مسئلہ فلسطین پر جناب احمد جاوید صاحب ہوں یا جناب غامدی صاحب کے شاگرد جناب حسن الیاس صاحب، ان جیسے سب حضرات فوری طور پر درپیش اصل مسئلے کے جواب کو اگنور کرکے غیر متعلق باتوں پر گفتگو کررہے ہیں۔ یہ بحث کہ اکتوبر 2023 کو اہل غزہ کی جانب سے کیا گیا اقدام شرعاً، عالمی قانون یا حکمت عملی کی رو سے درست تھا یا حرام، یہ باتیں اہم ہونے کے باوجود فی الوقت ثانوی ہیں۔ اصل سوال یہ ہے کہ اس وقت اس را ئیل جس طریقے سے اقدامات کرکے بے گناہوں کا قتل عمد کررہا ہے، کیا شرع و عالمی قوانین کی رو سے کسی محارب کو ان اقدامات کا حق حاصل ہے؟
نفس مسئلہ کو سمجھنے کے لئے مثال لیجئے اور یہ مثال ہم مخالفین اہل غزہ کے اقدام کی رعایت کرتے ہوئے پیش کرتے ہیں۔ فرض کریں ایک شخص اور کسی پولیس افسر کے مابین تاریخی طور پر کوئی خاندانی ان بن چلی آرہی ہے۔ ایک روز وہ شخص اس پولیس والے کو رستے پر جاتے ہوئے زور سے دو لتی رسید کردیتا ہے جس سے پولیس والے کو گہرا زخم لگ جاتا ہے۔ اس کے جواب میں پولیس والا اسے مار مار کے بے حال کردیتا ہے، اس کی بیوی بچوں کو بھی مارنے لگتا ہے، اس کے گھر کو بھی مسمار کرتا ہے وغیرہ۔ ایسے میں فوری طور پر متوجہ سوال کیا ہے؟
الف) یہ کہ پہلے قصور کس نے کیا تھا؟
ب) یا یہ کہ کیا اس شخص کو دولتی مارنے کا حق تھا یا نہیں؟
ج) یا یہ کہ اس شخص کو اپنی پسلی دیکھ کر اقدام کرنا چاہئے تھا؟
یہ سوالات اپنی جگہ اہم ہوسکتے ہیں، لیکن کیا یہ سوالات اس سوال سے زیادہ اہم ہیں کہ اس وقت وہ پولیس والا جو کررہا ہے کیا اسے یہ سب کرنے کا شرعا و قانوناً حق ہے؟
کیا اس سوال کے جواب میں یہ کہنا کوئی بامعنی بات ہوسکتی ہے کہ:
• طاقت کی اپنی اخلاقیات ہوتی ہے؟
• پولیس والا طاقتور ہے، وہ کمزور سے پوچھ کر جواب تھوڑی دے گا؟ وہ تو اپنے حساب سے جواب دے گا!
محلے میں کھلے عام اس پولیس والے کے اقدامات دیکھ کر کیا کوئی شخص واقعی ہوش و حواس میں رہتے ہوئے یہ جوابی تبصرے کرسکتا ہے؟ ان باتوں کا مطلب اس کے سوا اور کیا ہے کہ پولیس والا اگر اس شخص کے سارے خاندان کو مار دے تو بھی اس کا قصور وار وہ دو لتی مارنے والا شخص ہے نیز یہ پولیس والا یہ سب کرنے میں حق بجانب ہے؟ ہم جانتے ہیں کہ کوئی باضمیر شخص اس موقع پر ایسے تبصرے نہیں کرتا بلکہ فوری طور پر اسے یہی فکر لاحق ہوتی ہے کہ کسی طرح اس پولیس والے کو ان قدامات سے روکا جائے جو اس دولتی مارنے والے شخص کے اقدام سے علی الرغم ظلم و عدوان ہیں اور اس دو لتی مارنے کی شرعی و قانونی سزا نہیں۔
بالکل اسی طرح اہل غزہ کے خلاف جاری اقدامات پر فوری طور پر جو سوال متوجہ ہے وہ یہ ہے کہ علی الرغم اس بات کے کہ کس نے پہل کی نیز کون کتنا کمزور ہے اور کتنا طاقتور، کیا کسی محارب کے لئے ایسے اقدامات کرنا شرعاً و عالمی قوانین کی رو سے جائز ہیں یا حرام؟ چنانچہ ناقدین اہل غزہ کو دیگر باتیں ایک طرف رکھ کے سب سے پہلے اس بنیادی و فوری طور پر متوجہ اصل سوال کا جواب دینا چاہئے اور ایسی باتیں کرنے والے ہر شخص سے یہی سوال پوچھا جانا چاہئے کیونکہ اس سوال کو بائی پاس کرکے صرف ماضی پر تبصرہ کرنا اصل مسئلے سے توجہ ہٹانا ہے۔
اگر یہ اقدامات ان کے نزدیک بذات خود حرام نیز عالمی قانون کی رو سے ناجائز ہیں، تو
• اگلا سوال یہ ہے کہ ان اقدامات کو کرنے والے اور انہیں سپورٹ کرنے والے اور اسے جائز سمجھنے والے کا شرعی حکم کیا ہے؟
• جب یہ متعین ہوجائے کہ فی الوقت ظالم کون ہے تو اگلا سوال یہ ہے کہ فوری طور پر متوجہ اشو اس مسئلے کا حل تلاش کرنا ہے کہ اس پولیس والے کو یہ ظلم کرنے سے کیسے روکا جائے یا یہ تبصرے کرنا کہ ماضی میں کس نے کیا کیا اور کس نے کیا کیا نیز کون کمزور ہے اور کون طاقتور؟
• جب یہ طے ہوجائے کہ فوری ذمہ داری کیا ہے، تو پھر اس کے بعد سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس ذمہ داری کو ادا کرنے کے کیا طریقے ہوسکتے ہیں؟
الغرض ہمارے یہ مفکرین لوگوں کو غیر متعلق باتوں میں الجھا کر اصل مسئلے سے توجہ ہٹانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اچھی طرح سمجھنا چاہئے کہ اہل غزہ کو لاحق فوری مظلومیت کی بنیاد 1967 یا اس سے پہلے کے مسائل نہیں ہیں بلکہ فوری طور پر جاری اس را ئیلی اقدامات بذات خود اس کی بنیاد ہیں۔ ان اقدامات کو اہل غزہ کے ماضی کے کسی بھی عمل سے جواز نہیں دیا جاسکتا ۔
تبصرہ لکھیے