ہوم << غزہ: آخری مورچہ، ابدی مزاحمت - ارشد زمان

غزہ: آخری مورچہ، ابدی مزاحمت - ارشد زمان

غزہ کی جنگ اپنے فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ رفح پر اسرائیلی قبضہ مکمل ہو چکا ہے، اور لاکھوں فلسطینی اب المواصی کی خیمہ بستیوں میں دھکیلے جا چکے ہیں۔ شمال میں الشجاعیہ، بیت لاہیہ، بیت حنون — ہر سمت ملبہ، بارود اور خاموش لاشیں ہیں۔
غزہ اب ایک دم توڑتی سانس ہے — شاید چند دن اور، شاید ایک آخری آہ۔

لیکن اس ملبے کے نیچے جو چیز زندہ ہے، وہ ہے مزاحمت کا جذبہ — اور اس جذبے کا سب سے بلند نشان ہے: حماس۔

حماس کی مزاحمت: ایمان، بصیرت، اور جنگی حکمتِ عملی کا شاہکار
حماس کی حالیہ مزاحمت محض دفاع یا جذبے کا اظہار نہیں، بلکہ ایک ایسی جامع جنگی حکمتِ عملی تھی جس نے اسرائیل کو عسکری، نفسیاتی، سفارتی اور میڈیا کی سطح پر بارہا شکست دی۔

1. سرنگیں: جدید جنگ میں روایتی بصیرت کا چیلنج
حماس نے زیر زمین سرنگوں کا ایک جال تیار کیا جو دشمن کی جدید ترین ٹیکنالوجی کے باوجود ان کی نظروں سے اوجھل رہا۔
جب اسرائیلی افواج نے “کامیابی” کا اعلان کیا، انہی علاقوں سے دوبارہ حملے ہوئے —
یہ محض چالاکی نہیں، یہ بصیرت اور تدبیر کا فن تھا۔

2. محدود وسائل، غیر معمولی نتائج
حماس نے راکٹ حملوں، نشانے بازی، اور فوری ردعمل کی جو صلاحیت دکھائی، وہ دنیا بھر کی عسکری تربیت گاہوں کے لیے حیرت کا سبب بنی۔
انہوں نے ثابت کیا کہ اگر نیت، حکمت اور تنظیم ہو، تو کمزور ترین بھی طاقتور کو جھکنے پر مجبور کر سکتا ہے۔

3. نفسیاتی اور سفارتی محاذ پر برتری
حماس کی قیادت نے صرف بندوق نہیں چلائی —
انہوں نے اسرائیلی عوام اور افواج میں خوف، اضطراب، اور تذبذب پیدا کر کے دشمن کو اندر سے توڑنے کی کامیاب کوشش کی۔
قیدیوں کے تبادلے، میڈیا پر بیانیے، اور عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کی حکمت عملی نے انہیں ایک میدانی تحریک سے بڑھ کر ایک عالمی تحریک میں بدل دیا۔

4. قیادت کا استقلال — عوام کا بھروسہ
یحییٰ سنوار، محمد الضیف، اور دیگر رہنماؤں نے میدان چھوڑنے کے بجائے آخری صف تک لڑنے کا عزم دکھایا۔
انہوں نے عوام کے ساتھ رشتہ ٹوٹنے نہ دیا — اور یہی رشتہ تھا جس نے غزہ کو آخری لمحے تک زندہ رکھا۔
یہ شکست حماس کی نہیں — یہ ان کی قربانی، حکمت، اور استقلال کا روشن مینار ہے۔

عرب حکمران: اقتدار کی پناہوں میں دفن غیرت
اس ساری جنگ میں جس چیز نے سب سے زیادہ دل توڑا، وہ تھا عرب حکمرانوں کا سوچ سمجھ کر اختیار کیا گیا مجرمانہ سکوت۔
یہ محض مصلحت نہیں — یہ بدترین بزدلی ہے۔

اقتدار کی حفاظت، عیاشیوں کا نشہ، اور کرسی کا خوف ان سے غیرت اور حمیت چھین چکا ہے۔
نہ انہوں نے کوئی عملی قدم اٹھایا، نہ اقوامِ متحدہ میں آواز بلند کی، نہ ہی امت کی قیادت کا حق ادا کیا۔

یہی وہ خاموشی ہے جو دشمن کے لیے سب سے بڑی تقویت بن گئی۔

مسلم عوام: قبرستان جیسی خاموشی

المیہ صرف حکمرانوں تک محدود نہیں رہا —
اس بار مسلم عوام بھی جیسے تماشائی بنے رہے۔

نہ سڑکیں بھر گئیں، نہ بائیکاٹ کی تحریکیں اٹھیں، نہ حکمرانوں کو للکارا گیا۔
کچھ مظاہرے، کچھ پوسٹیں، اور پھر خاموشی — بالکل قبرستان جیسی خاموشی۔

یہ صرف غزہ کی نہیں — یہ ضمیر کی شکست ہے۔
امتِ مسلمہ نے ایک بار پھر تاریخ کا اہم موقع ضائع کر دیا۔

اسرائیلی عزائم: گریٹر اسرائیل اب ایک تصور نہیں، حقیقت کا نقشہ ہے
اسرائیل صرف غزہ کو نہیں مٹا رہا — وہ پورے خطے کا جغرافیہ بدلنے کے درپے ہے۔
گریٹر اسرائیل کا منصوبہ اب دبے لفظوں میں نہیں بلکہ کھلے بیانات، منصوبہ بندی، اور عسکری اقدامات کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔

غزہ کو ختم کرنا پہلا ہدف تھا، اب بقیہ فلسطین، اور شاید جلد ہی اردن، لبنان، شام اور حجاز اس کا اگلا میدان ہوں۔

امت اگر اب بھی نہ جاگی، تو شاید جاگنے کا وقت باقی نہ رہے۔

ادھوری امیدیں، بکھرتی نظروں کے خواب
جنگ کے آغاز پر اہلِ غزہ کو ایک خام سی امید تھی —
شاید اردگرد وہی عرب ریاستیں موجود ہیں، جو ماضی میں فلسطین کے لیے برسرِ پیکار رہی ہیں۔
یہ کہ چند ماہ کی مزاحمت کے بعد کوئی نہ کوئی ان کے حق میں میدان میں اترے گا — اگر براہِ راست نہیں تو پسِ پردہ، کچھ تو کرے گا۔
اور اگر ریاستیں نہیں، تو عوامی دباؤ ہی حکمرانوں کو جھنجھوڑ دے گا۔

پھر نظریں ایران اور حزب اللہ کی طرف اٹھیں —
ایران اگر براہِ راست شریک نہ بھی ہوتا، تو توقع تھی کہ حزب اللہ کو آخر تک میدان میں رکھے گا۔
اور جب حزب اللہ نے شمالی محاذ سنبھالا، تو امید بندھی کہ اسرائیل دو طرفہ دباؤ میں آئے گا۔

مگر وہ لمحہ بھی آیا، جب میدانِ جنگ نے پکارا —
مگر ایران خاموش رہا، حزب اللہ پیچھے ہٹ گیا۔
وہی لمحہ تھا جب:
”یہ ناداں گر گئے سجدے میں، جب وقتِ قیام آیا۔“
حقیقت یہ ہے کہ اگر ایران اور حزب اللہ اپنے ابتدائی اشاروں کو عمل میں بدلتے،
اگر صرف چند ہفتے مزید دباؤ قائم رکھتے —
تو شاید اسرائیل کو حماس کے خلاف یوں یکطرفہ کارروائی کی سہولت نہ ملتی۔

یہ خاموشی محض مصلحت نہیں —
یہ ایک سوچی سمجھی پسپائی تھی،
جو دشمن کو مزید وحشی بنا گئی،
اور دوستوں کو ایک بار پھر دھوکہ خوردہ۔

اختتامیہ: اب بھی وقت ہے؟
غزہ آخری مورچہ تھا — جیسے جلال الدین خوارزم شاہ اپنی قوم کی آخری مزاحمت کا نشان تھا۔
اس کی مزاحمت اگرچہ ختم ہو گئی، لیکن جو دنیا نے اس کے بعد دیکھا، وہ ایک سنہری تاریخ کی بدولت نہیں، بلکہ شکست اور ذلت کی بدترین مثال بنی۔
اب سوال یہ ہے:
اگلا کون؟
کیا بیت المقدس بچ پائے گا؟
کیا قاہرہ، بیروت، یا مکہ و مدینہ محفوظ رہیں گے؟

اگر مسلم دنیا نے اب بھی ہوش نہ سنبھالا، اگر بزدل حکمرانوں کے خلاف عوامی دباؤ نہ بڑھا، تو شاید ہم صرف غزہ نہیں کھوئیں گے — بلکہ اپنا تشخص، تاریخ اور مستقبل سب ہار جائیں گے۔

غزہ کی بربادی فقط ایک جغرافیائی نقصان نہیں —
یہ امت کی اجتماعی موت کا آغاز ہے۔

Comments

Avatar photo

ارشد زمان

ارشد زمان سیاست و سماج پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ انھی موضوعات پر مطالعہ اور تجزیہ ان کا شوق ہے۔ اقامتِ دین کے لیے برپا تحریک اسلامی کا حصہ ہیں اور عملی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ حقیقی تبدیلی کے لیے عملی کاوشیں ان کے مشن کا حصہ ہیں۔

Click here to post a comment