" سر ! مجھے رات بھر بےچینی رہی ۔ آپ ذرا دوبارہ اچھی طرح سوچیں کہ آپ نے کل سے آج تک کہاں کہاں پیسے خرچ کیے ہیں ؟ " محمد طارق صاحب نے صبح سویرے اپنے اسکول کے ہیڈماسٹر عبداللہ صاحب کو فون کر کے اپنی پریشانی کا ذکر کیا ۔
محمد طارق صاحب چند روز قبل ہی ایک دوسرے اسکول سے ٹرانسفر ہو کر عبداللہ صاحب کے اسکول آئے تھے اور بہت جلد ہی انھوں نے اپنی فرض شناسی ٬ محنت ٬ لگن اور خلوص سے ہر ایک کو اپنا گرویدہ بنا لیا تھا ۔ آتے ہی انھوں نے بڑھ چڑھ کر اسکول کی بہتری کے کاموں میں حصہ لینا شروع کردیا تھا ۔ علاوہ دیگر صفات کے ہیڈماسٹر صاحب ان کی پبلک ڈیلنگ کی صلاحیت کے بےحد معترف تھے ۔ انھوں نے اپنی اسی صلاحیت کو استعمال کر کے اسکول کے کئی ترقیاتی کام نصف خرچ میں مکمل کرا لیے تھے ۔ ہیڈماسٹر صاحب اب ان سے ذاتی کاموں میں بھی مشورے اور مدد لیتے تھے ۔
'' طارق صاحب ! شہر میں بکرے کا گوشت کہاں سے اچھا مل جاتا ہے ؟ آپ تو یہاں پرانے ہیں ۔ " ہیڈماسٹر صاحب نے ٬ جو حال ہی میں گاؤں سے شہر منتقل ہوئے تھے ٬ طارق صاحب سے پوچھا ۔
طارق صاحب ٬ جو ہر وقت دوسروں سے تعاون و رہنمائی کےلیے تیار رہتے تھے ٬ نے فورا جواب دیا :
" سر ! کوئی بات نہیں ۔ آج ہم چھٹی کے بعد اکٹھے چلیں گے ۔ میں آپ کو دکان بھی دکھادوں گا اور ان سے آپ کا تعارف بھی کرادوں گا ۔ تا کہ آپ کو بعد میں بھی آسانی رہے ۔ "
" جی ۔ ٹھیک ہے ۔ لیکن میں نے تو ابھی تک تنخواہ نہیں نکلوائی ۔ میری جیب خالی ہے ۔ " عبداللہ صاحب نے کہا ۔
" کوئی بات نہیں سر ! میں آپ کو پیسے دے دوں گا ۔ آپ پھر جب تنخواہ لیں ٬ تو مجھے میری رقم واپس کردیجیے گا ۔ " طارق صاحب نے جواب دیا ۔
اگلے روز ہیڈماسٹر صاحب جوں ہی اپنا پیریڈ پڑھا کر کمرہ جماعت سے باہر نکلے تو طارق صاحب سے سامنا ہوگیا ۔ انھوں نے فوری جیب سے بٹوہ نکالا اور دو ہزار روپے نکال کر طارق صاحب کی جانب بڑھا دییے اور ساتھ ہی شکریہ بھی ادا کیا ۔
طارق صاحب دو ہزار روپے ہاتھ میں لے کر کچھ سوچ میں پڑ گئے جیسا کہ رقم کم سمجھ رہے ہوں ۔
" طارق صاحب ! پیسے پورے ہیں ؟ آپ نے مجھے دو ہزار ہی دییے تھے ناں ؟ " عبداللہ صاحب نے طارق صاحب کو فکرمند دیکھ کر سوال کیا ۔
" سر ! مجھے جیسے یاد پڑتا ہے کہ میں نے پہلے آپ کو دو ہزار روپے دییے تھے اور پھر ساتھ ہی ایک ہزار رقم مزید بھی دی تھی ۔ " طارق صاحب نے وضاحت کی ۔
" جی ۔ کوئی بات نہیں ۔ میں بھول گیا ہوں گا ۔ یہ ایک ہزار آپ اور رکھ لیں ۔ " عبداللہ صاحب نے ایک ہزار کا نوٹ ان کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا ۔
" سر ! آپ ذرا اچھی طرح سوچیں ۔ آپ کو یاد آجائے گا ۔ میں نے دو ہزار کے بعد ایک ہزار الگ آپ کو دییے تھے ۔ " طارق صاحب نے عبداللہ صاحب کی تسلی کےلیے کہا ۔
" نہیں ۔ نہیں طارق صاحب ! جب آپ کو یاد ہے تو سوچنے کی کیا ضرورت ہے اور شاید آپ کو معلوم نہیں مجھے تو بھولنے کی بہت عادت ہے ۔ اس لیے آپ بےفکر ہو کر یہ رقم اپنے پاس رکھیں ۔ "
اس وقت تو طارق صاحب تین ہزار روپے لے کر چلے گئے لیکن ان کا دل بےچین رہا اور انھیں بار بار یہ بات کھٹکتی رہی کہ ہیڈماسٹر صاحب نے شروع میں دو ہزار روپے کیوں واپس کیے تھے ۔ ممکن ہے میں نے انھیں دو ہزار ہی دییے ہوں اور میں بھول رہا ہوں ۔ اسی پریشانی میں ان کی رات گزری اور صبح ہوتے ہی انھوں نے ہیڈماسٹر صاحب کو فون کر کے اپنی بے چینی کا بتایا اور انھیں کہا کہ وہ اچھی طرح سوچیں کہ انھوں نے بینک سے کتنے پیسے نکلوائے تھے اور پھر کہاں کہاں خرچ کیے اور اب ان کے پاس کتنی رقم بقایا ہے ۔ اس طرح انھیں معلوم ہو جائے گا کہ میں نے انھیں دو ہزار روپے دییے تھے یا تین ہزار
" دیکھیں طارق صاحب ! آپ پریشان کیوں ہوتے ہیں ۔ آپ بےفکر ہو کر یہ رقم استعمال کریں ۔ میں نے جب کہہ دیا ہے کہ یہ پیسے آپ ہی کے ہیں ۔ " عبداللہ صاحب نے ان کی ساری بات سن کر جواب دیا ۔
" نہیں سر ! آپ ذرا ذہن پر زور ڈالیں اور یاد کریں ۔ میں چاہتا ہوں کہ میں ان پیسوں کی طرف سے مطمئن ہو جاؤں کہ یہ سو فیصد میرے ہی ہیں ۔ فی الحال میں شک میں مبتلا ہو گیا ہوں ۔ " طارق صاحب نے زور دیتے ہوئے کہا ۔
" طارق صاحب ! دیکھیں ۔ میں نے کل بھی آپ کو بتایا تھا کہ مجھے چیزیں یاد نہیں رہتیں ۔ اب کل سے آج تک کے سارے خرچ کا حساب کرنا میرے لیے مشکل ہے ۔ اور پھر میں حساب کروں بھی تب ٬ کہ مجھے کوئی تشویش ہو ۔ مجھے تو آپ پر سو فیصد اعتماد ہے ۔ آپ کو جب یاد ہے کہ آپ نے مجھے تین ہزار روپے دییے تھے ۔ تو بات ختم ۔ " عبداللہ صاحب نے فیصلہ کن لہجے میں کہا ۔
" نہیں سر ! اس طرح میں ان پیسوں کو استعمال نہیں کر سکتا ۔ اب یہ مشکوک ہوگئے ہیں ۔ اور مشکوک مال کو استعمال میں لانا ٬ میں غلط سمجھتا ہوں ۔ اب اس طرح کریں کہ یہ ایک ہزار روپے آپ ہی رکھ لیں ۔ " طارق صاحب نے کہا ۔
" نہیں نہیں ۔ میں کیسے رکھ سکتا ہوں طارق صاحب ! میں خود انھیں اپنے لیے مشکوک سمجھتا ہوں ۔ " عبداللہ صاحب نے فوری جواب دیا ۔
" اچھا پھر اس طرح کرتے ہیں کہ پانچ سو آپ رکھ لیں اور پانچ سو میں رکھ لیتا ہوں ۔ " طارق صاحب نے تجویز دی ۔
" نہیں ۔ طارق صاحب ! میں پانچ سو رکھ بھی لوں تو میرے لیے تو پانچ سو بھی مشکوک مال ہی رہیں گے ۔ کیوں کہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ پورے ہزار آپ ہی کے ہیں ۔ " عبداللہ صاحب نے یہ کہہ کر پانچ سو روپے لینے سے بھی انکار کردیا ۔
" سر ! میری حالت بھی آپ والی ہی ہے ۔ اچھا پھر اس طرح کرتے ہیں کہ یہ ایک ہزار روپے نہ آپ رکھیں نہ میں، بلکہ انھیں ہم اسکول میں جاری ترقیاتی کاموں کےلیے جمع کرا دیتے ہیں ۔ " طارق صاحب نے نئی تجویز دی ۔
" ہاں ! یہ فیصلہ بالکل درست ہے ۔ " ہیڈماسٹر صاحب فورا پکار اٹھے ۔
تبصرہ لکھیے