خوشی کے مواقع اللہ کی طرف سے ایک نعمت ہوتے ہیں، لیکن ان مواقع پر ہمارا رویہ اور طرزِ عمل اس بات کا امتحان ہوتا ہے کہ ہم ان نعمتوں کا شکر ادا کرتے ہیں یا انہیں مصیبت میں بدل دیتے ہیں۔ بدقسمتی سے، ہمارے معاشرے میں خوشی منانے کے نام پر بعض ایسے غیر ذمہ دارانہ اور خطرناک اقدامات کیے جاتے ہیں جو خوشی کو ماتم میں بدل سکتے ہیں۔ انہی میں سے ایک بھیانک اور جان لیوا عمل ہوائی فائرنگ ہے، جو بظاہر ایک تفریحی سرگرمی سمجھی جاتی ہے لیکن درحقیقت ایک قاتلانہ فعل ہے۔
میرے عزیز دوست حافظ اختر زمان کا ایک پیغام موصول ہوا، جس میں انہوں نے بتایا کہ ان کی بہن کی شادی کے دن، وہ سامان لینے قصہ خوانی بازار گئے۔ وہاں روڈ کے کنارے کھڑے تھے کہ اچانک ایک ہوائی گولی انتہائی قریب آکر گری۔ وہ لمحہ بھر کے لیے سکتے میں آگئے، لیکن اللہ نے انہیں محفوظ رکھا۔ انہوں نے تصور کیا کہ اگر وہ گولی ان کے سر، کمر یا چہرے پر لگتی تو کیا ہوتا؟ یقیناً ان کے خاندان کے لیے یہ ایک قیامتِ صغریٰ سے کم نہ ہوتا۔
یہ واقعہ ایک سنگین حقیقت کی نشاندہی کرتا ہے۔ شادی، عید، یا نئے سال کی خوشی میں فائرنگ کرنے والا شخص ایک ایسا قاتل بن سکتا ہے جسے اپنے جرم کا علم بھی نہیں ہوتا۔ اس کی نادانی کسی معصوم کی جان لے سکتی ہے، کسی خاندان کو ہمیشہ کے لیے سوگوار کر سکتی ہے۔
ہوائی فائرنگ صرف ایک لمحے کی تفریح نہیں بلکہ انسانی جان کے لیے ایک مستقل خطرہ ہے۔ کیا ہم نے کبھی سوچا کہ گولی کس رفتار سے چلتی ہے اور کس طرح کسی کو موت کے منہ میں دھکیل سکتی ہے؟
جب گولی فائر کی جاتی ہے تو وہ تقریباً 1500 میل فی گھنٹہ (670 میٹر فی سیکنڈ) کی رفتار سے اوپر جاتی ہے، جو آواز کی رفتار سے بھی دگنی ہے۔یہ گولی دو میل تک بلندی پر پہنچ سکتی ہے، جہاں اس کی رفتار صفر ہو جاتی ہے۔پھر کششِ ثقل کی وجہ سے یہ 241 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے زمین پر واپس آتی ہے، جو کسی بھی شخص کی ہلاکت کے لیے کافی ہے۔یہ گولی جہاں فائر کی جاتی ہے، وہاں گرنے کے بجائے ہوا کے دباؤ کی وجہ سے سینکڑوں فٹ دور بھی جا سکتی ہے، یعنی ایک غیر متعلقہ شخص کو نشانہ بنا سکتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ہر سال ہوائی فائرنگ کے باعث درجنوں لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، جبکہ سینکڑوں افراد شدید زخمی ہو جاتے ہیں۔ایک لمحے کے لیے تصور کریں کہ اگر خدانخواستہ ہوائی فائرنگ کی گولی ہمارے اپنے کسی عزیز کو لگ جائے تو ہمارا کیا حال ہوگا؟ اسی طرح کسی اور کا پیارا اس بے مقصد فعل کا شکار ہو تو وہ بھی اسی کرب اور غم سے گزرے گا۔ کسی بھی بے گناہ کا خون ہمارے ہاتھوں بہے، اس سے بڑی بدنصیبی کیا ہو سکتی ہے؟
اگر کسی کو فائرنگ کرنے کا شوق ہے تو اسے چاہیے کہ کھلی جگہ یا خالی میدان میں، زمین پر نشانہ باندھ کر فائر کرے تاکہ کسی جان کو نقصان نہ پہنچے۔ لیکن سب سے بہتر راستہ یہ ہے کہ ہم اس ناسور کو مکمل طور پر ختم کرنے کے لیے آگے بڑھیں۔
اپنے گھر اور خاندان سے اس مہم کا آغاز کریں: سب سے پہلے اپنے قریبی رشتہ داروں اور دوستوں کو اس عمل کے نقصانات سے آگاہ کریں۔سوشل میڈیا پر شعور اجاگر کریں: اپنے حلقۂ احباب میں اس بارے میں آگاہی پیدا کریں تاکہ مزید لوگ اس پر عمل کریں۔تقریبات میں ذمہ داری کا مظاہرہ کریں: شادی، عید یا نئے سال کی تقریبات میں فائرنگ کی اجازت نہ دیں، اور دوسروں کو بھی ایسا کرنے سے روکیں۔
خوشی منانا ہر انسان کا حق ہے، لیکن اس خوشی کی آڑ میں کسی اور کے غم کا سبب بننا کہاں کا انصاف ہے؟ جو رب خوشی دے سکتا ہے، وہی اسے غم میں بھی بدل سکتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اللہ کی عطا کردہ نعمتوں کا شکر ادا کریں اور اپنی خوشیوں کو ایسے طریقوں سے منائیں جو نہ صرف محفوظ ہوں بلکہ دوسروں کے لیے بھی رحمت کا ذریعہ بنیں۔یہی وہ عمل ہے جو ہمیں ایک سچے مومن اور بااخلاق شہری ہونے کا ثبوت دے گا۔ آئیے، ہم سب مل کر اس ذمہ داری کو نبھائیں اور ہوائی فائرنگ جیسے جان لیوا عمل کے خلاف ایک مضبوط آواز بلند کریں۔
تبصرہ لکھیے