یہ کائنات ازل سے کشمکشِ خواہش و حدود میں گھری رہی ہے۔ انسان جب فطرت کے بے ساختہ تقاضوں کو تہذیب کی قینچی سے کاٹنے بیٹھا تو یا تو منافق بن گیا یا مجرم۔ سوال یہ ہے کہ نکاح کے بعد اگر رخصتی نہ ہو، تو کیا میاں بیوی ایک دوسرے سے تنہائی میں ملاقات کر سکتے ہیں؟ جی کرسکتے ہیں... کیا اُن کا میلاپ شرعاً درست ہے؟ بالکل درست ہے... اور اگر ہے، تو کیا معاشرہ اسے قبول کرے گا یا لڑکی کو "دھرم کا تماشا" بنا دے گا؟
دیکھیے، نکاح کوئی لٹکا ہوا معاہدہ نہیں۔ یہ ایک جاندار، متحرک، زندہ رشتہ ہے جو شریعت میں مکمل ازدواجی زندگی کا پروانہ ہے۔ جب دو بالغ مسلمان گواہوں کی موجودگی میں ایجاب و قبول کرلیں، حق مہر طے ہو جائے، تو لڑکی لڑکے کی بیوی اور لڑکا اُس کا شوہر بن جاتا ہے۔ وہ دونوں اب وہ سب کچھ کر سکتے ہیں جو میاں بیوی کے مابین جائز ہے — چاہے وہ بات ہو، لمس ہو، بوسہ ہو یا مباشرت۔ یہ کوئی تخیلاتی بات نہیں، یہ فقہی اصول ہے۔ قرآن و سنت کا اٹل فیصلہ ہے۔
تو پھر رخصتی کیا ہے؟ رخصتی ایک سماجی رسم ہے، قانونی ضرورت نہیں۔ یہ والدین کے ذہنی اطمینان، معاشرتی شفافیت، اور عزت و احترام کے جذباتی اظہار کا ذریعہ ہے، لیکن اس کا شرعی نکاح سے کوئی تعلق نہیں۔ رخصتی سے پہلے میاں بیوی ایک دوسرے کے لیے حلال ہو چکے ہوتے ہیں۔ البتہ، یہاں سے شروع ہوتی ہے وہ کہانی جس کا نام "معاشرہ" ہے — وہ معاشرہ جو خود زنا کو آنکھ بند کر کے برداشت کرتا ہے مگر نکاح کے بعد جنسی تعلق پر ناک بھوں چڑھاتا ہے اگر رخصتی نہ ہوئی ہو۔
یہ دوغلا پن نہیں تو اور کیا ہے؟
آج یونیورسٹیوں کے کیمپس میں روزانہ ایسے سینکڑوں لڑکے لڑکیاں ملتے ہیں جو "بوائے فرینڈ، گرل فرینڈ" کے نام پر "کپل گول" سیٹ کرتے ہیں اور پھر ہر حد پار کر جاتے ہیں — بوس و کنار، تنہائی، ہوٹل، ہوسٹل، سیلفیز، فلٹریشن اور یہاں تک کہ جسمانی تعلق بھی۔ نہ نکاح، نہ رخصتی، نہ نان و نفقہ، نہ تحفظ، نہ عزت — صرف خواہش کی تکمیل اور وقتی سکون۔
اگر ایک نوجوان جوڑا بالغ ہے، ذہنی طور پر تیار ہے، اور شادی کا ارادہ رکھتا ہے تو وہ کیوں نہ نکاح کر کے اپنی فطری خواہشات کو حلال طریقے سے پورا کرے؟ کیوں نہ وہ ایک بامعنی، مہذب، شرعی بندھن میں بندھ کر ایک دوسرے کو جائز طور پر اپنائیں؟ اس سے بہتر کیا حل ہو سکتا ہے؟ نکاح — بغیر رخصتی — ان کی زندگی کو حلال کی طرف موڑ سکتا ہے۔ لیکن یہاں سماج کی دیواریں آجاتی ہیں۔ ماں باپ کہتے ہیں: "ابھی پڑھائی مکمل نہیں ہوئی"، "ابھی لڑکا کما نہیں رہا"، "ابھی بچی چھوٹی ہے" — اور یوں حلال پر پہرہ لگ جاتا ہے جبکہ حرام کھلی چھوٹ کے ساتھ مسکرا رہا ہوتا ہے۔
نکاح کے بعد مباشرت کا حق حاصل ہے۔ یہ اسلام کا عدل ہے، محبت کا ضامن ہے، اور فطرت کا احترام ہے۔ ہاں، مسئلہ تب پیدا ہوتا ہے جب ایک فریق — بالخصوص مرد — نکاح تو کر لیتا ہے لیکن بیوی کے حقوق ادا کرنے سے گریزاں ہوتا ہے, بیوی کے حقوق کیا ہیں؟ حق مہر, حسب توفیق اور طے شد نان نفقہ (جب تک والدین کے گھر ہو تو کپڑا لتہ اور بناؤ سنگھار و جیب خرچ وغیرہ اور جب شوہر کے گھر تو پھر دو وقت کا کھانا اور دیگر سبھی امور وغیرہ) اور جنسی اختلاط۔ جبکہ مروجہ رخصتی کلچر بمقابلہ نکاح کے بغیر جنسی اختلاط کی صورتحال میں مرد کو بیوی کا جسم تو چاہیے، مگر ذمہ داری کا بوجھ نہیں (سماجی طعنہ)۔ وہ اسے اپنے ماں باپ کے گھر چھوڑ دیتا ہے، خود بے فکری سے اپنی تعلیم مکمل کرتا ہے (معاشرتی مشاہدہ)، جیب والد کی اور بیوی کی تنہائی پر قابض! یہ سراسر ظلم ہے, نہ صرف سماجی، بلکہ شرعی بھی۔ (رکو جرا۔۔۔ صبر کرو)
خیر نان و نفقہ شوہر کی ذمہ داری ہے، ماں باپ کی نہیں۔ اگر ایک مرد عورت سے نکاح کرتا ہے، تو وہ اس کی مالی، جسمانی، اور جذباتی ذمہ داری لیتا ہے۔ اسے یہ حق حاصل نہیں کہ وہ صرف لذت کا طالب بنے اور باقی تمام حقوق کو نظر انداز کرے۔ (لیکن اگر مرد نسلی اصلی مرد اور بیوی کا چاہنے والا ہو اور "نان نفقہ جو کہ ویسے ہی بعد از نکاح بیوی کا حق ہے جیسے شوہر کا جنسی اختلاط کے حق" کو مانتا ہو اور ادا کرتا ہو تو پھر کاہے کی ٹینشن؟)
ایسے میں لڑکی کا استحصال ہوتا ہے — خواہ وہ رضا مندی سے ہو، مگر وہ برابر کی شریک نہیں۔ معاشرہ بھی اسی لڑکی کو بدنام کرے گا، مرد کو نہیں۔ یہی ہمارا بوسیدہ، غیر منصفانہ اور مرد پرور سماج ہے۔ (سمجھے؟ نہیں۔۔۔ تم سمجھے نہیں)
لیکن اس کا حل یہ نہیں کہ نکاح کو مشتبہ بنادیا جائے۔ اس کا حل یہ بھی نہیں کہ نوجوان صرف اس خدشے سے نکاح نہ کریں کہ کہیں مرد فائدہ اٹھا کر مکر نہ جائے۔ بھائی، مکرنا تو ولیمے کے بعد بھی ممکن ہے، مباشرت کے بعد بھی، بچے ہونے کے بعد بھی۔ کیا ایسی شادیاں کم ہوئی ہیں جن میں سالوں بعد طلاق ہو گئی؟ کیا ایسی لڑکیاں کم دیکھی گئیں جنہوں نے سب کچھ دے کر، بچوں کو پیدا کر کے، ایک دن اچانک خود کو طلاق یافتہ پایا؟
اصل سوال نیت کا ہے، تربیت کا ہے، اخلاق کا ہے اور حقیقی مردانگی کا ہے۔ نکاح کی طاقت اسی وقت مؤثر ہوگی جب دونوں فریق شریعت کو ماننے والے ہوں، دل میں خدا کا خوف ہو، اور نکاح کو محض لائسنس نہیں، ذمہ داری سمجھا جائے۔
جہاں تک والدین اور معاشرتی قبولیت کا تعلق ہے تو یہ بھی لمحہ فکریہ ہے کہ جب لڑکے لڑکیوں کے ناجائز تعلقات پر آنکھ بند رکھی جاتی ہے (دنیا کی بات کررہا ہوں۔۔۔ یہاں ایسا ہوتا ہے, البتہ مریخ کا کچھ کہہ نہیں سکتا)، تب کوئی احتجاج نہیں کرتا، لیکن نکاح پر اعتراض؟ کیا یہ منافقت نہیں؟
ہمیں اس بیانیے کو تبدیل کرنا ہوگا۔ نکاح جرم نہیں، حل ہے۔ اگر ایک لڑکا اور لڑکی شرعی طور پر نکاح کر لیتے ہیں، مگر کسی مجبوری — تعلیم، جاب، مالی حالات — کے باعث رخصتی ممکن نہیں، تو انہیں شرعاً ایک دوسرے سے ملنے، مباشرت کرنے، یا تنہائی گزارنے سے روکا نہیں جا سکتا, بلکہ اسے ٹابو بناکر اوئی اوئی توبہ کرنے کے بجائے معاشرتی نارم بنانے کی ضرورت ہے۔ ہاں، اگر اس میں کسی فریق کا استحصال ہو رہا ہو، تو یہ مسئلہ اخلاقی ہے، نکاح کا نہیں۔ لہذا اس کے لیے سیکس ایجوکیشن کے ساتھ ساتھ شریعی و اخلاقی تربیت اور نفسیاتی کاؤنسلنگ کی ضرورت ہے تاکہ دونوں مطلب لڑکا یا لڑکی کا کوئی استحصال نا ہو۔
قابل غور نکتہ یہ بھی ہے کہ نکاح کا مقصد صرف جسمانی میلاپ نہیں — یہ روحانی، معاشی، اور سماجی رفاقت ہے, اسی لیے اللہ نے نکاح کے باب میں بہت کچھ کہا اور لازم بلکہ فرض اور حلال کیا ہے اور اس پر زور جبکہ زنا یعنی بغیر نکاح اختلاط کو گناہ کبیرہ قرار دیا ہے۔ اگر معاشرہ اور والدین اس رشتے کو وقت پر آسان بنائیں، تو نہ لڑکیاں "سزا یافتہ بیویاں" بنیں گی، نہ لڑکے "بھاگتے مجرم"۔
یاد رکھیے، نکاح کے بعد اگر رخصتی نہ ہو، تب بھی بیوی، بیوی ہے۔ شوہر، شوہر ہے۔ ان کے حقوق، ان کی چاہتیں، ان کے جذبات، ان کی تنہائیاں سب حقیقی ہیں، سب جائز ہیں۔ (سمجھ رہے ہو, سمجھ رہے ہو آپ؟)
قصہ مختصر یہ کہ اسلام نے فطرت کو قید نہیں کیا، اسے حلال دائرے میں آزادنہ بہاؤ بخشا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم نہ صرف اس فہم کو قبول کریں بلکہ اس کے لیے راہیں ہموار کریں۔ لڑکی کو یہ حق ہو کہ وہ شوہر سے نان و نفقہ کا مطالبہ کرے اور ضرور کرے، لڑکا اگر بے بس ہے تو شریعت کے مطابق بیوی کو رخصت سے روکے (نا کے سماج و معاشرہ کی مرضی اور قدغن پر روکے باوجود سکت ہونے کے)، لیکن اس کی رضامندی سے۔ تب یہ رشتہ، یہ نکاح، نہ صرف شریعت کا نور ہوگا، بلکہ محبت کا سفر بھی۔
ورنہ معاشرہ یہی کرے گا — حرام کو سہولت دے گا، حلال کو مشروط بنا دے گا، اور انجام وہی ہوگا — محرومی، تنہائی، فحاشی، اور پھر اجتماعی زوال۔
پی ایس: اگر بعد از نکاح لڑکا ہر ماہ لڑکی کو معقول جیب خرچ, عیدین پر لباس و بناؤ سنگھار کا سامان, سالانہ موبائل و ماہانہ لوڈ وغیرہ وغیرہ متواتر دے رہا ہے (مروجہ و پسندیدہ بوائے فرینڈ گرل فرینڈ کلچر کے تحت) تو ایسی صورتحال میں دونوں لڑکا لڑکی کا جنسی اختلاط سو فیصد نہیں بلکہ ہزار فیصد شریعی اور جائز و حلال ہے اور یاد رہے جنسی اختلاط کا لطف یکطرفہ نہیں ہوتا لہذا خواتین اس پر حیاء کے متقاضی خاموش رہ لیں مگر چھوئی موئی بن کر فیمنسٹیانہ خیالات کے وٹے ہمارے سر مار کر ہمیں "چ" (مطلب چول) بنانے یا سمجھنے کی غلطی مت کریں۔ شکریہ!
تبصرہ لکھیے