گزشتہ دنوں ایک مصری سلفی عالم کا فتویٰ پڑھا، تو دل دہل گیا۔ کہاں انسانیت سسک رہی ہے، بچے بلک رہے ہیں، اور کہاں یہ ”اہلِ دین“ قرآنی احکام کی روح کو مسخ کر کے ظلم کی تاویلیں گھڑ رہے ہیں۔ ان کے فتووں سے نہ صرف دین کی اصل تعلیمات مجروح ہوتی ہیں بلکہ یہ بےحسی کے ایسے مظاہرے ہیں جن سے شیطان بھی شرما جائے۔
صورت ایسی کہ جیسے تقویٰ کا مجسمہ ہوں، پیشانی پر محراب، چہرے پر داڑھی، زبان پر عربی فصاحت، مگر درحقیقت یہ وہ دین فروش ہیں جنہوں نے پارسائی کو محض ایک لیبل بنا رکھا ہے۔ ان کی باتوں میں نہ سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی روح جھلکتی ہے، نہ مظلوموں سے ہمدردی، نہ ظالموں سے نفرت۔ ایسے میں یہ فتویٰ نہیں، بلکہ ضمیر کی قبر سے گونجتی آواز لگتی ہے: ”بیچا گیا ہے!“
ظلم پر تاویل؟ حمایت یا خیانت؟
جب غزہ میں قیامتِ صغریٰ برپا ہو، جب اسرائیلی طیارے بستیاں روند دیں، جب بچوں کی لاشیں ملبوں تلے دب جائیں، تو فطری بات یہ ہے کہ دل رنجیدہ ہو، زبان حق کے لیے کھلے، اور حکمرانوں کی بے حسی پر سوال اٹھیں۔ مگر یہاں تو الٹی گنگا بہ رہی ہے! دین فروش تاویلات کے دریچے کھول کر اسرائیلی ظلم کا جواز گھڑ رہے ہیں، اور بے حس حکمرانوں کی خاموشی کو ”حکمت“ کا نام دے رہے ہیں۔ یہی وہ مقام ہے جہاں ضمیر فروش اور دین فروش ایک ہی صف میں کھڑے نظر آتے ہیں۔
پاکستان میں بھی ریال و ڈالر پر پلنے والے
یہ بیماری صرف عرب دنیا تک محدود نہیں۔ پاکستان میں بھی کچھ چہرے ایسے ہیں جن کی بصیرت ڈالروں کے نرخنامے سے شروع ہو کر ریال کی چمک پر ختم ہو جاتی ہے۔ یہ لوگ نہ ظلم کے خلاف بولتے ہیں، نہ سچ کا ساتھ دیتے ہیں، بلکہ ان کا دین محض ”فنڈڈ خطبات“ اور ”مصلحت آمیز خاموشی“ تک محدود رہ گیا ہے۔
امن معاہدوں کی تاویلات: چند تلخ سوالات
آج جو اسرائیل کے ساتھ کیے گئے ”امن معاہدوں“ کو اہلِ غزہ کی مدد میں رکاوٹ کے طور پر پیش کرتے ہیں، ان سے چند سادہ، مگر کڑوے سوال پوچھنا لازم ہے:
• کیا جن مسلم ممالک نے اسرائیل سے دوستی کی، انہوں نے اہلِ غزہ یا فلسطینی عوام سے مشورہ کیا؟
• کیا ارضِ فلسطین اور بیت المقدس پوری امتِ مسلمہ کا مشترکہ دینی ورثہ نہیں؟
• کیا اسرائیل نے معاہدے کے نتیجے میں قبضہ کیا، یا اس کی بنیاد ہی غصب، دھوکہ اور جبر پر ہے؟
• کیا مزاحمت کی ابتدا 2023 یا 2024 میں ہوئی؟ یا یہ جدوجہد عشروں سے جاری ہے؟
• اور اگر کسی گھر میں مسلح ڈاکو گھس آئے، تو کیا مزاحمت کرنا ”امن معاہدہ توڑنے“ کے زمرے میں آتا ہے؟
یہ سوالات ہر اُس شخص، حکمران اور ”عالم“ کے سامنے رکھے جانے چاہییں جو اسرائیلی ظلم کو مذہبی تاویلات کے پردے میں چھپانا چاہتے ہیں۔
قرآن کیا کہتا ہے؟
قرآن ہمیں معاہدوں کی حرمت سکھاتا ہے، مگر ساتھ ہی ان معاہدہ شکنوں کے لیے واضح احکام بھی دیتا ہے: إِنَّ شَرَّ ٱلدَّوَآبِّ عِندَ ٱللَّهِ ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ… ثُمَّ يَنقُضُونَ عَهۡدَهُمۡ فِي كُلِّ مَرَّةٖ… (سورۃ التوبہ: 55-58)
جو بار بار عہد توڑیں، ان سے نرمی نہیں بلکہ فیصلہ کن انداز اپنانے کا حکم ہے۔ آج اسرائیل یہی کرتا ہے — ہر معاہدہ توڑتا ہے، ہر موقع پر معصوموں کا خون بہاتا ہے۔ پھر اس سے امن کی امید کیوں؟
امن کی نہیں، کمزوری کی بات ہے
قرآن صلح کا درس دیتا ہے — مگر شرط یہ ہے کہ وَأَنتُمُ ٱلۡأَعۡلَوۡنَ یعنی ”تم غالب ہو“۔ غلامی کی بنیاد پر صلح دراصل ذلت ہے، امن نہیں۔ بدقسمتی سے آج مسلم دنیا کے بیشتر امن معاہدے کمزوری، خوف اور غلامی پر مبنی ہیں — اور اہلِ غزہ اس کی قیمت چکا رہے ہیں۔
ایک فتویٰ جو خیانت کی سند ہے
فتویٰ دینے والے صاحب نے فرمایا: ”فرعون نے 80 ہزار بچوں کو قتل کیا، موسیٰ علیہ السلام نے صبر کی تلقین کی“۔
کتنی حیرت انگیز تاویل ہے! بنی اسرائیل غلام تھے، اہلِ غزہ آزادی کے علَم بردار ہیں۔ موسیٰؑ کی داستان کا اختتام تو قتال پر ہوا، نہ کہ دائمی صبر پر۔
اسی طرح سیدنا خضرؑ اور کشتی کے واقعے سے استدلال — یعنی تکوینی امور کو تشریعی احکام پر قیاس کرنا — خالص علمی بددیانتی ہے، جس سے دین کی روح مجروح ہوتی ہے۔
اہلِ غزہ: آج کا فرقان
اہلِ غزہ محض مظلوم نہیں، وہ ہمارے ضمیروں کا امتحان ہیں۔ وہ خبیث اور طیب، حق اور باطل کے درمیان فرق کا معیار بن چکے ہیں۔ جیسا کہ قرآن فرماتا ہے: لِّيَمِيزَ ٱللَّهُ ٱلۡخَبِيثَ مِنَ ٱلطَّيِّبِ (سورۃ الانفال: 37)
آج جو اہلِ غزہ کے ساتھ نہیں، وہ درحقیقت باطل کے ساتھ ہیں۔ اور جو فتویٰ کے نام پر ان کی جدوجہد کو ”غیر ضروری“ قرار دیتے ہیں، وہ علم و دین دونوں سے خیانت کے مرتکب ہیں۔
اختتامیہ: ہمارا فریضہ
یہ وقت خاموشی کا نہیں — بلکہ اہلِ غزہ کے ساتھ کھڑے ہونے، آواز بلند کرنے، حق کا ساتھ دینے، اور ظلم کے خلاف ڈٹ جانے کا وقت ہے۔
یہ جہاد صرف ہتھیار سے نہیں، بلکہ قلم، دعا، احتجاج اور عملی تعاون سے بھی لڑا جا سکتا ہے۔
اللہ ہمیں وہ ایمان دے جو ظالم سے ٹکرا سکے، اور وہ حکمت دے جو دین کو تاویلوں کی بجائے عمل سے زندہ رکھے۔
اللهم انصر أهل غزة، واذلَّ أعداءهم، وثبت أقدام المجاهدين، وارزقنا نصرة الحق قولاً وعملاً
تبصرہ لکھیے