عید کی چاند رات تھی۔ بازاروں میں روشنیوں کی بہار تھی، گلیاں جگمگا رہی تھیں، مہندی کی خوشبو ہوا میں رچی بسی تھی، اور بازاروں میں ہجوم تھا۔ ہر طرف ہنسی خوشی کے مناظر تھے، لیکن اسی ہجوم میں ایک نوجوان، زبیر، اپنی ہی دنیا میں مگن تھا۔ اس کے ہاتھ میں نئی چمچماتی موٹر سائیکل کی چابی تھی، جو اس کے والد نے منع کرنے کے باوجود اسے ضد پوری کرنے پر لے دی تھی۔
زبیر کا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا، جیسے کوئی بے تاب پرندہ پنجرے سے نکلنے کو تیار ہو۔ اس کے دوست بلال اور کامران اس کے ساتھ تھے۔ تینوں اپنی اپنی موٹر سائیکلوں پر سوار، سڑکوں پر طوفان برپا کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔ "یار، کل عید ہے! ساری دنیا سو رہی ہوگی، اور ہم بادشاہوں کی طرح سڑکوں پر راج کریں گے!" زبیر نے جوش سے کہا۔
بلال نے قہقہہ لگایا، "دیکھ لینا، اس بار سب سے زیادہ رفتار میری ہوگی!" کامران نے بھی چیلنج قبول کر لیا۔ تینوں نے فیصلہ کیا کہ عید کی صبح شہر کی سنسان سڑکوں پر رفتار کا جنون آزمائیں گے۔
عید کی نماز کے بعد، جب سب لوگ ایک دوسرے کو گلے لگا کر مبارکباد دے رہے تھے، زبیر اور اس کے دوست موٹر سائیکلیں نکال چکے تھے۔
ہوا میں تازگی تھی، پرندے چہچہا رہے تھے، اور سڑکیں خالی تھیں۔ یہ موقع تھا اپنی طاقت آزمانے کا۔ زبیر نے اپنے انجن کو فل اسپیڈ پر گھمایا، "چلو دیکھتے ہیں، کون سب سے پہلے فلائی اوور کے اس پار پہنچتا ہے!" اور اگلے ہی لمحے، تینوں نے تھروٹل گھما دیا۔
موٹر سائیکلوں کے شور نے خاموش صبح میں ارتعاش پیدا کر دیا۔ 80، 90، 100... اسپیڈومیٹر کی سوئی بڑھتی جا رہی تھی۔ زبیر کے چہرے پر ہوا کی سرخی تھی، آنکھوں میں وحشیانہ چمک۔ جیسے وہ زندگی کی حدود کو توڑ دینا چاہتا ہو۔
بلال اور کامران بھی پیچھے نہ رہے۔ تینوں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی جدوجہد میں تھے، رفتار کے نشے میں چور، وہ سب کچھ بھول چکے تھے۔ زبیر نے ایک لمحے کے لیے بلال کی طرف دیکھا اور مسکراتے ہوئے رفتار مزید بڑھا دی۔
120...130...140...! زبیر کی موٹر سائیکل روشنی کی طرح دوڑ رہی تھی۔ لیکن زندگی کوئی ویڈیو گیم نہیں تھی، جہاں حادثے کے بعد "ری پلے" کا بٹن دبا کر سب کچھ واپس لایا جا سکتا ہو۔
ایک لمحے کی غلطی، اور سامنے ایک سفید کار تھی، جو ایک فیملی کو لے کر جا رہی تھی۔ زبیر نے بریک لگانے کی کوشش کی، مگر بہت دیر ہو چکی تھی۔
ایک زوردار دھماکہ ہوا! زبیر کی موٹر سائیکل کار کے بونٹ سے ٹکرا گئی، اور اس کا جسم ہوا میں اچھل کر کئی میٹر دور جا گرا۔ بلال اور کامران نے خوف سے اپنی موٹر سائیکلیں روک دیں۔ کار کا اگلا حصہ تباہ ہو چکا تھا، اندر موجود فیملی چیخ رہی تھی۔ زبیر سڑک پر پڑا تھا، اس کے سفید کرتے پر گہرے سرخ دھبے پھیل چکے تھے۔ اس کے کانوں میں سب آوازیں دھندلا رہی تھیں۔
زمین پر گرا، وہ آسمان کی طرف دیکھ رہا تھا۔ اسے بچپن کا وہ لمحہ یاد آیا جب اس کے والد نے اسے پہلی بار سائیکل چلانا سکھائی تھی، جب اس کی ماں نے اسے چوٹ لگنے پر اپنے آنچل سے خون صاف کیا تھا۔ لیکن آج کوئی نہیں تھا جو اس کے زخموں پر مرہم رکھتا ,موت کے سائے میں زبیر کے سانس اکھڑنے لگے۔ اس کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا رہا تھا، لیکن دماغ میں بے شمار خیالات گونج رہے تھے۔
"کاش میں نے امی کی بات مان لی ہوتی... کاش ابو کی نصیحت سن لی ہوتی... کاش میں نے یہ ریس نہ لگائی ہوتی..."
آنکھوں کے سامنے اس کی ماں کا چہرہ تھا، آنسوؤں میں بھیگا ہوا، اس کے والد کی جھریوں بھری پیشانی، جس پر ہمیشہ فخر جھلکتا تھا، مگر اب وہاں صرف دکھ اور ملامت رہ جائے گی۔
"مجھے بچا لو...! میں جینا چاہتا ہوں!" زبیر نے کوشش کی کہ وہ بول سکے، لیکن ہونٹ صرف کپکپائے، آواز باہر نہ آ سکی۔
اسی وقت، زبیر کے گھر میں ہنسی خوشی کا ماحول تھا۔ اس کی ماں شیر خورمہ تیار کر رہی تھی، والد مہمانوں کا استقبال کر رہے تھے۔ اچانک فون بجا۔ دوسری طرف ایک گھبرائی ہوئی آواز تھی: "بی بی، جلدی اسپتال پہنچیں، زبیر کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے!"
ماں کے ہاتھ سے چمچ گر گیا، اور اس کے آنسو بے اختیار بہنے لگے۔ والد نے فوراً گاڑی نکالی اور اسپتال کی طرف دوڑ پڑے۔
اسپتال میں، زبیر کی سانسیں آہستہ آہستہ کم ہو رہی تھیں۔ اس کی آنکھوں میں زندگی بجھ رہی تھی، لیکن اس کے ہونٹوں پر ایک ادھورا جملہ تھا، "امی... میں... میں پھر نہیں کروں گا.. اور اگلے ہی لمحے، اس کے ہاتھ کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی۔
اس کا نیا سفید کرتا کفن میں بدل چکا تھا، اور عید کے دن اس کے والدین کو سب سے بڑا تحفہ، اس کی بے جان لاش کی صورت میں ملا تھا۔
مگر مسئلہ صرف زبیر کا نہیں تھا۔ خیبرپختونخوا کے کئی گھروں میں اس دن خوشیوں کے بجائے آہوں کی گونج سنائی دی۔ ہر سال، تیز رفتاری کی اس دوڑ میں کئی نوجوان اپنی زندگی ہار جاتے ہیں، اور کئی گھروں میں عید کے چراغ بجھ جاتے ہیں۔
لیکن کیا ہم کبھی سیکھیں گے؟ یا ہر عید پر کوئی اور زبیر، اپنی آخری سواری کے لیے سڑک پر نکلے گا؟
تبصرہ لکھیے