میرے بہت ہی پیارے!
امید ہے تم خیرت سے ہوگے۔ تمھیں بھلا کیا ہوسکتا ہے۔ روز شام کو ڈوبتے سورج میں محبت کے استعاروں کو ڈھونڈنے والے شخص کے ساتھ کیا برا ہوسکتا ہے۔ ضرورت کا راگ آلاپ کر ہر ایک سے نظر پھیرنے والے انسانوں کو بھلا کبھی کسی دکھ نے تنگ کیا ہے۔ بس اب تمھیں بہت سی چیخیں تنگ کررہی تھیں۔ بہت سے لہجوں کو دکھ تمھیں بے چین کردیتا تھا مگر اب تمھیں وہ چیخیں سنائی نہیں دیں گی۔ جب میں یہ باتیں کروں گا تم کہو گے تمھارے اپنے ملک کے مسائل ختم نہیں ہوتے تم کیسے ان کی باتیں کرسکتے ہو مگر تمھیں بتانا چاہوں گا وہ تباہ ہوچکے ہیں۔ اجڑ چکے ہیں۔ وہ کب کے اجڑ چکے تھے۔ شاید بہت عرصہ پہلے جب تم نے بے حسی کے دروازے کو پار کرکے لاتعلقی سے تعلق بنا لیا تھا۔ تب وہ چھوٹا سا بچہ ایک موہوم سی امید کے سہارے تمھاری راہ دیکھ رہا تھا جس کا پورا خاندان ملبے تلے زندگی کو آوازیں دیتے مرچکا تھا۔ تمھیں بتانا چاہوں گا کہ تمھیں جس بچے کی مسکراہٹ پسند تھی وہ مردہ ماں کے وجود سے لپٹا شیر خوار بچہ اب سانس نہیں لے رہا۔ اس کی حیرت سے پھیلی آنکھیں دودھ اور خون کے فرق کو بھلا کیا سمجھ پائی ہوں گی۔ وہ اب دکھوں کی دنیا سے آزاد ہوچکا ہے۔
تم کہو گے کہ میں نے پھر سے جذباتی باتیں شروع کردیں۔ یہ باتیں حقائق کے خلاف ہیں اور میں جنگ کے اسباب پر بات نہیں کرتا مگردوست جب گھر اجڑتے ہیں، لاشیں گرتی ہیں، دھماکوں سے وجود کے چیتھڑے فضا میں بکھر جاتے ہیں تو جذباتی باتیں ہی کی جاتی ہیں- دکھ جذبات کی زبان ہی سمجھتے ہیں۔ تمھارے اپنے گھر میں جب کوئی شدید بیمار ہوا ہوگا تم کیسے جذباتی ہوئے ہوگے ۔ میرے پیارے! اندھیری رات میں تم گھر کی چھت پر ستارے گھومتے ہوئے سوچ رہے ہوگے کہ دنیا کتنی خوب صورت ہے۔ کسی اپنے کا تصور تمھیں بے کل کردیتا ہوگا۔ عید سے چند دن پہلے تمھاری خوشی دیدنی ہوگی مگر وہ جو ایک عرصے سے فاقوں کی ڈور سے بندھے ہیں۔ جن کی زندگیاں امت کے جھوٹے دعوں کی زنیت بن چکی ہیں وہ بھلا کیا جانیں عیدیں کیا ہوتی ہیں اور بھلا اس چھوٹے سے بچے کو جس نے سفید کفن میں دشمنوں کی جانب سے بموں کی عیدی وصول کی ہو اور وہ بہن جو ملبے میں پاگلوں کی طرح اپنے بھائی کو عید مبارک کہنے جارہی ہوتو تم کیا سمجھ سکتے ہو کہ خون آلود عیدیں کیسی ہوتی ہیں۔ عید کے مفہوم وہاں کیسے بارآور ہوسکتے ہیں۔
پیارے! مجھے امت کی رام کہانی مت سنانا۔ مجھے مت کہنا کہ دنیا میں یہ پتلے اتنے ارب ہیں۔ میں نے فضا میں بکھرتی چیخ میں ان اربوں مٹی کے پتلوں کی بے حسی دیکھی ہے۔ میں نے بکھرتے لاشوں میں ان لاتعداد امتیوں کی لاپرواہی اور عدم دلچسپی دیکھی ہے۔ وہ کہتے ہیں وہ اب اس جنگ سے تھک چکے ہیں۔ ایسی جنگ جو انہوں نے کبھی لڑی ہی نہیں تھی۔ ایسی جنگ جس میں انہوں نے اپنا کچھ بھی دان نہیں کیا تھا۔ وہ اب دعوی کرتے ہیں وہ اس جنگ سے تھک چکے ہیں۔ وہ اس جنگ کو دیکھتے تھک گئے ہیں۔ جس کے لیے انہوں نے عید کا ایک دن تک دینا گوارا نہیں کیا تھا اور اس بارے بات کرنے والوں کو وہ بیوقوف اور جذباتی کہتے ہیں وہ اس کے بارے سنتے تھک چکے ہیں۔
میری آنکھیں چندھیا رہی ہیں ۔ کانوں میں جہازوں کا شور گونج رہا ہے۔ بھوک اور دکھ سے سے پھیپھڑے باہر آچکے ہیں۔ آنکھیں باہر نکل رہی ہیں۔ اب کوئی مسیحا نہیں بچا۔ اب کوئی کمک نہیں نہیں آئے گی۔ اب ہم سب بھی بے حس ہوجائیں گے۔ ایک دن جنگ ختم ہوجائے گی۔ سب اپنے گھروں کو چلے جائیں گے۔ یہاں تفریح گاہیں بن چکی ہوں گی۔ تب وہ چھوٹا بچہ جس نے جنگ میں بارود کی بو میں ماں کی خوشبو کو محسوس کیا ہوگا ، بارود کے ڈھیر میں ہاتھ کٹے باپ کو دکھ کی آخری لکیر کے ساتھ آخری سانسیں گنتے دیکھا ہوگا اور اپنی بہن کے مسکراتے چہرے پر غم کی گہری فصیل کو گرتے دیکھا ہوگا تویہ سب دیکھنے کے بعد وہ بچہ بڑا ہوکر تمھاری لاشوں پر بھی یونہی بے حسی سے مسکرا رہا ہوگا۔ تب تم امت جیسے چورن سے اسے بیوقوف نہ بنا پاؤگے۔ وہ تمھارے نصاب کے دائرے سے باہر نکل چکا ہوگا۔
پیارے ! اب کچھ بھی نہیں بچا۔ درد ختم ہوچکے ہیں۔ اسباب لٹ چکے ہیں۔ قافلوں میں صرف چیخ، درد، پکار اور خاموشی ہے۔ اب سب کی آنکھیں پتھر کی ہوچکی ہیں۔ وہ اب تمھیں کبھی نہیں پکاریں گے۔وہ اب کسی کو بھی نہیں پکاریں گے۔ وہ سب پتھر کے بن جائیں گے۔ جب تم عید قربان پر گوشت کے ساتھ کولڈ ڈرنک سمیت بہت سی اشیا سے لطف اندوز ہوگے تو وہ تم سے اب سراپا سوال نہیں ہوں گے۔ وہ جان چکے ہیں کہ ان کی توقعات تم سے غلط تھیں۔ وہ تمھاری بے حسی کو قبول کرچکے ہیں۔ تم خوش رہو۔ تمھارے اپنے مسائل اتنے زیادہ ہیں کہ تم ان کے مسائل کو کہاں دیکھ پاؤ گے اور تمھارے نزدیک یہ جذباتی باتیں ہیں۔ اب کوئی تم سے جذباتی باتیں نہیں کرے گا۔ موت جلد سب کو پریکٹکل کردے گی۔ ایسے ہی جیسے تم پریکٹیکل ہوچکے ہو۔
خوش رہو۔
فقط تمھارا کچھ نہیں
تبصرہ لکھیے