دیہاتوں کے وہ غیر معروف "داستان گو" ایک انمول خزانہ ہوتے ہیں، جن کے پاس اپنے گاؤں، بستی یا قبیلے کی زبانی تاریخ ان کی یاداشت میں محفوظ ہوتی ہے یا نسل در نسل منتقل ہوتی رہتی ہے۔ یہ افراد رسمی تعلیم سے دور سہی، مگر ان کی یادداشت اور بیان کی طاقت حیران کن ہوتی ہے۔ وہ نہ صرف تاریخی واقعات، مقامی ہیروز، پرانی روایات، رسم و رواج اور تہواروں کی کہانیاں سناتے ہیں، بلکہ ان کہانیوں میں جذبات، مزاح، سبق، اور مقامی بولیوں کا ایسا رنگ ہوتا ہے جو کسی کتاب میں نہیں ملتا۔
ایسے "داستان گو" عام طور پر بزرگ ہوتے ہیں کسی چوک میں بیٹھے، یا کسی چھپر کے سائے تلے، جہاں بچے، نوجوان اور حتیٰ کہ بڑے بھی ان کے گرد جمع ہوتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ کس زمانے میں کون سا قحط آیا، کس نے زمین کاٹ کر نہر نکالی، کون سا پہلوان مشہور ہوا، یا کس کا عشق دیوانگی کی حد تک پہنچا۔ ان کی باتوں میں ماضی کی خوشبو، دیہاتی زندگی کی سادگی اور ایک منفرد بصیرت ہوتی ہے۔
بدقسمتی سے یہ "داستان گو" وقت کے ساتھ ساتھ ناپید ہوتے جا رہے ہیں، کیونکہ نئی نسل نہ ان کو سننے بیٹھتی ہے اور نہ ہی ان کی باتوں کو محفوظ کرنے کی کوشش کرتی ہے۔
یہ وقت کی اہم ضرورت بھی ہے کہ ان "داستان گو" بزرگوں کے سینوں میں چھپی زبانی تاریخ کو ضائع ہونے سے بچایا جائے۔ ان کی باتوں میں صرف کہانیاں نہیں بلکہ ایک پورے عہد کی تہذیب، زبان، رسم و رواج اور علاقائی دانش چھپی ہوتی ہے۔
جبی شاہ دلاور ضلع تلہ گنگ کی معروف یونین کونسل اور دریائے سواں کے کنارے زرخیز اور فطرتی حسن رکھنے والا گاؤں ہے۔ڈاکٹر ذوالفقار علی کلہوڑو جب اسلام آباد سے جبی شاہ دلاور کی وزٹ پر آئے تو انکے تحقیقی سٹائل ، انٹرویو کا طریقہ ،فوٹو گرافی کی مہارت اور اپنے مطلوبہ ٹارگٹس تک بر وقت پہنچنے کی حکمت عملی سے ہم بھی نئے تجربے سے گزرے۔
ڈاکٹر ذوالفقار علی کلہوڑو اسلام آباد سے اپنی نئی کتاب کے لئے ریسرچ ورک،علاقائی معلومات ،لکڑی کے دروازوں کے تاریخی نمونے اور چھتوں پر بنے نقش و نگار ،پتھر سے بنی دیواروں اور عمارتوں کے ڈیزائن،قبروں کے کتبوں کے نمونے ،ان پر لکھی تاریخیں اور ان پر اپنے عہد میں بنے ڈیزائن جو اب نادر اور نایاب ہوتے جا رہے ہیں انہیں کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کرکے اپنی نئی کتاب میں جبی شاہ دلاور کی ثقافتی تاریخ کو مستند ڈاکومنٹ کرنے کے لئے تشریف لائے ۔
ڈاکٹر ذوالفقار علی کلہوڑو، ملک محمد فاروق خان،طارق ملک،دلاور شاہ اور منصور شاہ نے جبی شاہ دلاور کے 90 سالہ بابا خورشید بھٹی سے پرانی جبی شاہ دلاور کی تاریخ سے شناسائی کے لئے ان کے ڈیرے پر جاکر ملاقات کی۔ ڈاکٹر ذوالفقار علی کلہوڑو نے انٹرویو کیا شروع میں جب وہاں گئے ملاقات ہوئی تو ہمیں بابا خورشید بھٹی سے کوئی غیر معمولی معلومات کی توقع نہ تھی لیکن ڈاکٹر صاحب کے سوال کرنے پر جس طرح بابا خورشید بھٹی نے اپنی یاداشت کی پوٹلی کھولی تو پتہ چلا کہ بابا گزشتہ صدی کی بات نہیں کررہا بلکہ ابھی ہونے والے واقعات سنا رہا ہو۔صرف جبی شاہ دلاور کی حد تک تاریخی یاداشت نہیں تھیں بلکہ علاقائی تاریخی واقعات بھی ان کی یاداشت میں محفوظ ہیں۔بابا خورشید بھٹی جبی شاہ دلاور کا مستند تاریخ گو اور قیمتی اثاثہ ہے۔
ڈاکٹر ذوالفقار علی کلہوڑو تو اسلام آباد جا چکے ہیں لیکن اہلیان جبی شاہ دلاور کو جبی شاہ دلاور کی تاریخ کو مستند کرکے محفوظ کرنے کا سنہری موقع ملا ہے۔بابا خورشید بھٹی کے پاس جبی شاہ دلاور کی انگریزوں کے دور سے ہندوؤں کی ہندوستان واپسی کی تاریخ ہے۔روحانی سلاسل،سرداری نظام،کاروبار میں ہندو راج کے تسلط، جبی میلہ کے منظر نامے، مفروروں کی غاروں کی اونچائی اور اس کے علاؤہ اگر جبی شاہ دلاور کی عسکری ، سیاسی ،سماجی،صحافتی اور ادبی تاریخ کو کھوجا جائے اور جبی شاہ دلاور کی شخصیات کا احاطہ کیا جائے تو کئی کتابوں کا مواد موجود ہے۔ اس کے لئے مواد اکھٹا کرنے سے کتابی شکل دینے تک ہماری خدمات حاضر ہیں دیکھنا یہ ہے کہ اہلیان جبی شاہ دلاور کے اندر اپنی تاریخ کو محفوظ کرنے کا کتنا جنون ہے۔
یونیورسٹیز اگر طلبہ کو دیہاتی بزرگوں سے کہانیاں سن کر ریسرچ پراجیکٹس یا اسائنمنٹس بنانے کو کہیں تو مقامی دیہاتی "داستان گو" اپنے سینوں میں محفوظ زبانی تاریخ کو انہیں منتقل کر سکتے ہیں جنہیں ڈاکومنٹ کرکے مستند کیا جا سکتا ہے۔
تبصرہ لکھیے