دنیا کے نقشے پر ایک چھوٹی سی پٹی، غزہ، اس وقت ایک عظیم انسانی المیے سے دوچار ہے۔ لاشیں، ملبے، آہیں اور معصوم چہرے… اور دوسری طرف خاموشی، بے حسی اور بے بسی کا گہرا سایہ۔ ایسے وقت میں اگر کوئی سورت ہمیں جھنجھوڑ سکتی ہے، تو وہ ہے سورۃ التوبہ — جسے بجا طور پر ”فیصلے کی سورت“ کہا گیا ہے۔ یہ سورت ہمیں صرف ماضی کے واقعات ہی نہیں سناتی بلکہ ہمارے دلوں کے حال بھی کھول کر رکھ دیتی ہے۔ یہ ہر دور کے مسلمانوں کو آئینہ دکھاتی ہے۔ اس سورت میں ہم سب کے چہرے موجود ہیں — مجاہدین، مخلصین، منافقین، عذر پیش کرنے والے، بہانے بنانے والے، طعنہ زن، سازشی اور پشیمان۔
غزوۂ تبوک: جب ایمان تولے گئے
یہ سورت ایک سخت گھڑی میں نازل ہوئی۔ گرمی عروج پر، سفر طویل، وسائل کم، دشمن طاقتور — لیکن اللہ کے رسول ﷺ نے نفیر عام دی۔ بس یہی وقت تھا جس نے ہر دل کا حال عیاں کر دیا۔ کچھ لوگ فوراً لبیک کہہ کر نکل پڑے، کچھ نے بہانے بنائے، کچھ نے دوسروں کو بھی روکا، اور کچھ سازشوں میں لگے رہے۔
ولو أرادوا الخروج لأعدّوا لہ عدّۃ
(اگر واقعی جانا چاہتے تو کچھ نہ کچھ تیاری ضرور کرتے!)
آج جب غزہ کی پکار ہمارے دلوں پر دستک دے رہی ہے، تو یہی سوال ہم سے بھی ہو رہا ہے:
کیا ہم نے کچھ تیاری کی؟
کون کہاں کھڑا ہے؟ — سورۃ التوبہ کی کسوٹی
سورۃ التوبہ میں جو اقسام بیان ہوئیں، وہی آج بھی زندہ ہیں:
1. لبیک کہنے والے
جو لوگ وسائل، حالات، دنیاوی مجبوریوں سے بے نیاز ہو کر میدان میں نکل کھڑے ہوتے ہیں، وہی اصل مؤمن ہیں۔
2. موسم، مجبوری اور مصلحت کے بہانے
گرمی ہے، وقت نہیں، ابھی حالات سازگار نہیں، پہلے اپنے مسائل تو حل ہوں — یہی تو وہ باتیں ہیں جو قرآن میں نفاق کی نشانیاں قرار دی گئیں:
وقالوا لا تنفروا في الحرّ
(کہتے ہیں گرمی میں مت نکلو…)
قل نار جهنم أشد حرا
(کہہ دو، جہنم کی آگ کہیں زیادہ گرم ہے)
3. دل سے چاہنے والے مگر مجبور
کچھ ایسے بھی ہیں جنھیں جانا تو ہے، لیکن نہ وسائل ہیں، نہ سہارا۔ ان کی آنکھوں سے آنسو بہتے ہیں:
تفیض من الدمع حزناً ألا یجدوا ما ینفقون
آج بھی بہت سے سچے دل رکھنے والے، فلسطینیوں کے لیے کچھ کرنے کو تڑپ رہے ہیں۔ ان کی بے بسی، ان کے آنسو، اللہ کے ہاں ضائع نہیں جاتے۔
4. طعنہ زن اور سازشی
کچھ لوگ مجاہدین کی قربانیوں کا مذاق اڑاتے، ان کی حکمتِ عملی پر تنقید کرتے اور اسلام کے نام پر فتنہ پیدا کرتے ہیں:
اتخذوا مسجدًا ضرارًا
(انہوں نے مسجد بھی فتنہ انگیزی کا اڈہ بنائی)
5. مخلص مگر سست قدم
تین جلیل القدر صحابہ پیچھے رہ گئے۔ ان کے پاس عذر نہ تھا، مگر وہ دیر کرتے رہے۔ ان پر بائیکاٹ ہوا، لیکن ان کی سچائی اور توبہ نے انھیں پھر محبوب بنا دیا۔
وعلی الثلاثۃ الذین خلّفوا
یہ واقعہ ہمیں سکھاتا ہے کہ دیر ہو بھی جائے، تو جھوٹ نہ بولو، اعتراف کرو، سچ کے ساتھ کھڑے ہو جاؤ!
غزہ: آج کا میدانِ تبوک
آج فلسطین، خاص طور پر غزہ، ہماری آزمائش ہے۔ یہاں ہر مسلمان کا ایمان، نیت اور عمل تولا جا رہا ہے۔
کیا ہم عملی مدد کر رہے ہیں؟
کیا ہم مالی قربانی دے رہے ہیں؟
کیا ہم حق کے ساتھ کھڑے ہیں یا طعنوں اور سازشوں میں الجھے ہوئے ہیں؟
کیا ہمارے دل جل رہے ہیں یا ٹی وی بدل رہے ہیں؟
یہ سوالات ہمارے اور اللہ کے درمیان فیصلے کی بنیاد ہیں۔
آج فیصلہ ہم نے کرنا ہے۔۔
سورۃ التوبہ ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ:
• ایمان خالی دعوے کا نام نہیں۔
• اخلاص کی پہچان عمل سے ہوتی ہے۔
• عذر اور بہانے ہر کسی کو بچا نہیں سکتے۔
• سچائی، توبہ اور قربانی ہی نجات کا راستہ ہیں۔
غزہ آج میدانِ تبوک ہے، فلسطینی مجاہدین آج کے مخلصین ہیں، اور ہم سب کو دیکھنا ہے کہ ہم کس صف میں کھڑے ہیں۔
فإن تولّوا فقل حسبی اللہ، لا إله إلا هو، عليه توكلت، وهو رب العرش العظيم
اللہ ہمیں اخلاص، غیرت اور قربانی کی توفیق دے۔ ہمیں منافقین کے رویّوں سے بچائے، اور اہلِ غزہ کی نصرت کے لیے قبول فرمائے۔ آمین
تبصرہ لکھیے