ہوم << صحت کی حفاظت شکرگزاری کا عملی مظہر - سیدہ تابندہ فخر

صحت کی حفاظت شکرگزاری کا عملی مظہر - سیدہ تابندہ فخر

صحت، ربِ کریم کی عطا کردہ وہ بے بہا نعمت ہے جس کی قدر و قیمت کا اندازہ صرف وہی لگا سکتا ہے جس کی جھولی اس نعمت سے خالی ہو۔ یہ وہ عطا ہے جو انسان کو زندگی کی ہر خوشی، ہر آسائش اور ہر نعمت سے حقیقی لطف اندوزی کا موقع فراہم کرتی ہے۔ اگر انسان تندرست ہو تو دنیا کے رنگ نظروں میں نکھرتے ہیں، خوشیاں دل میں بسیرا کرتی ہیں اور زندگی کا ہر لمحہ گویا ایک بہار بن کر مہکنے لگتا ہے۔

ہر سال سات اپریل کو عالمی یومِ صحت منایا جاتا ہے تاکہ انسانیت کو یہ یاد دہانی کرائی جا سکے کہ صحت محض ذاتی مسئلہ نہیں بلکہ اجتماعی فلاح کا ستون ہے۔ 1945ء میں عالمی ادارۂ صحت (WHO) نے اس دن کی بنیاد رکھی تاکہ دنیا بھر میں صحت و تندرستی کے حوالے سے شعور کو بیدار کیا جا سکے، اور معاشروں کو ایک صحت مند طرزِ زندگی کی جانب گامزن کیا جائے۔

یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ صحت کی حفاظت فقط جسمانی طاقت کا نام نہیں بلکہ ایک ذمہ داری ہے۔ اپنے خالق کی عطا کردہ نعمتوں کا شکر ادا کرنے کی، ان کی قدر پہچاننے کی اور ان کے بہتر استعمال کی۔ ایک صحت مند جسم ہی وہ میدان ہے جس میں روحانی، علمی اور عملی زندگی کے معرکے بخوبی سر کیے جا سکتے ہیں۔
جیسا کہ حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں آیا ہے: "طاقتور مومن، کمزور مومن سے بہتر ہے۔"

یہ طاقت محض جسمانی قوت نہیں، بلکہ ایمان، عمل اور نیکیوں کے میدان میں ثابت قدمی کی علامت ہے۔ ایک تندرست مومن ہی بہتر طور پر نماز، روزہ، حج اور دیگر فرائض ادا کر سکتا ہے اور انسانوں کی بھلائی میں مؤثر کردار نبھا سکتا ہے۔

بیماری محض جسمانی اذیت نہیں، بلکہ بسا اوقات وہ زندگی کے لطف کو ماند کر دیتی ہے، انسان کی فعالیت کو محدود کر دیتی ہے اور نہ صرف مریض بلکہ اس کے اردگرد کے لوگوں کی زندگی بھی کسی آزمائش میں ڈال دیتی ہے۔

کہا جاتا ہے: "صحت کی قدر صرف مریض جانتا ہے۔"
سچ ہے کہ جب بدن ساتھ چھوڑ دیتا ہے تو دنیا کی ساری آسائشیں بیکار لگنے لگتی ہیں۔ مال و دولت، عالی شان گاڑیاں اور رہائش گاہیں سب بے معنی ہو جاتی ہیں اگر صحت رخصت ہو جائے۔ ایک بیمار شخص چاہ کر بھی ان نعمتوں سے لطف اندوز نہیں ہو سکتا۔

طالب علم کی مثال لیں، جو اگر صحت مند ہو تو علم کی سیڑھیوں پر تیزی سے چڑھ سکتا ہے۔ کیونکہ جہاں جسمانی صحت ہو، وہاں ذہنی صلاحیت بھی جِلا پاتی ہے۔ ایک لاغر، بیمار طالب علم نہ یکسوئی سے پڑھ سکتا ہے، نہ ذہن کی روشنیوں کو مکمل طور پر سمیٹ سکتا ہے۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ: "صحت مند جسم میں ہی صحت مند دماغ بستا ہے۔"

انسان کا فرض ہے کہ ہر لمحہ اپنے رب کی نعمتوں کا شکر ادا کرے، کیونکہ وہ خالقِ حقیقی نہایت مہربان ہے۔ اُس نے انسان کو ان گنت نعمتوں سے نوازا، جن کا شمار ممکن نہیں۔ اگر ہمیں بینائی نہ دی جاتی تو ہم روشنیوں سے محروم ہوتے، ہر راہ میں ٹھوکریں کھاتے۔ اگر سماعت نہ ہوتی تو دنیا کی آوازیں ہمارے لیے سناٹے میں بدل جاتیں۔ اگر زبان نہ ہوتی تو ہم اپنی بات نہ کہہ پاتے، اور اگر عقل نہ دی جاتی تو ہمارا وجود محض ایک سانس لیتا جسم ہوتا۔

سوچیے، جس سے یہ نعمتیں چھن جائیں، اُس کی زندگی کیسی ہوگی؟ یہی وجہ ہے کہ کہا جاتا ہے: "آنکھ کی قدر صرف اندھا جانتا ہے۔" اور جب کوئی نعمت چھن جائے، تب ہی انسان کو اُس کی قیمت کا اندازہ ہوتا ہے۔ قرآنِ مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: "فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ" یعنی: "پس تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟"

سو، صحت کی حفاظت محض طبّی احتیاط نہیں، بلکہ یہ شکرگزاری کا ایک عملی مظہر ہے۔ یہ رب کی نعمتوں کو سنبھالنے، ان کا درست استعمال کرنے اور اپنی زندگی کو اس کے احکام کے مطابق گزارنے کی سبیل ہے۔