یہ زمین جس پر تم چلتے ہو، اور یہ آسمان جس کے نیچے تم سانس لیتے ہو، کسی دور میں یہ بھی گواہ بنتے تھے۔ آدم کے بیٹے ہابیل کا خون جب قابیل کے ہاتھوں بہایا گیا تو زمین نے وہ پہلا قطرہ اپنے سینے میں سموتے ہی سرگوشی کی تھی: "یہ خون بولے گا، یہ خون پکارے گا، اور تمہیں جواب دینا ہوگا۔"
صدیاں گزر گئیں، تہذیبیں مٹی ہو گئیں، اور زمانے بدلتے چلے گئے۔ لیکن خون آج بھی بولتا ہے۔ چیختا ہے۔ روتا ہے۔ سوال کرتا ہے — اور تم خاموش ہو۔
کیا تمہیں پتا ہے، آج امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی تاریخ کی سب سے بڑی تقسیم کے سامنے کھڑی ہے؟ یہ وہ لمحہ ہے جو امتوں کا مقدر طے کرتا ہے۔ یہ وہ وقت ہے جہاں صفیں بچھتی ہیں، علم بلند ہوتے ہیں، اور لشکر جدا ہو جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے تمہیں یہ موقع دیا ہے — اپنی صف چن لو۔
یہ تمہاری جنگ ہے یا نہیں؟
سورۃ التوبہ کی آیات گواہی دیتی ہیں کہ جب دین کو مدد درکار ہوتی ہے، تو تین گروہ ظاہر ہو جاتے ہیں۔
پہلا گروہ— وہ ہوتا ہے جو جھجکتا نہیں۔
اپنے مال اور جان سے میدان میں اترتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو سرحد پر نہیں، دل کے اندر جہاد کرتے ہیں۔ جو اپنی آسائشیں، آرام، انا، خوف — سب قربان کر دیتے ہیں۔ جنہیں معلوم ہے کہ ان کا دشمن صرف توپ و تفنگ سے نہیں، نظریے سے بھی آتا ہے۔ اور یہ دشمن، اگر تمہارا سب کچھ چھین لے، تب بھی تم سے تمہارا اللہ نہ چھین سکے — تو تم جیتے ہوئے ہو۔
"يُجَاهِدُوْنَ فِي سَبِيْلِ اللّٰهِ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ" (وہ اللہ کی راہ میں اپنے مال اور جان سے جہاد کرتے ہیں۔)
یہی وہ لوگ ہیں جو رب کے نزدیک متقی کہلاتے ہیں، جنہیں اللہ خود جانتا ہے، پہچانتا ہے، اور اپنی مدد سے سرفراز کرتا ہے۔
دوسرا گروہ — تڑپتے دل، خالی ہاتھ!
پھر ایک اور گروہ ہوتا ہے۔ وہ بھی لڑنا چاہتے ہیں، لیکن ان کے پاس وسائل نہیں۔ وہ سوشل میڈیا پر بائیکاٹ کی بات کرتے ہیں، دعائیں کرتے ہیں، لوگوں کو جھنجھوڑتے ہیں، آنکھوں میں آنسو لیے اٹھتے ہیں، کہیں جا نہیں سکتے لیکن دل ان کے محاذ پر ہوتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی آئے، نبی کریم سے عرض کی: "یا رسول اللہ، ہمیں بھی جہاد پر لے چلیے!" مگر نبی نے فرمایا، "میرے پاس تمہیں سوار کرنے کو کچھ نہیں۔" تو وہ روتے ہوئے لوٹے، اور قرآن نے ان کے آنسوؤں کو ہمیشہ کے لیے محفوظ کر دیا۔
"تَوَلَّوْا وَّ اَعْیُنُهُمْ تَفِیْضُ مِنَ الدَّمْعِ حَزَنًا اَلَّا یَجِدُوْا مَا یُنْفِقُوْنَ" (وہ واپس ہوئے، اور ان کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئی تھیں اس غم میں کہ ان کے پاس خرچ کرنے کو کچھ نہ تھا۔)
رب نے ان پر کوئی گناہ نہیں رکھا — بلکہ ان کی تڑپ کو اپنی رضا کا معیار بنا دیا۔
تیسرا گروہ — زمین سے چمٹے ہوئے لوگ!
اور آخرکار، تیسرا گروہ... وہ جو یہ سب کچھ دیکھتا ہے، مگر اس کا دل نہیں لرزتا۔ اس کی زبان نہیں ہلتی۔ اس کے دل پر مہر لگ چکی ہے۔ وہ دلیلیں دیتا ہے کہ "ہم کیا کر سکتے ہیں؟"، "یہ سب سیاست ہے"، "ہمیں اپنے ملک کے مسائل دیکھنے چاہئیں", "غ زہ والوں کو اپنے سے طاقتور دشمن کو للکارنا نہیں چاہیے تھا" وغیرہ وغیرہ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو بظاہر مسلمانوں میں ہوتے ہیں، لیکن دل سے ان کا تعلق اس امت سے نہیں ہوتا۔ قرآن ان کے بارے میں کہتا ہے:
"وَرَضُواْ بِأَن يَكُونُواْ مَعَ الْخَوَالِفِ" (اور وہ خوش ہیں کہ پیچھے رہنے والی عورتوں کے ساتھ ہو گئے۔)
یہ وہ لوگ ہیں جو نہ صرف جہاد سے انکار کرتے ہیں، بلکہ لڑنے والوں کو ملامت بھی کرتے ہیں۔ جب اہل حق کٹتے ہیں تو یہ کہتے ہیں، "ہم نے تو کہا تھا، جنگ مت کرو!" ان کے دل بزدلی سے بھرے ہوتے ہیں، اور اللہ نے خود ان پر ٹھپہ لگا دیا ہے۔
"وَطَبَعَ اللّٰهُ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ فَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ" (اللہ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی ہے، اس لیے یہ حقیقت کو نہیں جانتے۔)
تو تم کون ہو؟
اب سوال یہ نہیں رہا کہ "کیا ہو رہا ہے؟" سوال یہ ہے کہ "تم کہاں کھڑے ہو؟"
کیا تم اس قحط زدہ غ زہ کے لیے روئے ہو؟
کیا تم نے کبھی اپنا سمارٹ فون بند کر کے تنہائی میں مظلوموں کی داد رسی کے لیے سجدہ کیا ہو؟
کیا تم نے کبھی اپنی چائے، سگریٹ، یا برگر کے بجائے کسی یتیم کے لیے کچھ جمع کیا ہو؟
کیا تم نے کبھی اپنے بچے کو فل سطین کے کسی بچے کی تصویر دکھا کر، حق و باطل کا سبق دیا ہو؟
نہیں؟
تو جان لو — تم نے اپنی صف چن لی ہے۔
خاموشی کی قیمت:
یاد رکھو، خاموشی بھی ایک موقف ہے۔
یہ وہ نیوٹرلٹی ہے جس کی کوئی گنجائش کربلا میں نہیں تھی۔ جس کی کوئی جگہ غزوہ بدر میں نہیں تھی۔ جسے رب نے کبھی پسند نہیں کیا۔
یہ وہ غیر جانبداری ہے جس نے یزید کو تقویت دی، اور عمر بن سعد کو بےنام کر دیا۔
کچھ کر نہیں سکتے تو کچھ سہہ ہی لو!
اگر تم میدان میں نہیں جا سکتے، تو کم از کم زخم تو محسوس کرو۔
اگر تم بول نہیں سکتے، تو کم از کم رونا تو سیکھو۔
اگر تم کچھ دے نہیں سکتے، تو کم از کم کچھ چھوڑنا تو سیکھو — ایک عادت، ایک خواہش، ایک آسائش!
ایمان کوئی لکڑی کا تراشہ نہیں جو گلے میں ڈال لو اور بس —
ایمان ایک آگ ہے۔ جلتی ہے، جلاتی ہے، مگر روشنی دیتی ہے۔
آخری سوال:
جب قیامت کے دن رب تم سے پوچھے گا:
"میری راہ میں تم نے کیا کیا؟"
تو تم کیا کہو گے؟
کیا تم یہ کہو گے کہ: "میں نے تو بلیوں کو دودھ پلایا تھا؟"
"میں نے سوشل میڈیا پر فالوورز بڑھائے تھے؟"
"میں نے اپنے وطن میں مہنگائی کے خلاف احتجاج کیا تھا؟"
"میں تو نیوٹرل تھا!"
نہیں بھائی،
رب کو نیوٹرلز نہیں چاہییں،
رب کو وہ چاہییں جو کھڑے ہو سکیں — خود پر، زمانے پر، طوفانوں پر۔
تو فیصلہ تمہارا ہے — خود ہی منتخب کر لو:
1. وہ جو مال و جان سے لڑتے ہیں۔
2. وہ جو خالی ہاتھ، مگر دل سے شامل ہیں۔
3. یا وہ جو سب کچھ دیکھ کر بھی لب سی لیتے ہیں۔
رب ہمیں پہلے یا دوسرے گروہ میں رکھے — اور تیسرے سے بچا لے۔
آمین یا رب العالمین۔
تبصرہ لکھیے