چند برس پہلے کی بات ہے، میں ایک دوست کے والد کے جنازے میں شریک ہوا،تدفین کے مراحل مکمل ہو ئے اور لوگ آہستہ آہستہ واپس جانے لگے ۔ میں اور میرا دوست کچھ دیر وہیں بیٹھے رہے۔میں نے اسے روایتی الفاظ سے تسلی دینے کی کوشش کی کہ ہر انسان نے اس دنیا سے جانا ہے وغیرہ وغیرہ مگر میرے دوست کی آنکھوں سے مسلسل آنسو بہ رہے تھے، وہ روتا جاتا تھا اور کہتا جاتا تھامیرے والد کی پلاننگ ادھوری رہ گئی، وہ کہتے تھے میں ذرا سیٹ ہو جاؤں پھر آرام کروںگا، پھرحج اور عمرے کے لیے جاؤں گا،پھر رشتہ داروں اور فیملی ممبرز کے ساتھ وقت گزاروں گا،پھر عبادت پر دھیان دوں گااور پھر بچوں کو وقت دوں گا لیکن افسوس وہ "پھر" کبھی نہیں آ سکا۔
ہماری زندگی کا المیہ یہ ہے کہ اس کا بیشتر حصہ ایک عبوری کیفیت میں گزرجاتا ہے،نہ مکمل جینے کا احساس نہ مکمل مرنے کی تیاری۔ ہم ایسے مسافر ہیں جو اسٹیشن پر کھڑے ہیں لیکن نہ گاڑی کا پتہ ہے نہ منزل کی خبر۔ ہم نماز بھی پڑھتے ہیں مگر عارضی توجہ سے؛ محنت کرتے ہیں مگر وقتی جذبے کے ساتھ؛ کام کرتے ہیں مگر دل سے نہیں۔ہمارے ہر عمل میں عارضیت کی جھلک ہے اور یہی عارضیت اورعبوری سوچ ہماری روحانی، فکری اور سماجی زوال کا المیہ ہے۔ ہم جیتے کم ہیں جیون کو ملتوی زیادہ کرتے ہیں۔ نماز کل سے باقاعدگی سے پڑھنے کے وعدے اور بچوں کو وقت دینے کے ارادے۔اسی کشمکش میں ہم ایک ایسی عبوری زندگی جی رہے ہوتےہیں جو مکمل طور پر شروع ہوتی ہے اور نہ ہی ہمیں اس کے ختم ہونے کا اندازہ ہوتا ہے۔ہم اپنی زندگی کو ”عارضی“، ”عبوری“ اور ”وقتی“ سمجھ کر گزار رہے ہوتے ہیں گویا اصل زندگی تو کہیں اور ہے، کسی اور وقت شروع ہوگی، کسی بہتر لمحے جب ہم فارغ ہوں گے، جب حالات بہتر ہوں گے، جب وقت سازگار ہوگا۔ لیکن افسوس! وہ لمحہ کبھی نہیں آتا اور ہم اس لمحے کے انتظار میں قبر تک پہنچ جاتے ہیں۔یہ وہ المیہ ہے جس سے ہماری پوری اجتماعی زندگی متاثر ہو تی ہے۔ ہم کوئی نوکری کرتے ہیں تو یہ کہہ کر کہ یہ عارضی ہے، بس وقتی گزارا ہے، اصل جاب تو بعد میں کروں گا۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہم اپنی موجودہ ملازمت کو سنجیدگی سے لیتے ہیں نہ ہی اس میں مہارت پیدا کرتے اور اس سے سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم سستی، لاپرواہی اور بے توجہی کے ساتھ دن گزارتے ہیں، نہ ترقی ہوتی ہے نہ تسلی۔
ہم گھر لیتے ہیں یا بناتے ہیں تو سوچتے ہیں یہ عارضی ہے اصل گھر میں بعد میں بناؤں گا۔ چنانچہ ہم اس گھر کو مکمل توجہ، محبت اور وقت نہیں دیتے۔ نہ اس کو بہتر بناتے ہیں، نہ سجاتے سنوارتے ہیں، نہ اسے گھر بننے دیتے ہیں۔ وہ چھت جس کے نیچے سکون ملنا چاہیے وہ بے ترتیبی، بے اعتنائی اور ذہنی افراتفری کا مرکز بن جاتی ہے۔ہم کاروبار کریں یا تعلیم حاصل کریں، عبادات کریں یا رشتہ داری نبھائیں ہر چیز میں ایک ”بعد میں“ کی سوچ سرایت کر چکی ہے۔ ہم عبادت میں کہتے ہیں کہ ابھی جیسی تیسی عبادت ہوتی ہے کر لو اصل توجہ سے نماز، قرآن کی تلاوت اور دعا بعد میں کروں گا۔ ہم تعلیم میں کہتے ہیں ابھی صرف پاس ہونے کے لیے پڑھ رہا ہوں دل لگا کر بعد میں پڑھوں گا۔ ہم اپنے بچوں کے ساتھ وقت گزارنے، ان کی تربیت کرنے، شریکِ حیات کو سمجھنے اور والدین کی خدمت کرنے میں ایک عجیب قسم کی ٹال مٹول کا شکار ہیں۔
یہ عبوری ذہنیت ہمیں زندگی پوری طرح جینے نہیں دیتی۔ ہم ہمیشہ انتظار میں رہتے ہیں،کسی بہتر موقع، کسی فارغ وقت، کسی موزوں لمحے کے اور زندگی جو اپنی پوری رفتار کے ساتھ چل رہی ہوتی ہے ہم سےبہت آگے نکل جاتی ہے۔عالمی ادارہ صحت کے مطابق ایک عام انسان اوسطاً 70-75 سال کی عمر پاتا ہے۔ اگر ہم اس میں سے بچپن، نیند، کام اور دیگر غیر ارادی مصروفیات نکال دیں تو ہمارے پاس اپنے شعوری فیصلوں اور کاموں کے لیے صرف 20-25 سال بچتے ہیں۔ ان میں بھی اگر ہم ”بعد میں“ کا راگ الاپتے رہیں تو کیا ہم واقعی کوئی بھرپور زندگی جی سکتے اورکوئی تخلیقی کام سرانجام دے سکتے ہیں؟پھریہ عبوری سوچ صرف ہماری ذاتی زندگی کو متاثر نہیں کرتی بلکہ ایک اجتماعی سانحہ بھی بن جاتی ہے۔ ہم قومی سطح پر بھی ترقی کو مؤخر کرتے رہتے ہیں۔ ہم معیشت بہتر بنانے، تعلیم میں بہتری لانے اور صحت کے نظام کو بہتر کرنے کو ہمیشہ کسی اور وقت پر چھوڑ دیتے ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ ابھی تو حالات ٹھیک نہیں، ابھی سسٹم ساتھ نہیں دے رہا، ابھی لوگ سنجیدہ نہیں لہذا بعد میں کچھ کریں گے۔ اس ”بعد میں“ نے ہمیں ایک ایسی قوم بنا دیا ہے جو اپنے حال سے کبھی مطمئن نہیں اور اپنے مستقبل کے لیے کبھی سنجیدہ نہیں۔یہ عبوری ذہنیت ہمیں نہ صرف غیر منظم بناتی ہے بلکہ غیر ذمہ دار بھی۔ ہم اپنی روٹین کو سنجیدہ نہیں لیتے، وقت کی قدر نہیں کرتے اور نتیجتاً ہماری زندگی کا ہر دن ایک ایسا دن بن جاتا ہے جو گویا محض گزرنے کے لیے ہے جینے کے لیے نہیں۔سیلف ڈویلپمنٹ یعنی ہماری خود کی اصلاح بھی اسی عبوری سوچ کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے۔ ہم اپنی شخصیت کی تعمیر، اخلاقی بہتری، علمی ترقی، جذباتی مضبوطی اور جسمانی صحت کے لیے بھی کوئی مستقل منصوبہ بندی نہیں کرتے۔ ہم ہمیشہ کچھ دنوں بعداور کسی بہتر وقت کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔ مگر سچ یہ ہے کہ بہتر وقت کبھی خود نہیں آتا ہمیں اسے خود بنانا ہوتا ہے۔ بچے بڑے ہو جاتے ہیں، والدین بچھڑ جاتے ہیں، رشتے کمزور ہو جاتے ہیں اور ہم صرف پچھتاتے رہ جاتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ اس کا حل کیا ہے، اس کا حل صرف یہ ہے کہ ہم اپنی روٹین کو مستقل حیثیت دیں۔ ہر دن کو ایک حتمی دن سمجھیں۔ ہر عمل کو مکمل نیت، شعور اور احتساب کے ساتھ سر انجام دیں۔ ہم نماز پڑھیں تو یہ سوچ کر کہ شاید یہی میری آخری نماز ہے۔ ہم بچوں سے بات کریں تو یہ جان کر کہ یہ لمحے لوٹ کر نہیں آئیں گے۔ہم عبوری کیفیت میں بہنے کے بجائے رکیں اور سوچیں کہ میں یہ عمل کیوں سرانجام دے رہا ہوں ۔ اگر ہم اپنی زندگی کو مستقل بنیادوں پر نہیں جئیں گے تو زندگی ہمیں عبوری حیثیت ہی میں لے کر رخصت ہو جائے گی۔ ہمیں اپنی زندگی کو معنی دینا ہے، اسے با مقصد بنانا ہے اور اس کے ہر لمحے کو عبادت، خدمت، ترقی اور محبت سے بھرنا ہے۔ اصل زندگی وہی ہے جو ہم شعور، اخلاص اور سنجیدگی سے جیتے ہیں نہ کہ وہ جو ہم کل پر چھوڑ دیتے ہیں۔ ہمیں عبوری سوچ سے نجات حاصل کرکے اپنی زندگی کو ”پوری زندگی“ سمجھ کر جینا ہوگا۔ہمارا کوئی بھی عمل چھوٹا یا عارضی نہیں ہوتا اگر ہم اسے شعور، اخلاص اور نیت سے سر انجام دیں۔ ہماراہر لمحہ اہم ہے، ہر دن قیمتی اور ہمارے ہر عمل کا حساب ہوگا ۔
تبصرہ لکھیے