مئی 1916ء میں حکومت برطانیہ جب ایک طرف اپنے نمائندے مکموہن کے ذریعے شریف مکہ حسین بن علی سے یہ وعدہ کر رہی تھی کہ ترکوں کو عرب سے نکالنے کے بعد عدن سے لے کر حلب تک سارا عرب شریف مکہ کے حوالے کر دیا جائے گا، اور اسے بلاشرکت غیرے ان سارے علاقوں کا حکمران بنا دیا جائے گا اور اس نئے ملک کا نام مملکت حجاز Kingdom of Hejaz رکھا جائے گا ۔ عین اسی دوران دوسری طرف فرانس اور برطانیہ خفیہ طور پر عثمانی سلطنت کے عرب مقبوضہ علاقوں کی بندر بانٹ کرنے کا معاہدہ بھی کر رہے تھے کہ جنگ عظیم اول کے خاتمے کے بعد ترکوں سے آزاد کروائے گئے تمام علاقے کیسے آپس میں تقسیم کیے جائیں گے ۔ یہ معاہدہ عرب بغاوت شروع ہونے سے ایک مہینہ پہلے کیا گیا تھا ۔ مئی 1916ء میں یہ معاہدہ مکمل ہوا اور 10 جون 1916ء میں عرب بغاوت کا آغاز ہوا ۔ برطانیہ اور فرانس کے اس خفیہ معاہدے کو سائیکس- پیکو معاہدہ Sykes–Picot Agreement- 1916 کہا جاتا ہے ۔
مارٹن سکر نے اپنی کتاب (2001) The Middle East in the Twentieth Century میں بیان کیا ہے کہ ”معاہدے پر مذاکرات 23 نومبر 1915ء کو فرانسیسی سفیر فرانکوئس جورجز پیکوٹ اور برطانیہ کے مارک سائیکس کے درمیان شروع ہوئے۔ 3جنوری 1916 ء کو اس معاہدے کا مسودہ دونوں حکومتوں کو منظوری کے لیے بھجوا دیا گیا، اور مئی 1916 ء میں اس پر دونوں حکومتوں کے نمائندوں نے دستخط کر دیے “۔
حکومت برطانیہ کی طرف سے سر ایڈورڈ گرے Sir Edward Grey اور فرانس کی جانب سے پال کیمبن Paul Cambon نے اس پر دستخط کیے ۔ اس بندر بانٹ کے تحت اردن، عراق، فلسطین موجودہ اسرائیل اور حیفہ اور عکہ کے گرد مختصر علاقہ بحیرہ روم تک رسائی کے لیے برطانیہ کو دیا گیا۔ فرانس کے حصے میں جنوب مشرقی ترکی، شمالی عراق، شام اور لبنان کے علاقے آئے ۔ دونوں قوتوں کو اپنے علاقوں میں ریاستی سرحدوں کے تعین کی کھلی چھوٹ دی گئی۔
یہ مارک سائیکس وہی تھا جس نے عرب بغاوت کا پرچم تشکیل دیا تھا ۔ گویا جب وہ یہ پرچم بنا رہا تھا تو اچھی طرح جانتا تھا کہ جنگ جیتنے کے بعد حسین بن علی کو جھنڈی کروا دی جائے گی، اور یہ علاقے فرانس اور برطانیہ اپنے درمیان تقسیم کر لیں گے۔ بعد ازاں اس معاہدے میں اٹلی اور روس کو بھی شامل کر لیا گیا۔ روس کو آرمینیا اور کردستان کے علاقے دیے گئے، جبکہ اٹلی کو جزائر ایجیئن اور جنوب مغربی اناطولیہ میں ازمیر کے اردگرد کے علاقوں سے نوازا گیا۔ اناطولیہ میں اطالوی موجودگی اور عرب سرزمین کی تقسیم کا معاملہ بعد ازاں 1920ءمیں معاہدہ سیورے میں طے ہوا۔
یہ معاہدہ شاید پو شیدہ ہی رہتا لیکن 8 نومبر 1917ء کو ولادی میر لینن کی سربراہی میں بالشویک انقلابیوں نے آخری زار روس نکولس ثانی کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کر لیا، اور اس معاہدے کو عام کر دیا ۔ چند دنوں کے بعد دو روسی اخبارات پرواڈا Pravda اور ازویسٹیا Izvestia نے دنیا کے سامنے اس خفیہ معاہدے کی پول کھول دی۔ جب یہ معاہدہ ان اخبارات کی شہ سرخیوں کی زینت بنا تو ایک کہرام مچ گیا ۔ عرب دنیا میں غم وغصہ کی ایک لہر دوڑ گئی ۔ فرانس اور برطانوی حکومتوں کو سخت ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا ، اور خاص طور پر عربوں اور برطانوی حکومت کے تعلقات میں ایک سخت دراڑ پڑ گئی ۔ یہ معاہدہ عرب مزاحمت کے ہاتھوں دمشق کی فتح کے فوراً بعد منظر عام پر آیا ، جب تھامس لارنس نے مقامی عرب سرداروں کی مدد سے دمشق میں امیر فیصل بن حسین کی سرکردگی میں ایک عبوری عرب حکومت قائم کر دی تھی، جس کا سربراہ شہزادہ فیصل بن حسین تھا ۔
زئین این زئین Zeine N. Zeine نے اپنی کتاب [english] Struggle for Arab Independence میں بیان کیا ہے:[english] On 5 October, with the permission of General Allenby, Faisal announced the establishment of a fully and absolutely independent Arab constitutional government.Faisal announced it would be an Arab government based on justice and equality for all Arabs regardless of religion
ولسن اپنی کتاب ”لارنس آف عربیہ“ میں لکھتا ہے: Lawrence was instrumental in establishing a provisional Arab government under Faisal in newly liberated Damascus, which he had envisioned as the capital of an Arab state
دوسری طرف حسین بن علی بھی حسین مکموہن معاہدے کے پیش نظر عدن سے حلب تک اپنی حکومت کا اعلان کرنے کے بعد مملکت حجاز کا حکمران ہونے کااعلان کر چکا تھا ۔ لیکن ان دونوں باپ بیٹوں کی خوشیاں اس وقت ماتم میں بدل گئیں جب دمشق کی فتح کے فوراً بعد یہ معاہدہ منظر عام پر آیا اور عربوں اور حکومت برطانیہ کے تعلقات انتہائی سرد مہری کا شکار ہو گئے۔ عربوں کی وہ تلخی جو بئیر سبع کی فتح کے بعد بالفور اعلان سے پیدا ہوئی تھی، اب ناراضگی میں ڈھلنے لگی ۔ اور دھیرے دھیرے یہ ناراضگی مایوسی میں بدلنے لگی. انھیں دھوکا دہی کا احساس ہونے لگا کہ حکومت برطانیہ نے ان کی پیٹھ میں چھراگھونپا ہے، لیکن وہ یہ بھول گئے تھے کہ دھوکہ دہی اور احسان فراموشی کا ایک ایسا ہی چھرا انھوں نے بھی عثمانیوں کی پیٹھ میں گھونپا تھا ۔
فرانس نے سائیکس - پیکو معاہدے کے تحت شام اور لبنان پر اپنا دعویٰ کر دیا، اور حکومت برطانیہ سے مطالبہ کیا کہ شام کو شہزادہ فیصل کے قبضے سے چھڑا کر فرانس کے حوالے کیاجائے۔ اس معاہدے نے حکومت برطانیہ کو بہت مشکل میں ڈال دیا تھا۔ ساری دنیا میں اس کی منافقت اور جگ ہنسائی کے چرچے تھے. اپنے اخبار اپنی حکومت کے لتے لے رہے تھے. دنیا بھر کا میڈیا اس ڈپلو میسی اور سیاست کے بُخیے ادھیڑنے میں مشغول تھا ۔
پیٹر مینزفیلیڈ Peter Mansfield نے اپنی کتاب [english]The British Empire Magazine میں مانچسٹر گارڈین کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا : [english] The Manchester Guardian wrote in its 26 November 1917 paper that "the British were embarrassed, the Arabs dismayed and the Turks delighted". The agreement's legacy has led to much resentment in the region, among Arabs in particular but also among Kurds who were denied an independent state
جنگ میسلون
برطانوی حکومت دو سال تک اس مشکل سے نکلنے کا حل نہ نکال سکی تو اس نے شہزادہ فیصل پر اس معاہدے کو ماننے کے لیے دباؤ ڈالا لیکن اس نے برطانوی حکومت کی تمام منافقت بھری منت وسماجت اور دوغلی سیاست کو ماننے سے انکار کردیا اور مارچ 1920ء میں شام کا حکمران ہونے کا اعلان کر دیا ۔ جس پر فرانس نے حکومت برطانیہ کی منظوری سے براہ راست اقدام اٹھاتے ہوئے جون 1920ء میں شام کی فیصل حکومت کو دمشق خالی کرنے کا الٹی میٹم دیا ۔ فیصل کے انکار پر 24 جولائی 1920ء کو دمشق سے پچیس کلو میٹر دور خان میسلون کے مقام پر دونوں فوجوں کا آمنا سامنا ہوا. چار گھنٹے کی اس جنگ میں فرانسیسی فوج نے عربوں کو شکست دے کر دمشق پر قبضہ کر لیا ۔ عرب جنرل یوسف العظمہ اس جنگ میں شہید ہوا، اور اسے اسی میدان جنگ میں دفنا دیا گیا. یوسف کی اس قربانی کی وجہ سے اسے آج شام میں ایک ہیرو کا کا درجہ حاصل ہے۔ شہزادہ فیصل اس جنگ میں شکست کے بعد دمشق پہنچا اور اس نے مقامی عرب سرداروں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن بدلتی رت نے عرب سرداروں کے کے رویے بھی بدل دیے۔
اگلے ہی دن فرنچ جرنیل ماريانو غوابيه Mariano Goybet دمشق میں داخل ہوا، اور سیدھا سلطان صلاح الدین کی قبر پر گیا ، اور قبر کو لات مار کر کہنے لگا: ”اٹھو صلاح الدین ہم آ گئے ہیں، ہماری یہاں موجودگی ہلال پر صلیب کی فتح ہے۔“
مائیر ، کارل ارنیسٹ ، بائیسک اور شیرین بلئیر [english]Meyer, Karl Ernest; Brysac, Shareen Blair (2008) نے اپنی مشترکہ کتاب Kingmakers: The Invention of the Modern Middle East میں جنرل غوابیہ کے الفاظ کو کچھ اس طرح قلم بند کیا ہے: Awake, Saladin. We have” returned. My presence here consecrates the victory of the Cross over the Crescent
جبکہ بار جیمیس Barr, James (2017) نے اپنے ایک مضمون General Gouraud: "Saladin, We're Back!" Did He Really Say It? میں لکھا ہے کہ وہ جنرل ماريانو غوابيه نہیں بلکہ ایک دوسرا فرنچ جنرل ہنری گورو تھا ۔ جیمس ایک چشم دید گواہ کے حوالے سے لکھتا ہے : Puaux says that Gouraud entered the tomb and exclaimed, “Saladin, nous voilà. یہ گواہ اس وقت جنرل گورو کے ہمراہ تھا اور اس جنگ مرسلین میں شریک تھا ۔
طارق علی نے اپنی کتاب The Clash of Fundamentalisms: Crusades, Jihads and Modernity, میں بھی کچھ اسی طرح کی کہانی بیان کی ہے ۔کہ جنرل ہنری گورو دمشق میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے صلاح الدین کے مقبرے پر پہنچا اور قبر کو لات مار کر کہنے لگا: [english] The Crusades have ended now! Awake Saladin, we have returned! My presence here consecrates the victory of the Cross over the Crescent
بے شک اس جنگ میں شامیوں کو فیصلہ کن شکست ہوئی، لیکن شام کی تاریخ میں اس جنگ کو بہت زیادہ اہمیت دی جاتی ہے، اور سامراج اور نوآبادیاتی نظام کے خلاف جہدوجہد اور اس میں مرنے والوں کی جواں مردی اور بہادری کو خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے۔ یہ جنگ مغربی دنیا کی منافقت ، دغا بازی ، احسان فراموشی اور مسلم دشمنی کی علامت کے طور پر بھی یاد رکھی جاتی ہے۔ ساطع الحصیری ایک شامی عرب نیشلسٹ مصنف ہے۔ وہ جنگ میسلون کو جدید عرب تاریخ کا ایک اہم ترین واقعہ قرار دیتے ہوئے کہتا ہے کہ 24 جولائی کو ملک شام میں ہر سال یہ دن بڑے اہتمام سے منایا جاتا ہے اور لوگ ایک جلوس کی شکل میں میسلون کے مقام پر شہید ہونے والے جنرل یوسف العظمہ کی قبر پر زیارت کے لیے جاتے ہیں ۔ وہاں ایک میلہ لگتا ہے، تقریریں ہوتی ہیں. دن بھر اس جنگ میں شہید ہونے والے شامیوں کی بہادری کو یاد کیا جاتا ہے اور اہل مغرب کی بے وفائی دغابازی منافقت اور مکاری پر تبرا بھیجا جاتا ہے۔
برطانوی مصنف رابرٹ فسک لکھتا ہے : Battle of Maysalun was "a struggle “ which every Syrian learns at school but about which almost every Westerner is ignorant
طارق ایچ اسماعیل نے مزید لکھا ہے: Syrian resistance at Khan Maysalun soon took on epic proportions. It was viewed as an Arab attempt to stop the imperial avalanche Syrians' defeat caused popular attitudes in the Arab world that exist until the present day which hold that the Western world dishonors the commitments it makes to the Arab people and "oppresses anyone who stands in the way of its imperial designs
دمشق کو فتح کرنے کے بعد فرانسیسیوں نے شہزادہ فیصل کو دمشق سے نکل جانے اور شام چھوڑ جانے کا حکم دیا۔ فیصل اور تھامس لارنس دمشق چھوڑ کر حسین بن علی کے پاس چلے آئے۔ شام میں شہزادہ فیصل کی حکومت صرف پانچ ماہ قائم رہی. علاوی نے لکھا ہے: Faisal's departure from Syria marked an end to his goal of establishing and leading an Arab state in Syria
سائکیس پیکو معاہدہ اتنا خفیہ تھا کہ میدان جنگ میں عربوں کے ساتھ مل کر جنگ لڑنے والے برطانوی اہل کار اور افسر تک اس سے بے خبر تھے. خاص طور پر لارنس جو عربوں میں رہ کر عرب بن چکا تھا اور عربوں کے مفادات کے لیے مخلص تھا سخت مایوس ہوا۔ اس نے برطانوی حکومت سے اس نا انصافی پر شدید احتجاج کیا لیکن اس کی ایک نہ سنی گئی اور اور اسے عرب سے واپس بلا لیا گیا ۔ لارنس اپنی باقی ساری زندگی حکومت برطانیہ کے اس اقدام پر شاکی رہا، جس کا برملا اظہار اس نے اپنی کتاب حکمت کے سات ستون Seven Pillars of Wisdom میں بھی کیا ہے۔ کلیمین ایرون نے [english] Lawrence as a Bureaucrat میں بیان کیا ہے کہ تھامس لارنس نے 21 مئی 1921 ء کو اپنے ایک خط میں مشہور برطانوی تاریخ نویس اور مصنف رابرٹ گریوز کو لکھا: I wish I hadn't gone out there: the Arabs are like a page I have turned over; and sequels are rotten things
شہزادہ فیصل کا ساتھ دینے پر اور عربوں کے حق میں آواز اٹھانے پر تھامس لارنس کو فرانس میں شدید نا پسندیدگی کی نظر سے دیکھا جاتا ہے، اور اسے فرانس کا دشمن سمجھا جاتاہے۔ لاری موریس ے اپنے ایک مضمون T. E. Lawrence and France: Friends or Foes? میں لکھا ہے: enemy of France", the man who was constantly stirring up the Syrians to rebel against French rule throughout the 1920s Lawrence is usually pictured in France as a Francophobe, but he was really a Francophile لیکن بعد میں وہ یہ بھی لکھتا ہے کہ فرانسیسیوں کا اصل مسئلہ یہ تھا کہ اہل شام ان سے شدید نفرت کرتے تھے اور کسی طور پر انھیں حکمران نہیں دیکھنا چاہتے تھے، جس پر انہوں نے سارا الزام تھامس لارنس پر دھر دیا ۔
فرانس نے یوں تو شام اور لبنان پر قبضہ 1920ء میں ہی کرلیا تھا، لیکن اسے حکمرانی کا بین الاقوامی جائز حق اس وقت ملا جب 1923 ء میں لیگز آف نیشن نے سائیکس پیکو معاہدے کی بندر بانٹ کے عین مطابق برطانیہ کو فلسطین، عراق اور اردن کا اور فرانس کو شام اور لبنان کا مینڈیٹ دے دیا ۔ جس کے تحت دونوں فاتح ممالک نے اپنے ان مفتوحہ علاقوں پر حکومت کرنی شروع کردی ۔ فرانس نے اپنی ان نئی مقبوضات میں پاؤں جمانے کی ہر ممکن کوشش کی، لیکن فرانس اور شامی عوام کے تعلقات پہلے دن ہی سے سرد مہری کا شکار تھے، جو وقت گزرنے کے ساتھ نفرت میں بدلتے چلے گئے، اور دوسری جنگ عظیم کے بعد صورت حال اس نہج پر پہنچ گئی کہ صرف بیس سال کے اندر اندر ہی فرانس 1946ء میں اپنا بوریا بستر سمیٹ کر ہمیشہ کے لیے شام اور لبنان سے نکلنے پر مجبور ہو گیا ۔
تبصرہ لکھیے