علامہ محمد اقبال کا یہ مشہور شعر:
تو نے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہُوری نظام
چہرہ روشن، اندرُوں چنگیز سے تاریک تر!
محض ایک ادبی تخلیق نہیں بلکہ مغربی جمہوری نظام پر ایک عمیق فکری اور سیاسی تنقید ہے۔ اقبال کے نزدیک مغربی جمہوریت ایک ایسا نظام ہے جو ظاہری طور پر روشن اور دلکش نظر آتا ہے لیکن اس کا باطن ظلم، استحصال اور نفاق سے لبریز ہے۔ اس مضمون میں ہم اقبال کے تنقیدی زاویۂ نظر کے تحت مغربی جمہوریت کی حقیقت کا جائزہ لیں گے، فلسطین و غزہ میں ہونے والے مظالم اور مسلم حکمرانوں کی خاموشی کا تجزیہ کریں گے، اور استعمار زدہ ذہنیت کے اثرات پر روشنی ڈالیں گے۔
1. اقبال کی فکر میں مغربی جمہوریت!
اقبال کے نزدیک مغربی جمہوریت فرد کو آزادی، مساوات اور انسانی حقوق کے نام پر فریب دیتی ہے، جب کہ حقیقت میں یہ نظام سرمایہ دارانہ مفادات، استعماریت اور روحانی و اخلاقی زوال کا نمائندہ ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
جمہوریت ایک طرزِ حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں، تولا نہیں کرتے
یہ شعر مغربی جمہوریت کی اس حقیقت کو آشکار کرتا ہے کہ اس میں معیار کا نہیں، بلکہ تعداد کا لحاظ رکھا جاتا ہے، جس سے قیادت نااہل اور عوام گمراہ ہو جاتے ہیں۔
2. مغربی جمہوریت کا عملی چہرہ اور استعماری رویہ!
مغربی جمہوریت جن اصولوں — انسانی حقوق، آزادی اظہار، مساوات — کا دعویٰ کرتی ہے، وہ درحقیقت طاقتور ممالک کے مفادات کی حفاظت کے سوا کچھ نہیں۔ عراق، افغانستان، لیبیا، اور شام پر کی گئی جارحیت اس کی واضح مثالیں ہیں۔ نوآبادیاتی نظام کے بعد مغرب نے اپنی استعماریت کو جمہوریت کے پردے میں جاری رکھا۔ جیسا کہ ایڈورڈ سعید (Edward Said) نے اپنی کتاب Orientalism میں مغرب کی علمی، تہذیبی اور سیاسی برتری کے دعووں کو چیلنج کیا، اسی طرح اقبال بھی مغرب کی اخلاقی منافقت کو بے نقاب کرتے ہیں۔
3. فلسطین و غزہ: مغربی جمہوریت کا امتحان!
فلسطین، خصوصاً غزہ، میں اسرائیلی مظالم — جن میں بچوں کا قتل، ہسپتالوں اور اسکولوں پر بمباری، محاصرے اور انسانی بحران — مغربی جمہوریت کی اصل حقیقت کو دنیا کے سامنے لے آئے ہیں۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ (UN OCHA، 2023) کے مطابق، 2023 میں غزہ پر اسرائیلی حملوں میں ہزاروں فلسطینی شہید اور لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں۔ امریکہ ہر سال اسرائیل کو 3.8 بلین ڈالر سے زائد کی فوجی امداد فراہم کرتا ہے (Congressional Research Service, 2022) اور اقوامِ متحدہ میں اسرائیل مخالف قراردادوں کو ویٹو کرتا ہے۔ یورپی یونین، اگرچہ انسانی حقوق کی بات کرتی ہے، مگر اسرائیل کے ساتھ تجارتی تعلقات جاری رکھے ہوئے ہے۔ یہ سب اس بات کا ثبوت ہیں کہ مغربی جمہوریت انصاف کی نہیں بلکہ مفادات کی محافظ ہے۔
4. مسلم حکمرانوں کی خاموشی اور مفاہمت!
مسلم دنیا کے حکمران، خصوصاً عرب ریاستیں، فلسطینی عوام کے ساتھ اپنی دینی اور اخلاقی ذمہ داری ادا کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ متعدد ممالک نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کر لیے ہیں، جن میں متحدہ عرب امارات، بحرین، مراکش، سوڈان شامل ہیں. یہ سب ابراہیمی معاہدہ کے تحت امریکہ کی سرپرستی میں انجام پائے۔ ان تعلقات کا مقصد اقتصادی فائدے اور سیاسی تحفظ ہے، مگر اس کا سب سے بڑا نقصان فلسطینی عوام کو ہوا ہے، جو خود کو تنہا اور لاوارث سمجھنے لگے ہیں۔ مزید برآں، بعض عرب ممالک فلسطینی مزاحمتی تنظیموں کو "دہشت گرد" قرار دے کر مغربی بیانیے کی حمایت کرتے ہیں۔ ان کا میڈیا اسرائیلی مظالم پر خاموش یا نیم دل مذمت پر اکتفا کرتا ہے۔
5. استعمار زدہ ذہنیت اور فکری غلامی!
اقبال کے مطابق مسلم دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ فکری غلامی ہے۔ ان کے نزدیک:
غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں
جو ہو ذوقِ یقین پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
آج مسلم دنیا کے حکمران اور عوام مغربی تہذیب سے مرعوب ہو کر اپنی خودی کھو چکے ہیں۔ یہی استعمار زدہ ذہنیت مغرب کی اندھی تقلید، اسلامی اصولوں سے انحراف، اور مظلوم مسلمانوں سے لاتعلقی کا سبب ہے۔
مغربی جمہوریت، اقبال کے تنقیدی تناظر میں، ایک فریب ہے جو ظاہری چمک دمک اور کھوکھلے نعروں کے پیچھے ظلم، استحصال اور استعماری مفادات کو چھپائے ہوئے ہے۔ فلسطین اور غزہ میں ہونے والے مظالم، مغربی دنیا کی دوغلی پالیسیوں اور مسلم دنیا کی خاموشی نے اس نظام کے حقیقی چہرے کو بے نقاب کر دیا ہے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمان دانشور، عوام اور نوجوان اس فکری و عملی زوال سے نکل کر اسلامی اصولوں پر مبنی ایک عادلانہ اور خود مختار نظام کے قیام کی طرف بڑھیں۔
تبصرہ لکھیے