔
تبصرہ لکھیے