ہوم << افغان مہاجرین کی وطن واپسی اور اسلامی تعلیمات - عارف بنگش

افغان مہاجرین کی وطن واپسی اور اسلامی تعلیمات - عارف بنگش

پاک افغان سیاسی وعسکری تعلقات کی کشیدگی میں مسلسل شدت دیکھنےکو مل رہی ہے ۔اسلام آباد اور کابل میں بیٹھے اصحابِ اقتدار ایک دوسرے کو اپنے ملک کے بعض مسائل کا ذمے دار ٹھہرارہے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان اہم تجارتی دروازے یعنی طورخم،چمن ،انگور اڈہ، خرلاچی اور غلام خان وغیرہ سرحداتی افواج کے مابین اچانک مسلح تصادم کی وجہ سے بند ہوجاتے ہیں اور پھر کہیں ہفتوں تک دو طرفہ معاشی روابط شدید متاثر رہتے ہیں ۔

حالیہ جاری مسلح کاروائیوں میں افغان باشندوں کے ملوث ہونے کے باقاعدہ ثبوت پاکستان پیش کرچکا ہے ۔ بدامنی سے نمٹنے کے لیے پاکستان ہمہ جہتی فیصلے کررہا ہے ،جن میں افغان باشندوں کی وطن واپسی بھی شامل ہے۔ اگرچہ یہ ایک پرانی سکیم ہے جس کے تحت وقفے وقفے سے لاکھوں افغانی اپنے ملک واپس جاچکے ہیں۔البتہ اب ہر حکومت اس حوالے سے سخت گیر ثابت ہوگی۔اور افغان باشندوں کے لیے پاکستان میں رہنا،کاروبار کرنا اور آزادانہ سفر کرنے کی مشکلات میں تیزی سے اضافہ ہوگا۔اب ان کے واپس جانے کا وقت آچکا ہے، اگرچہ یہ کام دھیرے دھیرے ہوگا، مگر یہ سلسلہ اب رکنے والا نہیں ۔اس حوالے سے ہم ریاستِ پاکستان کے اس فیصلے کی قانونی پہلوؤں سے حمایت کرتے ہیں، کیوںکہ افغانی بھائی یہاں جنگی پناہ گزین تھے اور ایسے لوگوں کو ایک نہ ایک دن اپنے وطن واپس جانا پڑتا ہے۔

مگر اس سیاسی منظر نامے کو سامنے رکھ کر ہم اہلِ پاکستان کو افغان بھائیوں کے ساتھ کیسا اخلاقی رویہ اپناناچاہیے؟ جو کہ ہمارے ریاستی پڑوسی اور مسلمان ہونے کے ساتھ ساتھ دہائیوں سے پاکستانی سماج،بازار و کاروبار اور عصری و دینی درس گاہوں کا حصہ رہے ہیں۔اس حوالے سے ہمارا دین ہمیں کن اصولوں کا پابند کرتاہے ؟ اس کا جاننا بھی انتہائی ضروری ہے۔چناں چہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ۔( سورة الحجرات:10). ترجمہ: اہل ایمان آپس میں بھائی ہیں ۔ اور بھائیوں کے درمیاں صلح کی کوشش کرتے رہا کرو۔اور ( مسلمانوں ) کے باہمی معاملات میں اللہ سے ڈرتے رہا کرو۔امید ہے ( اس بنا) پر اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے نوازے۔

ایمان بذات خود ایک مستقل رشتہ ہے جو اہل ایمان کو ایک دوسرے کے ساتھ مربوط رکھنے میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے ۔ بھائیوں کے درمیان بے شمار تنازعات و ناچاکیوں کے باوجود بھی درگزر و صلح میں ہی عافیت سمجھی جاتی ہے ۔ اس کے حصول میں اگرچہ دسیوں رکاوٹیں کیوں نہ ہوں تب بھی انہیں پار کرکے عافیت کا راستہ ڈھونڈنے پر ہم اللہ تعالیٰ کی جانب سے پابند ہیں۔

اس آیت کی رو سے ہر دوممالک کے باشندوں کو انفرادی طورپر اپنا کردار ادا کرنے کی شدت سے ضرورت ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ افغان باشندوں کی وطن واپسی کا معاملہ کہی پہلوٶں سے انتہائی تلخیوں میں لپٹا ہے ۔جہاں ریاستِ پاکستان کی طرف سے سختی کی جارہی وہاں دوسری طرف سے بھی متعدد ایسی سرگرمیاں رونما ہوتی رہتی ہیں جو اس معاملے کو مزید پیچیدہ بنانے کی وجہ بن جاتی ہیں۔

یہ ایک ناقابلِ فراموش حقیقت ہے کہ پاکستان کی عوام نے گزشتہ پینتالیس برس نہایت کھلے دل کے ساتھ افغان بھائیوں کی مہمان نوازی کی ۔ بلاتفریق انہیں تعلیم و روزگار کے تمام وسائل تک رسائی فراہم کی۔ ۔حکومتی سختیوں کے باوجود ان حضرات کا اپنے ملک چلے جانے میں سست روی اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ پاکستان کے پبلک سیکٹر میں بالکل خوش ہیں ۔ اور ظاہر ہے یہ خوشی پاکستان کی عوام کی طرف سےہی میسر آئی ہے ۔بپلک سیکٹر میں سرگرم تمام رفاہی ادارے بلا امتیاز انہیں اپنے خیر سے نوازتے رہے ہیں۔اور سرکاری طور پر بھی لوکل انتظامیہ ان کے ساتھ نرم خوئی سے پیش آئی ہے ۔

جب بھی افغان باشندوں کی واپسی سے متعلق کوئی پیش رفت ہوتی ہے تو سوشل میڈیا پر اسے انتہائی منفی انداز سے پیش کیا جاتا ہے ۔ پرانی اور غیر متعلقہ ویڈیوز نئے تناظر میں غلط اور جھوٹے عنوانات کے ساتھ شئیر کی جاتی ہیں ۔ بعض افغانی یہ کام پاکستان کے خلاف نفرت پھیلانے کی غرض سے کرتے ہیں جب کہ ان کے برعکس بعض سادہ لوح پاکستانی افغانیوں کی رسوائی اور بدنامی کے لیے اس طرح کا غیر ذمے دارانہ ردعمل دیتے ہیں۔

ایسے معاملات میں ہم سب کی ذمے داری بنتی ہے کہ ایسے موقع پر ہر طرح کے منفی پراپیگنڈے سے اپنے ذہن و فکر کو بچائے رکھیں اور اپنے متعلقین اور فالورز کو بھی حقیقت سے آگاہ رکھنے کے لیے بھرپور کردار ادا کریں ۔ بعض پاکستانی نوجوان افغانیوں پر کیے گئے احسانات کو جتلاتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اور اسی بنا انہیں نمک حرام ،احسان فراموش اور مفاد پرستی کے طعنے بھی دیتے ہیں ۔ہمیں اس طرزِ عمل سے بھی مکمل اجتناب کرنا ہوگا کہ یہ اللہ تعالیٰ کے ہاں انتہائی ناپسندیدہ کام ہے۔چناں چہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿الَّذِينَ يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ثُمَّ لَا يُتْبِعُونَ مَا أَنْفَقُوا مَنًّا وَلَا أَذًى لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (سورۃ البقرۃ:262) ترجمہ:جو اللہ کی راہ میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں پھر اپنے خرچ کیے ہوئے کے پیچھے نہ احسان جتلاتے ہیں اور نہ اذیت دیتے ہیں۔ان کے لیے ان کے رب کے پاس ان کا اجر ہے ۔اور (روز قیامت ) ان پر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔

چند برس قبل جب افغان باشندوں کی واپسی کا عمل جاری تھا تو اس وقت پشتوکا ایک جملہ (کلہ بہ زے ، یعنی کب جاؤ گے) ہر طرف سنائی دے رہا تھا۔ جو خاص کر افغان باشندوں کو مخاطب کرکے لوگ طنزیہ طور پر کہا کرتے تھے ۔ یہ انتہائی نامناسب اور غیر اخلاقی رویہ تھا جو کسی مسلمان کو قطعاً زیب نہیں دیتا ۔ہمیں چاہیے کہ اپنے آس پاس وہ افغانی جو اپنے ملک کی طرف نقل مکانی کی تیاریوں میں مصروف ہیں، اگر وہ مستحق ہیں تو ان سے مالی تعاون کریں، کاروباری دوست ہیں یا دکانوں اور اداروں میں ملازمین ہیں ،تو انھیں تحائف سے نواز کر پورے ادب و احترام کے ساتھ رخصت کریں۔

اسی طرح جو لوگ پاکستان کی سرزمین سے طویل قیام و سکونت کے بعد اپنے وطن جارہے ہیں یا جو پاکستان میں پیدا ہوئے،یہاں پھلے پھولے،تعلیم حاصل کی،بازاروں میں پاکستانیوں کے ساتھ مل جل کر تجارت کی،ان کی محبتیں سمیٹیں ،ان پر بھی اخلاقی فرض بنتا ہے کہ جب جب یہاں درپیش تلخیوں کو یاد کریں گے ، یہاں کے احسانات سے بھی اپنی نسلوں کو آگاہ کرتے رہا کریں۔

بہرحال سیاسی حالات میں اتارچڑھاو انسانی تاریخ کی ایک حقیقت ہے۔پاک افغان کشیدگی بھی اسی حقیقت کا تسلسل ہے ۔ ان حالات کو درست سمت پر لانےکے لیے جو کچھ ہم کرسکتے ہیں ،اسے کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھنی چاہیے ۔ پراپیگنڈے کے وسائل بے شمار ہوچکے ہیں ،ہر سنی دیکھی کو حقیقت سمجھنے کی کوتاہی سے اجتناب کرنا چاہیے ۔ اچھے برے کردار ہر جگہ ہوتے ہیں ۔کسی ایک فرد کی برائی کو پوری قوم کی برائی کے طور پر نشر کرنا سراسر زیادتی اور نادانی ہے۔

افغان مہاجرین پینتالیس برس سے ہمارے مہمان ہیں۔ہم نے انہیں کشادہ دلی سے خوش آمدید کہا تھا۔ مجموعی طورپر پاکستان کے چاروں صوبوں کی عوام نے ان کا بھر پور ساتھ دیا ،انہیں مہاجر کیمپس سے نکال کر ملک بھر میں بسایا،انہیں ہر طرح کے تعاون سے ہم کنار کیا۔اب یہ حضرات رخصت ہورہے ہیں ،اب بھی ہمیں پورے وقار و احترام کے ساتھ انہیں الوداع کہنا چاہیے۔