حضرت سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا جناب نبی کریم ﷺ کی چوتھی و لاڈلی صاحبزادی ہیں، خلیفہ چہارم شیر خدا حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی زوجہ محترمہ ہیں،اور حسنین کریمین حضرت سید نا حسین رضی اللہ عنہ اور حضرت سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کی والدہ محترمہ ہیں. آپ ؓ کی سیرت و فضائل متعدد مقامات پر وارد ہو ئے ہیں. حضرت سیدہ فاطمۃ الزہرارضی اللہ عنہا کی سیرت بہت اعلیٰ و ارفع ہے،ان کی زندگی ہماری خواتین کےلیے مشعل راہ کی حیثیت رکھتی ہے. اگر آج ہماری خواتین مائیں،بہنیں،بیٹیاں حضرت سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہ کا اسوہ اپنا لیں تو دنیا و آخرت کی کامیابی مل سکتی ہے.
نبی اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا ”جنتی عورتوں میں حضرت خدیجہؓ اور حضرت فاطمہؓ افضل ہیں“ (سیر اعلام النبلاء، 90:2)جناب رسول اللہ ﷺنے فرما یا فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے،جس نے اس کو ناراض کیا،اس نے مجھے ناراض کیا(صحیح بخاری3767) رسول اللہﷺ حضرت فاطمہؓ سے بالخصوص بے حد الفت و محبت رکھتے تھے۔ آپ ﷺنے جب اشاعت اسلام کا مقدس کام شروع کیا تو ان مظالم سے جو مشرکین کی طرف سے آپﷺپر ہوتے رہے، حضرت فاطمہؓ کا حساس دل ہمیشہ بہت متاثر ہوتا رہا اور جب اپنی والدہ کے انتقال کی وجہ سے وہ اس سایہ محبت و الفت سے بھی محروم ہوگئیں، جو ان کے لیے باعث تقویت تھا، تو انہوں نے اپنے آپ کو اپنے والد کی طرف متوجہ کرکے دل و جان سے رسول اللہ ﷺکی خدمت کے لیے وقف کردیا۔ رسول اللہﷺ بھی اکثر انہیں اپنے پاس سے جدا نہ ہونے دیتے اور ہمیشہ انھیں محبت اور شفقت سے یاد فرماتے تھے۔جب حضرت فاطمہؓ کسی ایسی محفل میں آتیں جہاں حضور انور ﷺ جلوہ افروز ہوتے تو آپ ﷺحضرت فاطمہؓ کی محبت و شفقت اور پیار سے کھڑے ہوجاتے تھے اور حضرت فاطمہؓ کو اپنے پہلو میں جگہ دیا کرتے تھے۔ (ترمذی شریف ومشکوٰۃ المصابیح)
حضرت فاطمہؓ کا نکاح حضرت علیؓ سے (غزوۂ بدر کے بعد) ماہ صفر (بقول بعض ذوالقعدہ یا ذوالحجہ) 2 ہجری میں ہوااور پانچ سو درہم (بقول بعض 480 یا چار سو درہم) مہر مقرر ہوا۔ البتہ رخصتی جنگ احد کے بعد ہوئی۔ بقول ابن کثیر شادی کے وقت حضرت فاطمہؓ کی عمر پندرہ برس پانچ ماہ تھی اور بعض دیگر روایتوں کے مطابق ان کی عمر اٹھارہ انیس برس تھی۔ حافظ ابن حجرؒ کے بقول حضرت علیؓ نے جب حضرت فاطمہؓ کے لیے پیغام دیا تو نبی اکرم ﷺ نے ان سے پوچھا کہ تمہارے پاس مہر میں دینے کے لیے کیا ہے؟ حضرت علیؓ نے کہا کچھ بھی نہیں۔ آنحضرت ﷺنے فرمایا: تمھاری وہ الحطمیہ نامی زرہ کہا ہے جو میں نے تمھیں دی تھی؟ فرمایا: وہ میرے پاس موجود ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ وہ مہر میں فاطمہؓ کو دے دو۔ یہ زرہ چار سو یا چار سو اسّی درہم پر فروخت ہوئی۔ سو یہی حضرت فاطمہؓ کا مہر تھا۔ ایک اور روایت کے مطابق یہ زرہ حضرت عثمانؓ نے خریدی تھی جسے انھوں نے بعد ازاں حضرت علیؓ کو واپس کردیا تھا۔ نکاح کے موقع پر آنحضرت ﷺنے خطبہ ارشاد فرمایا۔تقریب نکاح مسجد نبویؐ میں نہایت سادہ طریقے سے ہوئی. نکاح کے بعد حاضرین میں شہد کا شربت اور کھجوریں تقسیم کی گئیں۔ حضرت فاطمہؓ کو ایک انتہائی سادہ سازو سامان کا گھر کرایہ پر لے لے کر دیا گیا تھا۔جہیز میں جو سامان دیا گیا وہ ایک تخت خواب، دو توشکیں، ایک گرم چادر، تکیہ، پانی کی چھاگل (مشکیزہ) اور لوٹا وغیرہ پر مشتمل تھا۔ دعوت ولیمہ، جو اسی سال حضرت فاطمہؓ کی نکاح کے بہت دنوں بعد کی گئی، وہ بھی اسی طرح سادہ اور پاکیزہ تھی (بحوالہ: سیرت خیرالانام ﷺ، صفحہ 728)
حضور اکرم ﷺکے اسوۂ حسنہ سے ثابت ہے کہ آپﷺنے جہیز میں کوئی چیز حضرت فاطمہؓ کو اپنی رقم سے نہیں دی۔ حضرت علیؓ نے ضرورت کا سامان حضرت فاطمہؓ کو دیا۔ حضرت فاطمہؓ کو ضرورت کا سامان ان کے شوہرنے عطا فرمایا۔ جس کی تفصیل یہ ہے٭ خوشبو٭ ایک پلنگ٭ ایک بستر٭ ایک چادر٭ دو چکیاں ٭ ایک مشک۔ (سیرت النبیؐ، جلد دوم، از سید سلیمان ندوی و شبلی نعمانی، صفحہ 252) واضح ہو کہ یہ جہیز نہیں تھا بلکہ سامانِ ضرورت تھا جو حضرت علیؓ نے حق مہر کی رقم سے خرید کر حضرت فاطمہؓ کو دیا تھا۔
سیرت خیرالانامﷺکے صفحہ نمبر 731 پر حضرت فاطمہؓ کی وصیت درج ہے جس میں آج کے دور میں خواتین کے لیے تقلید کا اعلیٰ نمونہ موجود ہے۔ ”وفات سے پہلے حضرت فاطمہؓ نے حضرت اسماءؓ بنت عمیس کو یہ وصیت کی کہ ان کے جسد مبارک کو اس طرح اٹھایا جائے کہ کوئی شخص یہ نہ جان سکے کہ یہ جنازہ عورت کا ہے یا مرد کا۔ نیز یہ کہ آپؓ کو رات کے وقت دفن کیا جائے۔ اس لیے جسد مبارک کے اوپر کے حصے کو کھجور کی شاخوں سے اس طرح ڈھانپ دیا گیا کہ آپؓ کا جسم دکھائی نہ دے سکے۔ غسلِ میت وصیت کے مطابق حضرت اسماءؓ بنت عمیس، حضرت علیؓ اور حضرت سلمیٰ اُمّ رافعؓ نے دیا۔ نماز جنازہ حضرت علیؓ (یا بروایت دیگر حضرت عباسؓ) نے پڑھائی۔“
حضرت فاطمہؓ نے 28 یا 30 برس کی عمر میں وفات پائی۔ علامہ ابن کثیرؒ اور علامہ ابن حزم کے مطابق: حضرت فاطمہؓ نے آنحضرت ﷺکے چھ ماہ بعد وفات پائی۔ خاتون جنت حضرت فاطمہؓ کی رسول اکرمﷺ کی سب سے چھوٹی صاحبزادی تھیں۔ آپؓ کی تربیت و پرورش بی بی خدیجہؓ کی گود میں اور رسول اللہ ﷺ کے سایہ عاطفت میں ہوئی۔ جب آپؓ اٹھارہ سال کی ہوئیں تو آپؓ کا نکاح رسول اکرمﷺنے ہجرت کے دوسرے سال مدینے میں حضرت علیؓ سے کردیا۔ چونکہ حضرت علیؓ کی مالی حالت بہت کمزور تھی اس لیے آپؓ جملہ امور خانہ داری کو صبر اور شکر سے سرانجام دیتی تھیں۔
آپؓ کی زندگی کا ہر پہلو دنیا بھر کی خواتین کے لیے قابلِ تقلید ہے۔ بیٹی کی حیثیت سے آپؓ اپنے والدین پر فدا تھیں۔ جنگ اُحد میں آپؓ نے رسول اکرمﷺ کے زخم دھوئے اور مرہم پٹی بھی کی۔ بیوی کی حیثیت سے آپؓ کی زندگی شوہر کی خدمت گزاری اور فرمانبرداری میں گزری اور ماں ہونے کی حیثیت سے آپؓ نے اپنی آغوش ان ہونہار جوانوں کو پالا پوسا جن کی قربانیوں نے اسلامی روایات کو زندہ رکھا۔ اللہ رب العزت نے حضرت فاطمہؓ کی اولاد میں بڑی برکت عطا فرمائی۔ سوانح نگار رقمطراز ہیں کہ حضرت فاطمہؓ کے تین بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں۔ یعنی حضرت حسنؓ، حضرت حسینؓ، حضرت محسنؓ، حضرت زینبؓ اور حضرت اُمّ کلثومؓ۔ حضرت فاطمہؓ کی نسل حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ کے ذریعے دنیا میں باقی رہی۔دورِ جدید میں حضرت فاطمہؓ کی سیرتِ مبارکہ سے رہنمائی: مسلم خواتین دورِ حاضر میں حضرت فاطمہؓ کی سیرت پاک سے انتہا درجہ کی رہنمائی حاصل کرسکتی ہیں اور مسلم معاشرے کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرسکتی ہیں الغرض ہماری خواتین حضرت فاطمہؓ کی سیرت پاک کے ایک ایک مبارک پہلو پر غور کریں اور عمل پیرا ہونے کی سعی کریں۔ اس طرح ایک پاکیزہ معاشرہ تشکیل پائے گا۔
تبصرہ لکھیے