غزہ اس وقت صرف ایک جغرافیائی مقام نہیں، بلکہ پوری امتِ مسلمہ کے ضمیر کا نام ہے۔ یہ وہ سرزمین ہے جہاں بچوں کے جنازے، ماؤں کی آہیں، اور نوجوانوں کی قربانیاں پوری دنیا کے منہ پر طمانچہ ہیں۔ لیکن حیرت اس بات پر ہے کہ ظلم کی اس واضح تصویر کے باوجود کچھ لوگ سوال اٹھاتے ہیں کہ کیا اس تباہی کا ذمہ دار خود اہلِ غزہ نہیں؟ کیا حماس نے سات اکتوبر کو پہل کر کے اپنے عوام کو عذاب میں نہیں جھونکا؟ اور کیا موجودہ مزاحمت کو بدر جیسے غزوات سے تشبیہ دینا درست ہے؟ یہاں تک کہ کچھ افراد صلح حدیبیہ کا حوالہ دے کر مزاحمت کو غلط قرار دیتے ہیں۔
یہ سوچ دراصل اس ماحول کا نتیجہ ہیں جہاں ظلم کو مہذب زبان میں "ردِعمل"، اور مزاحمت کو "تشدد" کہا جاتا ہے۔ تاریخ کا ستم یہ ہے کہ مظلوم جب خاموش رہے تو امن پسند، اور جب بولے تو دہشت گرد ٹھہرا۔
حق بات یہ ہے کہ یہ سوالات دراصل ظلم کو جواز دینے کے مترادف ہیں۔ حماس نے کوئی نئی جنگ شروع نہیں کی، بلکہ یہ جنگ تو اہلِ غزہ پر دہائیوں سے مسلط ہے۔ کیا وہ دن جب معصوم بچوں کو گولیاں مار دی گئیں، جب گھروں کو مسمار کیا گیا، جب خواتین کو سرِ عام رسوا کیا گیا، جب نوجوانوں کو اذیت گاہوں میں ڈال دیا گیا—کیا وہ سب حالتِ امن کی علامت تھے؟ کیا یہ سب کچھ جنگ نہ تھا؟ کیا صرف اس لیے کہ دنیا خاموش رہی اور مسلم حکمرانوں نے آنکھیں بند کیے رکھیں، اس ظلم کو امن کہا جا سکتا ہے؟
کچھ لوگ ایک اور انداز سے یہی اعتراض دہراتے ہیں کہ اہلِ غزہ کی قلت کی تشبیہ غزوہ بدر کے مسلمانوں کی قلت سے نہ دی جائے، کیونکہ وہاں مسلمانوں نے جنگ میں پہل نہیں کی تھی بلکہ ان پر جنگ مسلط کی گئی تھی۔ اس اعتراض کی کمزوری اس مفروضے میں چھپی ہے کہ غزہ میں موجود فلسطینی امن کی حالت میں تھے، اور انہوں نے اچانک ہتھیار اٹھا لیے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اہلِ غزہ تو دہائیوں سے مسلسل حالتِ جنگ میں ہیں۔ ان کے لیے ہر دن ایک بدر ہے۔ ان پر نہ صرف زمینی و فضائی حملے معمول بن چکے ہیں بلکہ ان کی معاشی ناکہ بندی، بنیادی سہولیات کی بندش اور نسلی امتیاز بھی اس جنگ کے مستقل پہلو بن چکے ہیں۔ کیا ایک ایسے ماحول میں جہاں زندہ رہنا بھی روزانہ کی جنگ ہو، "پہل" کا مفہوم باقی رہتا ہے؟ اصل سوال یہ نہیں کہ کس نے پہل کی، بلکہ یہ ہے کہ کب ظلم اس حد کو پہنچتا ہے جہاں دفاع ایک فریضہ بن جاتا ہے؟ اور غزہ کی موجودہ حالت میں دفاعی کارروائی ہی ان کی مجبوری اور شرعی ذمہ داری ہے۔
اسی طرح بعض افراد عدم تشدد کے فلسفے کو بنیاد بنا کر صلح حدیبیہ کی مثال پیش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اہلِ غزہ کو جنگ کے بجائے صلح کی راہ اختیار کرنی چاہیے، کیونکہ قرآن نے صلح حدیبیہ کو "فتح مبین" قرار دیا ہے۔ مگر وہ اس بات کو نظرانداز کر دیتے ہیں کہ ایک تو اہل تاؤیل کا اس میں اختلاف رہا ہے کہ اس سے مراد صلح حدیبیہ ہے بھی یا نہیں۔ لیکن اگر مان بھی لیا جائے تو وہی لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ مشرکین مکہ نے کم از کم اس وقت معاہدے کی پاسداری کی، اور نبی کریم ﷺ نے اس معاہدے کو امت کے اجتماعی مفاد اور طویل المدتی حکمت عملی کے تحت قبول کیا۔ اس کے برعکس اسرائیل کا طرزِ عمل تاریخ اور حال دونوں میں اس بات کا گواہ ہے کہ وہ نہ کسی عہد کو مانتا ہے اور نہ کسی معاہدے کی پابندی کرتا ہے۔ ہر جنگ بندی کے بعد ظلم دوبارہ شدت سے لوٹتا ہے، اور ہر صلح کی آڑ میں مزید زمینوں پر قبضہ، بستیاں تعمیر اور قتل عام کیا جاتا ہے۔
قرآن کریم نے تو ایسے ظالموں کے ساتھ صلح کرنے سے پہلے ایک بنیادی شرط رکھی ہے:
"وَإِن جَنَحُوا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا..." (الأنفال: 61)
"اگر وہ صلح کی طرف مائل ہوں تو تم بھی صلح کی طرف مائل ہو جاؤ..."
لیکن کیا اسرائیل کبھی واقعی صلح کے لیے مائل ہوا ہے؟ کیا اس نے کبھی ایک بھی معاہدہ ایسا نبھایا ہے جس میں فلسطینیوں کو انصاف ملا ہو؟ اگر جواب "نہیں" ہے، تو صلح حدیبیہ کی مثال دینا محض ظاہری مماثلت کی بنیاد پر دلیل گھڑنا ہے، جبکہ اصل میں کوئی مشابہت نہیں پائی جاتی۔
اس وقت اگر کوئی چیز باقی ہے تو وہ اہلِ غزہ کا جذبۂ ایمانی ہے۔ وہ کمزور سہی، مگر ان کے حوصلے آسمانوں سے بلند ہیں۔ وہ تنہا سہی، مگر ان کے دل میں اللہ پر یقین، شہادت کی تمنا، اور اقصیٰ کی حرمت کے لیے مر مٹنے کا جذبہ ہے۔ ان کے ہاتھوں میں ہتھیار کمزور ہو سکتے ہیں، مگر ان کے ارادے فولاد سے زیادہ مضبوط ہیں۔
آج غزہ ایک میزان ہے—ایمان اور نفاق کا۔ جو اہلِ غزہ کے ساتھ ہیں، وہ حق پر ہیں۔ اور جو ان کی مزاحمت کو فساد، اور ان کی قربانی کو حماقت کہتے ہیں، وہ دراصل ظلم کے ساتھ کھڑے ہیں، خواہ وہ خود کو کتنا ہی معتدل، مصلح یا صاحبِ بصیرت کہلائیں۔
امت کے ہر فرد کو سوچنا ہوگا کہ وہ کہاں کھڑا ہے۔ غزہ کے بچے صرف اپنی جنگ نہیں لڑ رہے، وہ پوری امت کی عزت، غیرت اور دینی شناخت کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ اگر ہم نے ان کا ساتھ نہ دیا، زبان سے، قلم سے، دعا سے، حتیٰ کہ دل کی تڑپ سے بھی نہیں، تو کل ہمارا شمار بھی ان میں ہوگا جو اللہ کی نصرت سے محروم کر دیے گئے۔
یہ وقت خاموشی کا نہیں، پکارنے کا ہے۔ یہ وقت تجزیے کا نہیں، صف بندی کا ہے۔ اور یہ وقت سوالات اٹھانے کا نہیں، مظلوم کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کا ہے۔ غزہ پر حملہ درحقیقت ایمان پر حملہ ہے۔ اور جو ایمان سے جڑا ہوا ہے، وہ ہر حال میں اہلِ غزہ کے ساتھ ہے۔
تبصرہ لکھیے