حضور والا، اس سے ہوتا یہ ہے کہ اللہ کی طرف سے ہم پر عائد کردہ ذمہ داری پوری ہو جاتی ہے. اللہ کا ارشاد ہے
يا أيها الذين آمنوا كونوا قوامين لله شهداء بالقسط اے ایمان والو اللہ کے لیے عدل کے علم بردار بنو، اللہ کے لیے اس کی شہادت دیتے ہوئے (المائدۃ 8 ترجمہ مولانا امین احسن اصلاحی)
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے استطاعت کی صورت میں برائی کا برائی ہونا زبان سے بیان کرنے اور نظریتاً برا جاننے کا بھی حکم دیا ہے، ظلم سے بڑی برائی کیا ہوسکتی ہے، اللہ نے تو شرک کی سنگین قباحت بتانے کے لیے بھی ظلم کا لفظ چنا ہے، جس کا مطلب یہ کہ برائی کے لیے ظلم سے بڑی کوئی اور چیز ہو ہی نہیں سکتی.
بخاری وغیرہ میں حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی ایک حدیث میں نصر المظلوم کو بھی اللہ کے نبی کا ایک حکم بتایا گیا ہے. لہٰذا انصاف کی شہادت دینا اور ظلم کو ظلم کہنا بطور مؤمن ہماری ذمہ داری ہے. باقی رہی بات ہا ماس کے اقدام کو جانچنے اور اس کی تقویم کی تو وہ ایک الگ بحث ہے، اس کے لیے الگ سے بات کرنے کی کوشش کریں گے. لیکن اتنی بات ذہن میں رکھ لی جائے کہ ازرائیل چونکہ ایک غاصب ریاست ہے.
اس لیے مد مقابل سے اگر کوئی غلطی ہوئی بھی ہو تو وہ اس کی اپنی کمیونٹی کے حوالے سے ہی ہوگی، یہ نہیں کہا جا سکتا کہ فلاں نے یہ کیا تو اگر ازرا ئیل یہ نہ کرتا تو کیا کرتا، کیونکہ اس کا اخلاقی طور پر سیدھا سادہ جواب یہ ہے کہ وہ کرتا یہ کہ ناجائز قبضہ چھوڑ کر حق والوں کے سپرد ان کا حق کردیتا.
(غالباً امداد الفتاویٰ میں یا کہیں اور مولانا تھانوی رح کا قول پڑھا تھا کہ جب حضرت حسین رضی اللہ عنہ مکے سے روانہ ہوئے تھے تو یزید کی در حقیقت ذمہ داری بن گئی تھی کہ وہ خود تخت کو چھوڑ دیتا. حوالہ مستحضر نہیں اس لیے مولانا تھانوی کی طرف نسبت سے اس کو فی الحال ضمنی بات سمجھا جائے، مگر بات بذاتِ خود درست ہے).
تبصرہ لکھیے