زندگی کا سب سے اہم مسئلہ "رزق" ہے، جو انسان کے دل و دماغ میں ہمیشہ موجود رہتا ہے۔ کبھی رزق کی کمی کا خوف، کبھی اس میں برکت کا سوال، اور کبھی اس کے حصول کی جدوجہد۔ تاہم، یہ ایک حقیقت ہے کہ رزق دینے والا صرف اللہ ہے۔ اللہ ہی "الرزاق" ہے اور وہی ہے جو "فی السماء رزقکم وما توعدون" کی حقیقت کو بیان کرتا ہے، یعنی رزق کا حقیقی مالک وہی ہے، اور اسی کی رضا پر توکل کرنا ضروری ہے۔ اس موضوع کو سورہ ذاریات سے لے کر سورہ حدید تک مختلف سورتوں میں بیان کیا گیا ہے، جہاں انسان کو رزق کی حقیقت، فقر سے بچنے کے طریقے، اور اللہ کی عطا پر توکل کرنے کی اہمیت سمجھائی گئی ہے۔
سورہ ذاریات: رزق کا مالک اللہ ہی ہے
سورہ ذاریات میں انسان کو اس خیر الرازقین ذات کی طرف رجوع کرنے کی طرف متوجہ کیا گیا ہے جو سب کا پالنہار ہے. اس سورت کی ابتداء میں رزق کا وسیلہ بننے والے حسی و معنوی چار ذرائع کی قسم کھائی گئی ہے، پہلے رزق کا سبب بننے والی ہواؤں اور بادلوں کی قسم، پھر ملکوں ملکوں رزق پہنچانے والے بحری جہازوں کی قسم اور پھر ہر ہر فرد تک روزی پہنچانے والے فرشتوں کی قسم کھانے کے بعد بتایا گیا ہے کہ تمہارا رزق آسمانوں میں ہے۔وفي السماء رزقکم. اب یہ رزق جو آسمانوں میں ہے یہ انسانوں کے لیے ہی ہے نہ کہ آسمانی علوی مخلوق یعنی فرشتوں کے لیے، کیونکہ وہ تو کھاتے پیتے ہی نہیں، جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس جب فرشتے انسانی شکل میں آئے اور انہوں نے بچھڑا ذبح کر کے ان کے سامنے کھانا پیش کیا تو ان فرشتوں نے کہا کہ ہم (رزق کھاتے نہیں بلکہ تقسیم کرتے ہیں اور آپ کو رزق کی دوسری قسم یعنی) اولاد کی خوشخبری سنانے آئے ہیں۔ آیت نمبر 50 میں ففروا الی اللہ سے اللہ کی طرف لپکنے اور اس کی بندگی کرنے کا حکم دیا گیا ہے کہ کہیں انسان رزق کی تلاش میں کھو کر رازق کو ہی نہ بھول بیٹھے اس لیے یاد دہانی کروائی گئی ہے کہ إن اللہ ھو الرزاق ذوالقوۃ المتین رزق دینے والی ذات وہی ہے۔
سورہ طور: محنت کے بقدر نتیجہ:
سورہ طور میں یہ وضاحت کی گئی ہے کہ ہر انسان کو اس کے اعمال کا نتیجہ ملے گا، بتایا گیا ہے "کل امریء بما کسب رھین" کہ ہر شخص کا انجام اس کے عمل سے مربوط ہے، دنیا کے لیے جس قدر تگ و دو کرے گا اسی قدر ریٹرن ملے گا، اور آخرت کے لیے جیسا عمل کرے گا ویسا ہی ٹھکانہ پائے گا۔ نیز یہ کہ روزی روٹی اللہ کے ہاتھ میں ہے، رزق کے خزانوں کی کنجیاں اسی کے پاس ہیں:أَمْ عِندَهُمْ خَزَائِنُ رَبِّكَ (الطور: 37) یعنی کیا ان کے پاس اللہ کے خزانے ہیں؟ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اللہ کے خزانے لامحدود ہیں، اور انسان کو اپنی زندگی میں فقر کے خوف سے نکل کر اللہ کی عطا پر بھروسہ کرنا چاہیے۔
رزق کے دروازے کھلوانے کا اصول:
جم ستارے کو کہتے ہیں، ماضی میں تاریکی میں چلنے کے لیے ستاروں سے رہنمائی لی جاتی تھی، سورہ نجم میں انسان کے سامنے حق بات کو جانچنے کے دو ذرائع رکھے گئے ہیں، پہلا ذریعہ وحی ہے جو قرآن اور حدیث کی شکل میں ہمارے پاس ہے اور دوسرا ذریعہ ظن و تخمین اور اٹکل پچو ہے۔ اگر معنوی رہنمائی کے لیے وحی کو رہنما ستارہ تسلیم کر لیا جائے تو اس میں عافیت ہے جبکہ وحی کی رہنمائی حاصل کیے بغیر عقل محض پر بھروسہ کرنا خطرے سے خالی نہیں کیونکہ إن الظن لایغني من الحق شیئا ظن و گمان اور اوہام کا حق سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا۔ اس لیے فرمایا "فأعرض عمن تولی عن ذکرنا" کہ جن کا مبلغ علم محض دنیا ہو اور وہ اللہ کے ذکر یعنی قرآن سے رہنمائی نہیں لیتا اس سے دور رہنا چاہیے۔ آیت نمبر 39 میں فرمایا: وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعَىٰ(النجم: 39) یعنی انسان کے لیے وہی کچھ ہے جس کی وہ کوشش کرے۔ اس کا مطلب ہے کہ رزق یا کسی بھی چیز کے حصول کے لیے محنت کرنا ضروری ہے، جس قدر محنت ہو گی اسی کے بقدر ہی پھل ملے گا۔
سورہ قمر: قرآن کریم کا فہم نجات کا ذریعہ ہے:
سورہ قمر میں قرآن کریم کا ماہتاب ہدایت ہونا اور نصیحت حاصل کرنے کا آسان ذریعہ ہونا بیان کیا گیا ہے اور پانچ اقوام پر پانچ مختلف عذاب نازل ہونے کا ذکر ہے اور پانچ مرتبہ ہی قرآن کریم کا سمجھنے کے لیےآسان ترین ہونا بیان کیا گیا ہےوَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ۔ گویا قرآن کریم کا فہم اس امت کو اس انجام سے بچا سکتا ہے جس سے یہ اقوام دوچار ہوئیں۔ لہذا قرآن اس امت کے لیے ایک ایسی نعمت ہے کہ جس کو سمجھنا اور اس پر عمل کرنا انسان کی کامیابی کی کنجی ہے۔
سورہ رحمن: اللہ کی نعمتوں کو جھٹلانے کا نجام:
سورہ رحمن میں اللہ کی بندوں پر متنوع نعمتوں کا تذکرہ ہے اور ہر نعمت کے بعد اس کے جھٹلانے والے انسانوں اور جنوں پر تعجب کا اظہار کیا گیا ہےفَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ۔ نعمتوں کے بیچ میں اس جہنم کا بھی تذکرہ ہے جس کو جھٹلانے والے جھٹلایا کرتے تھے هذه جهنم التي يكذب بها المجرمون۔ وہاں اللہ کی نعمتوں کو جھٹلانے والے اپنے اس انجام کو پہنچیں گے جو کہ تکذیب کرنے والوں کا انجام ہونا چاہیے، خواہ وہ جنات میں سے ہوں یا انسانوں میں سے۔
سورہ واقعہ: فقر و فاقہ سے بچنے کا نبوی وظیفہ:
سورہ واقعہ سے متعلق حدیث میں آتا ہے کہ جس گھرانے میں ہر رات سورہ واقعہ کا اہتمام کیا جاتا ہو اس گھر میں کبھی فاقہ نہیں آئے گا۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ اس سورت میں ایسی کیا تعلیمات ہیں جن پر عمل پیرا ہو کر فقر وفاقہ سے بچا جا سکتا ہے؟ اس سورت میں بیان کیا گیا ہے کہ قیامت کے دن انسانوں کے تین گروہ بنیں گے۔ پہلا گروہ اللہ کے مقربین کا ہو گا، دوسرا اصحاب الیمین یعنی دائیں جانب والوں کا جو کہ نعمت بھری جنت میں رہیں گے اور تیسرا اصحاب الشمال یعنی بائیں جانب والوں کا گروہ ہو گا جس کا ٹھکانہ دوزخ ہو گا۔
محنت کی عظمت:
اگلی آیات میں اپنی طرف سے محنت کرنے اور اس کا پھل اللہ سے پانے کا یقین رکھنے کی ترغیب دی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ کھیتی باڑی تو انسان کرتا ہے لیکن اس کے نتیجے میں فصلیں اگانا خدائی امر ہے، انسان محنت سے آگ جلانے کے لیے لکڑیاں حاصل کرتا ہے لیکن وہ درخت اللہ ہی کے پیداکردہ ہیں۔اسی طرح انسانی تخلیق اور بارش وغیرہ کی مثالیں بھی یہی واضح کرتی ہیں کہ اصحاب الیمین بننے کے لیے دو امر شرط ہیں، ایک عمل اور محنت جبکہ دوسرا خدا کے مسبب الاسباب ہونے پر یقین۔ اصحاب الیمین کا لفظ بھی اس معنی کی طرف اشارہ کرتا ہے کیونکہ عربی میں کسی ماہر فن یا محنت کرنے والے کو بھی صاحب یمین کہتے ہیں۔ جو صاحب یمین بھی اللہ پر کامل یقین کے ساتھ محنت کرے گا اللہ اسے محنت کا صلہ ضرور دے گا۔ جو شخص ہر رات اس سورت کی تلاوت کرتے ہوئے محنت اور یقین کی عظمت کا درس لے اس کے گھر میں فقر وفاقہ کبھی بھی ڈیرہ نہیں ڈال سکتا۔
سورہ حدید: دنیاوی اسباب کو دین کی سربلندی کے لیے استعمال میں لانا:
حدید عربی میں لوہے کو کہتے ہیں، سورہ حدید میں حدیدی ایمان کی ترغیب دی گئی ہے جبکہ ایمان میں اضطرابی کیفیت اور نفاق والوں کے برے انجام کی خبر دی گئی ہے، نیز اللہ کی راہ میں خرچ کرنے اور دنیا و آخرت کی کامیابی کے اصول واضح کیے گئے ہیں۔ یہاں یہ بات بیان کی گئی ہے کہ مال و دولت محض ایک آزمائش ہے اور اصل کامیابی وہ ہے جو اللہ کی رضا کے لیے خرچ کرنے سے حاصل ہوتی ہے: مَنْ ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضَاعِفَهُ لَهُ وَلَهُ أَجْرٌ كَرِيمٌ" (الحدید: 11) "کون ہے جو اللہ کو اچھا قرض دے، تاکہ وہ اس کے لیے اسے کئی گنا بڑھا دے اور اس کے لیے عزت کا اجر ہو؟" یہ آیت واضح کرتی ہے کہ جو شخص اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہے، اللہ اس کے رزق میں بے پناہ اضافہ فرماتا ہے۔ آخر میں بتایا گیا ہے کہ اللہ نے لوہے میں طاقت اور بے شمار فائدے رکھے ہیں تاکہ وہ جانے کے کون اس لوہے کے ذریعے ایسے آلات ایجاد کرتا اور استعمال میں لاتا ہے جن کا فائدہ دین کو پہنچے" لیعلم اللہ من ینصرہ"۔ ظاہر ہے کہ اس امتحان میں وہی کامیاب ہو سکتے ہیں جن کا ایمان لوہے کی طرح مضبوط ہو نہ کہ منافقین۔
موجودہ دور میں، جہاں مہنگائی، بے روزگاری، اور معاشی عدم استحکام بڑھ چکے ہیں، قرآن کے یہ اصول نہ صرف روحانی بلکہ عملی زندگی میں بھی کامیابی کی کنجی ہیں۔ اللہ کی نعمتوں کو پہچاننا، اس پر توکل کرنا، محنت کرنا، قرآن سے رہنمائی لینا، شکرگزاری اپنانا، اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنا وہ بنیادی نکات ہیں جو رزق کی برکت اور فقر و فاقہ سے نجات کے لیے ضروری ہیں۔ جو شخص ان اصولوں کو اپنائے گا، وہ دنیا و آخرت میں کامیاب ہوگا، اور اللہ اسے رزق کی تنگی سے نکال کر نعمتوں کی وسعت میں داخل کر دے گا۔
تبصرہ لکھیے