دو واقعات اس وقت سوشل میڈیا پر زیر بحث ہیں۔
ایک ، پاک پتن میں ایک بچے نے طیش میں آ کر قینچی اپنی ماں کو دے ماری۔
دو، حرم میں ایک عورت کو قانون نافذ کرنے والے ادارے کے کارکن نے تھپڑ مارا جبکہ خاتون نے پہلے اس پر ہاتھ اٹھایا۔
دونوں واقعات اشتعال میں آ نے کے ہیں۔
بلکہ ایک تیسرا واقعہ بھی دیکھا کہ ایک خاتون ایک گاڑی کو دو لتیاں رسید کر رہی ہیں اور ڈرائیور کو پتہ نہیں کیا کیا واہی تباہی بک رہی ہیں۔
اب اگر ڈرائیور نکل کر ایک دو ہاتھ لگا دیتا تو انھوں نے مظلوم بن جانا تھا کہ عورت پر ہاتھ اٹھایا۔
بچے کورا کاغذ ہوتے ہیں ۔ یہ جو کچھ بھی سیکھتے ہیں اپنے ماحول سے سیکھتے ہیں۔
ٹک ٹاک پر اکثر وڈیوز میں ماؤ ں کی بدکلامی اور ہاتھ چالاکی کی وڈیوز موجود ہیں۔ بچے نے بات نہیں سنی، ماں نے چپل اتار کر دے ماری۔ یہ سب دیکھ کر لوگ ہنستے ہیں، لیکن جب ماں چپل اتار کر دے مارتی ہے تو بچے کو یہ سکھا رہی ہوتی ہے کہ جو چیز پاس ہے اس سے ضرر پہنچا دو۔
میں یہاں وکٹم بلیمنگ نہیں کر رہی۔ میں مسئلہ کی جڑ بتا رہی ہوں۔
یہ جو عورتیں اپنے اشتعال پر اتنا قابو نہیں پا سکتیں کہ کوئی حرم میں تھپڑ مار رہی ہے، کوئی گاڑی کو لاتیں مار رہی ہے، یہ گھر میں اپنے بچوں کے ساتھ کیا سلوک کرتی ہوں گی۔
زور تو کمزور پر ہی چلتا ہے۔ پھر جب یہی کمزور بچے بڑے ہو جاتے ہیں تو ایسی وڈیوز بھی نیٹ پر موجود ہیں کہ وہ اپنی ماؤ ں کو مارتے ہیں۔
کچھ عرصہ پہلے ایک ویڈیو آ ئی تھی کہ ایک پاکستانی شادی شدہ مرد نے اپنی ماں کو مارا۔ بہن نے چھپ کر وڈیو بنا کر نیٹ پر ڈال دی۔ سب اس مرد کو نا فرمان بد بخت کہنے لگے۔
وہ اس مقام تک کیسے پہنچا؟
کچھ خواتین سمجھتی ہیں انھوں نے پیدا کیا اب ان کا حق ہے کہ ماریں پیٹیں، بد زبانی کریں، اونچی آ واز میں چلا چلا کر جینا حرام کر دیں۔
کنٹرول کریں خود کو۔
بچے ذمہ داری ہیں۔ اتنی ذمہ داری لیں جتنی بخوبی اٹھا سکتی ہیں۔
بچہ اور ماں کا رشتہ بانڈنگ کا پیار کا ہونا چاہیے، بیزاری کا نہیں ۔ بچہ کی دنیا تو ماں ہی ہوتی ہے۔ ماں ہی اس کی سیف پلیس نہیں ہو گی تو بچہ کی ذہنی صحت تو خراب ہو گی ہی۔
جس دن سے بچہ پیدا ہوتا ہے اس دن سے اسے ایک مکمل فرد سمجھیں۔ جس طرح کسی بھی انسان سے تمیز سے بات کرنی ہے بالکل اسی طرح اپنے بچے سے پہلے دن سے پوری عزت کا برتاؤ کرنا ہے۔ اس سے بات کرتے ہوئے الفاظ کا چناؤ بہترین کرنا ہے۔ یہ نہیں سوچنا کہ میں نے پیدا کیا ہے اب میں جو مرضی کروں۔
بچے کو پیار کی زبان سمجھ آ تی ہے۔ نرمی کی زبان سمجھ آ تی ہے۔ اب کچھ لوگ کہیں گے بے جا لاڈ پیار سے بچے بگڑ جاتے ہیں ۔
بالکل ، بچہ نادان ہوتا ہے اسے ہماری رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ جہاں وہ غلطی کرتا ہے اسے مناسب وقت پر جب وہ سننے کے موڈ میں ہو اپنے پاس بٹھا کر نرمی سے سمجھائیں ۔ جہاں روکنا ہے وہ باؤ نڈریز بتائیں۔ یہ کام نہیں کرنا تو کیوں نہیں کرنا۔
غصے میں انسان چیخ کر بات کرتا ہے حالانکہ جس سے بات کر رہا ہوتا ہے وہ سامنے ہی بیٹھا ہوتا ہے۔ چیخنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ آپ دوسرے انسان سے دور ہو گئے ہیں، اس لیے چیخ کر اپنی بات پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
نرمی اور آ ہستگی سے کی گئی بات پیغام دیتی ہے کہ آ پ دوسرے بندے کے قریب ہیں، اس لیے آ پ کی بات آ سانی سے اس کے دل تک پہنچ جائے گی۔
آ پ انسان ہیں ۔ انسان کو غصہ آ بھی سکتا ہے۔ اگر غصہ آ ئے تو ضبط کریں۔ وہ جگہ چھوڑ دیں۔ کھلی فضا میں جائیں ۔ گہرے سانس لیں۔ منہ بند رکھیں ۔ جب غصے کی لہر گزر جائے، تب پر سکون ہونے کے بعد ہی منہ کھولیں۔
الفاظ کے زخم بھی بہت کاری ہوتے ہیں۔ انھیں سوچ سمجھ کر استعمال کریں۔
پر سکون رہیں۔ ہمارے کہے ہوئے الفاظ کائنات میں باقی رہتے ہیں ، گونجتے رہتے ہیں۔ کوشش کریں کہ ہماری صرف اچھی باتیں ہی کائنات کا حصہ بنیں۔ تھوڑی سی توجہ کی ضرورت ہے
تبصرہ لکھیے