ہوم << امت مسلمہ یا مرغِ مسلم؟ - بلال شوکت آزاد

امت مسلمہ یا مرغِ مسلم؟ - بلال شوکت آزاد

علامہ ابن خلدون نے اپنے شہرۂ آفاق مقدمہ میں لکھا تھا کہ قوموں کی خوراک ان کی خصلت پر اثر ڈالتی ہے۔ ان کے مطابق عربوں میں غیرت اور سختی اس لیے پیدا ہوئی کہ وہ اونٹ کا گوشت کھاتے تھے۔ ترکوں میں درندگی اور طاقت اس لیے آئی کہ ان کی خوراک گھوڑے کا گوشت تھا۔ انگریزوں میں بے غیرتی اس لیے در آئی کہ وہ سور کا گوشت کھاتے تھے۔ جبکہ سیاہ فام قوموں میں موسیقی اور رقص کا شوق بندر کے گوشت سے آیا۔

یہ محض ایک تاریخی فلسفہ نہیں، بلکہ یہ حقیقت ہے کہ خوراک صرف جسم ہی نہیں بناتی، یہ ذہن، مزاج اور کردار بھی تشکیل دیتی ہے۔ ابن قیم رحمہ اللہ نے بھی یہی نکتہ بیان کیا کہ ہر شخص جس جانور سے مانوس ہوتا ہے، وہ اس کی طبیعت اور خصلت کو اپنا لیتا ہے، اور اگر وہ اس کا گوشت کھائے تو یہ مشابہت مزید بڑھ جاتی ہے۔ غور کیجیے، ہم آج کے دور میں زیادہ تر برائلر مرغی کھاتے ہیں۔ تو کیا ہماری خصلتوں پر بھی اس کا اثر نہیں ہوا؟

بات صرف مرغی کھانے کی نہیں، مرغی بننے کی ہے! غور کریں، ہم کیسے بزدل، سہمی ہوئی، بے عملی کی شکار قوم بن چکے ہیں۔ ہم نے "ہچکچاہٹ، بے مقصد شور، گردن جھکانا، نہ اڑنا اور زیادہ بولنا" مرغی سے سیکھ لیا ہے۔ پنجرے میں بند زندگی کو اپنا مقدر مان لیا ہے۔ وہ امت جو کبھی آزاد فضاؤں میں پرواز کرتی تھی، آج پنجروں میں قید ہو چکی ہے۔

یہ وہی امت ہے جو کبھی فاتحین کی صف میں کھڑی تھی۔ وہ امت جس کے نام سے سلطنتیں کانپتی تھیں۔ وہ جنہوں نے بغداد، اندلس، قسطنطنیہ اور ہندوستان فتح کیا تھا۔ مگر آج؟ آج ہم عالمی سیاست کے تخت پر مہرے بنے ہوئے ہیں۔ ہر طرف مظلومیت کے بین، ہر جگہ ظلم کی داستانیں، مگر مزاحمت؟ غیرت؟ خودداری؟ کہیں نظر نہیں آتی۔

یہ زوال یوں ہی نہیں آیا۔ یہ ہمیں دانہ ڈال کر، گردن جھکا کر، قفس میں قید رکھ کر لایا گیا۔ ہمیں تعلیم، تحقیق اور خودداری سے دور رکھا گیا۔ ہمیں تقسیم کیا گیا۔ ہم نے اپنے اذہان کو غلام بنا لیا اور زبانوں کو لا یعنی ابحاث میں الجھا دیا۔ آج ہمارے پاس چہکنے والے گفتار کے غازی لیڈر تو بہت ہیں، مگر سوچنے اور عمل کرنے والے قائد کرداری کے غازی نہیں۔

یہ زوال کسی ایک دن میں نہیں آیا۔ یہ ایک منظم منصوبے کا حصہ تھا جس کے ذریعے اس امت کو اس کے حقیقی راستے سے ہٹایا گیا۔ ہمیں علمی زوال کی طرف دھکیلا گیا، فکری پسماندگی میں دھکیلا گیا، اور سب سے بڑھ کر ہمارے اندر ایک ایسی ذہنیت پیدا کی گئی جو ہمیں بغاوت سے روکتی ہے۔ ہمیں تعامل اور تسلیم کرنے والا بنایا گیا، مقابلہ کرنے والا نہیں۔

یہی حال ہماری سیاست، معیشت اور معاشرت کا ہے۔ ہر طرف غلامی کا رنگ، ہر طرف پنجرے کا جال۔ ہم ہر مسئلے کا ذمہ دار دوسروں کو ٹھہراتے ہیں، مگر اپنے اندر جھانک کر نہیں دیکھتے۔ ہم نے اپنی آزادی کا مفہوم محض نعرے بازی اور وقتی جذبات میں قید کر دیا ہے۔

ہماری بزدلی اور سستی کا یہ عالم ہے کہ جب بھی کوئی نیا چیلنج آتا ہے، ہم اس سے نمٹنے کے بجائے کسی معجزے کے منتظر ہو جاتے ہیں۔ کیا سلطنتِ عثمانیہ کے سقوط کے بعد کوئی معجزہ ہوا؟ کیا اندلس کی بربادی کے بعد کوئی معجزہ ہوا؟ کیا فلسطین، کشمیر، شام، عراق، افغانستان میں کوئی معجزہ ہوا؟ نہیں! ہر بار ہم مزید زوال میں گئے، اور ہر بار ہم نے اپنی شکست کو قسمت سمجھ کر قبول کر لیا۔

کیا اس کا کوئی حل ہے؟ کیا امت مسلمہ واقعی دوبارہ وہی مقام حاصل کر سکتی ہے؟ کیا ہم واقعی اس پنجرے سے باہر نکل سکتے ہیں؟

یقیناً! مگر اس کے لیے ہمیں سب سے پہلے اپنی خوراک نہیں، اپنی ذہنیت کو بدلنا ہوگا۔ ہمیں وہی کھانا نہیں، وہی غیرت، وہی جرات، وہی مزاج اپنانا ہوگا جو ہمیں فاتحین میں شامل کرتا تھا۔ ہمیں سوچنے کا انداز، فیصلہ سازی کی جرات، قیادت کا شعور اور خود انحصاری کی طرف قدم بڑھانا ہوگا۔ ہمیں تاریخ کو پڑھنا ہوگا، اس سے سیکھنا ہوگا، اور پھر اپنے مستقبل کو خود تشکیل دینا ہوگا۔

ورنہ ہم یونہی مرغِ مسلم بنے رہیں گے۔ گردن جھکائے، پنجروں میں بند، کسی اور کے رحم و کرم پر۔

Comments

Avatar photo

بلال شوکت آزاد

بلال شوکت آزاد تجزیاتی و فکری طور پر بیدار اور بے باک، مصنف، کالم نگار اور سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ ہیں۔ ان کی تحاریر معاشرتی، سیاسی اور عالمی امور پر گہری تحقیق، منطقی استدلال اور طنزیہ انداز کے امتزاج سے مزین ہوتی ہیں۔ اپنے قلم کو ہمیشہ سچائی، انصاف اور فکری آزادی کا علمبردار سمجھتے ہیں

Click here to post a comment