ہوم << منشا رام کے پیڑے - عبیداللہ کیہر

منشا رام کے پیڑے - عبیداللہ کیہر

کئی سال پہلے کی بات ہے، ہم کچھ دوست اپنی گاڑی پر لاہور سے کراچی جا رہے تھے۔ صادق آباد کے بعد ہم صوبہ پنجاب سے نکل کر صوبہ سندھ میں داخل ہوئے تو دوپہر کا وقت تھا۔ کچھ دیر بعد گھوٹکی بائی پاس سے گزرنے لگے تو میں نے گھوٹکی کے مشہور پیڑے یاد کئے اور خواہش ظاہر کی کہ یہ اچھا موقع ہے، کیوں نہ پیڑے کھائے جائیں۔

”چھوڑیں یار، بہت ٹائم لگ جائے گا خواہ مخواہ، بس رہنے دیں“ شکیل بھائی جھٹ سے بولے، لیکن پھر میں نے اصرار کیا تو مان گئے۔ ہم گھوٹکی بائی پاس پر ہی ایک بڑھئی کی دوکان کے سامنے رک گئے۔ میں نے اُس سے سندھی میں پوچھا :
”سائیں ادھر گھوٹکی کے مشہور پیڑے کہاں سے ملتے ہیں؟“
”سائیں پیڑے تو ادھر آپ کو گلی گلی مل جائیں گے، لیکن آپ دور کے مہمان ہیں، اس لئے آپ کو گھوٹکی کے اصلی پیڑے کھانے چاہئیں۔ وہ دوکان بیچ شہر میں ہے۔ آپ کو شہر کے بالکل اندر رش میں سے گزر کر ”منشا رام“ کی دوکان تک جانا پڑے گا۔ اسی کے پیڑے مشہور ہیں اور پوری دنیا میں جاتے ہیں۔ اگر رش میں پھنسنے کی ہمت ہے تو ضرور جائیں۔“

”اب تو یہ پیڑے لازمی کھانے ہیں“ میں بولا اور ہم شہر کے اندر داخل ہو گئے۔ اندر واقعی بڑا رش تھا۔ رکشے، ویگنیں، گدھا گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں۔ خیر ہم بھی پوچھتے پاچھتے اس جگہ پہنچ ہی گئے جہاں کا بڑھئی نے بتایا تھا۔ یہاں سے آگے گاڑی جا بھی نہیں سکتی تھی۔ میں اور ڈرائیور گاڑی سے اترے اور لوگوں سے پوچھتے ہوئے ایک گلی میں پہنچ گئے۔ یہاں ایک کھلی سی جگہ پر بہت سارے چولہے جل رہے تھے جن پر رکھی بڑی بڑی آ ہنی کڑاہیوں میں دودھ ابل رہا تھا۔ ملازم بڑے بڑے کفگیروں سے ابلتے دودھ کو ہلاتے جا رہے تھے۔ چولہوں کے قریب ہی دھری لکڑی کی بینچ پر ایک شخص ململ کا کرتا اور لنگی پہنے چشمہ لگائے بیٹھا تھا۔ اس کے ہاتھ میں ایک رجسٹر تھا جس میں وہ کچھ لکھتا جا رہا تھا۔ میں نے اس سے پوچھا:

”ادا یہاں منشا رام حلوائی کی دوکان کدھر ہے؟“
”کیوں سائیں ان سے آپ کو کیا کام ہے؟“ وہ چشمہ اتار کر ہماری طرف متوجہ ہوا۔
”ہم کراچی سے آئے ہیں“ میں بولا۔ ”ہمیں منشا رام کے مشہور پیڑے لینے ہیں“
”جی بیٹھیں ہم آپ کو کھلا دیتے ہیں پیڑے، آپ مہمان ہیں“ وہ مسکرا کر بولا۔
”نہیں نہیں … ہمیں پیڑے یہیں نہیں کھانے، ساتھ لے کر جانے ہیں۔ لیکن صرف اصلی منشا رام سے لینے ہیں کسی اور سے نہیں“ میں جلدی سے بولا۔

”سائیں منشا رام کی دوکان ادھر گلی میں ہے، آپ وہاں چلے جائیں“ اس نے سامنے ایک گلی کی طرف اشارہ کیا۔
”لیکن یہ اصلی منشا رام ہے نا؟… کوئی اور تو نہیں؟“ میں بولا۔
میری یہ بات سن کر اس نے پین اور رجسٹر ایک طرف رکھا اور کھڑا ہوگیا، پھر اپنے دونوں ہاتھ سینے پر رکھ کر جھکا اور بولا :
”سائیں … ماں پانڑ منشا رام“
(یعنی سائیں میں خود منشا رام ہوں)
ہم تو یہ سن کر اچھل پڑے اور کچھ شرمندہ بھی ہوئے۔

”بڑی خوشی ہوئی سائیں آپ سے مل کر“ میں بولا۔ ”آپ کی دکان تو یہاں سب سے مشہور ہے“
”سائیں سب خدا کی مہربانی ہے“ وہ بولا۔”آپ لوگ بیٹھیں میں آپ کیلئے پیڑے منگاتا ہوں“
”مہربانی سائیں“ میں بولا۔ ”ہم دوکان سے پیک کروا لیتے ہیں، راستے میں کھاتے جائیں گے، شکریہ“
”بس پھر آپ اندر گلی میں چلے جائیں، وہاں دوکان سے جتنے چاہیں لے لیں“ وہ بولا۔
ہم اس کا شکریہ ادا کر کے آگے بڑھے ۔ گلی میں داخل ہوئے تو ایک چھوٹی سی دوکان تھی جس پر گاہکوں کا خاصا رش تھا۔ کوئی آٹھ کلو پیڑے لے رہا تھا، کوئی پانچ کلو۔ایک کلو پیڑے تو بس ہم ہی نے لئے۔

خالص دودھ کے کھوئے سے بنے، پستہ بادام کی ہوائیوں میں لپٹے، لٹو نما لمبے مخروطی بھاری بھرکم پیڑے۔ مجھے ہمیشہ یاد رہتا ہے ان کا ذائقہ۔ اس دن کے بعد بھی اکثر موقع ملتا رہا ہے گھوٹکی کے پیڑے کھانے کا، لیکن مجھے اُس دن منشا رام صاحب کا وہ سینے پر ہاتھ رکھ کر جھک جانا اور یہ کہنا :
”سائیں ماں پانڑ منشا رام“ ، ہمیشہ یاد رہتا ہے۔

Comments

Avatar photo

عبیداللہ کیہر

عبیداللہ کیہر اردو کے معروف ادیب، سیاح، سفرنامہ نگار، کالم نگار، فوٹو گرافر، اور ڈاکومینٹری فلم میکر ہیں۔ 16 کتابوں کے مصنف ہیں۔ 2002ء میں عبید اللہ کیہر کی پہلی کتاب ”دریا دریا وادی وادی“ کمپیوٹر سی ڈی پر ایک انوکھے انداز میں شائع ہوئی جسے اکادمی ادبیات پاکستان اور مقتدرہ قومی زبان نے ”اردو کی پہلی ڈیجیٹل کتاب“ کا نام دیا۔ روایتی انداز میں کاغذ پر ان کی پہلی کتاب ”سفر کہانیاں“ 2012ء میں شائع ہوئی۔

Click here to post a comment