600x314

نبی کریم ﷺ کے تجارتی اصولوں کی عصری اہمیت – عارف علی شاہ

انسانی تہذیب میں تجارت ہمیشہ معیشت کی ریڑھ کی ہڈی رہی ہے۔ اسلام نے بھی تجارت کو نہ صرف جائز بلکہ پسندیدہ ذریعہ معاش قرار دیا ہے۔ نبی کریم ﷺ کی سیرت میں تجارت کو ایک نمایاں حیثیت حاصل ہے، کیونکہ آپ ﷺ نے اپنی عملی زندگی میں اس شعبے کو اپنایا اور اعلیٰ اخلاقی اقدار کے ساتھ اس میں کام کیا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم نبی کریم ﷺ کی تجارتی زندگی، اس کے اصول، اور جدید معیشت پر ان کے اثرات کا سے آگاہی حاصل کرلیں۔کیونکہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی مبارک زندگی ہمارےلیے کامل نمونہ ہے.

مکہ مکرمہ عرب کے سب سے بڑے تجارتی مراکز میں سے ایک تھا۔ اس شہر کی معیشت زیادہ تر تجارت پر مبنی تھی، کیونکہ زرعی وسائل محدود تھے اور مکہ کے لوگ زیادہ تر قریبی شہروں اور ممالک کے ساتھ تجارتی تعلقات رکھتے تھے۔ قریش کے قافلے سردیوں میں یمن اور گرمیوں میں شام کا سفر کرتے تھے۔ ان تجارتی سرگرمیوں کا تذکرہ قرآن مجید میں بھی موجود ہے: [arabic]لِإِيلَافِ قُرَيْشٍ ۝ إِيلَافِهِمْ رِحْلَةَ الشِّتَاءِ وَالصَّيْفِ (سورہ قریش)[/arabic]

نبی کریم ﷺ نے بھی اسی ماحول میں پرورش پائی اور کم عمری میں ہی تجارت سے واقف ہو گئے۔ آپ نے ابتدا میں اپنے چچا ابو طالب کے ساتھ شام کے تجارتی سفر میں حصہ لیا، جہاں آپ کی ایمانداری اور کاروباری فہم و فراست کے چرچے ہونے لگے۔ آپ ﷺ کی تجارتی کامیابی کی بنیادی وجہ آپ کی حکمت عملی اور اخلاقی اصول تھے. نبی کریم ﷺ تجارت میں دیانت داری کو سب سے زیادہ اہمیت دیتے تھے۔ آپ ﷺ کا لقب "الصادق” اور "الامین” اسی وجہ سے رکھا گیا، کیونکہ لوگ جانتے تھے کہ آپ کبھی دھوکہ نہیں دیتے۔ ایک ایماندار تاجر کو اسلام میں کتنی اہمیت دی گئی ہے۔اس کا اندازہ آپ اس حدیث مبارکہ سے لگا سکتے ہیں۔آپﷺ نے فرمایا کہ "تاجر صادق اور امانت دار نبیوں، صدیقوں اور شہداء کے ساتھ ہوگا۔” (ترمذی، حدیث 1209)

اسی طرح آپ ﷺ نے ناپ تول میں کمی کو سخت ناپسند فرمایا اور فرمایا کہ ایسے لوگ اللہ کے عذاب کے مستحق ہیں۔ قرآن میں بھی ایسے لوگوں کے لیے سخت وعید آئی ہے: [arabic]وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ ۝ الَّذِينَ إِذَا اكْتَالُوا عَلَى النَّاسِ يَسْتَوْفُونَ ۝ وَإِذَا كَالُوهُمْ أَوْ وَزَنُوهُمْ يُخْسِرُونَ” (سورہ المطففین، 83:1-3)[/arabic]
تجارت میں انصاف اور اعتدال کو اپنانا کتنا ضروری ہے۔اس آیت میں واضح طور پر رہنمائی موجود ہے۔نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی تعلیمات نے تجارت میں بھروسہ اعتماد کی طرف راغب کیا ہے۔کیونکہ کاروباری ساکھ یہ اصل سرمایہ ہے۔ نبی کریم ﷺ نے کبھی کسی سودے میں مبالغہ یا جھوٹ کا سہارا نہیں لیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا” خریدار اور بیچنے والا جب تک جدا نہ ہوں، انہیں اختیار حاصل رہتا ہے۔ اگر وہ سچ بولیں اور عیب ظاہر کر دیں تو ان کی تجارت میں برکت دی جائے گی۔ اور اگر جھوٹ بولیں اور عیب چھپائیں تو ان کی تجارت سے برکت اٹھا لی جائے گی۔” (بخاری، حدیث 2079)

حضرت خدیجہؓ مکہ کی ایک نامور تاجرہ تھیں، جن کے تجارتی قافلے شام اور یمن تک سفر کرتے تھے۔ انہوں نے نبی کریم ﷺ کی ایمانداری اور تجارتی صلاحیتوں سے متاثر ہو کر انہیں اپنا کاروباری نمائندہ مقرر کیا۔ آپ ﷺ نے حضرت خدیجہؓ کا مال لے کر شام کا سفر کیا اور بہترین نفع کمایا۔ اس دوران آپ ﷺ کی ایمانداری، معاملہ فہمی، اور تجارتی مہارت نے حضرت خدیجہؓ کو مزید متاثر کیا، جس کے نتیجے میں انہوں نے آپ ﷺ کو نکاح کا پیغام بھیجا۔یہ نکاح صرف ایک ازدواجی تعلق نہیں تھا بلکہ ایک کامیاب تجارتی شراکت داری بھی تھی، جس نے اسلامی تاریخ میں ایک نئی مثال قائم کی۔

آج کی گلوبلائزڈ دنیا میں معیشت، کاروبار، اور تجارت کے اصول تیزی سے ترقی کر رہے ہیں، لیکن بدعنوانی، عدم دیانت داری، اور غیر منصفانہ کاروباری رویے بڑے چیلنجز بن چکے ہیں۔ ایسے میں نبی کریم ﷺ کی تجارتی سیرت جدید کاروباری ماڈلز کے لیے بہترین نمونہ پیش کرتی ہے۔ آپ ﷺ کے اصول نہ صرف اسلامی معیشت کے لیے بلکہ عالمی تجارتی نظام کے لیے بھی کامیابی کی ضمانت ہیں۔ ذیل میں چند اصولوں کاخلاصہ دیکھتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ جدید دنیا میں ان کی کیا اہمیت ہے۔

1. یمانداری اور شفافیت
آج کی دنیا میں مالی بدعنوانی ، جھوٹی تشہیر اور غیر شفاف کاروباری معاہدے عام ہیں۔ کئی بڑی کمپنیاں جھوٹے وعدے کرکے صارفین کو دھوکہ دیتی ہیں، جس کی وجہ سے صارفین کا اعتماد ختم ہو جاتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے ہمیشہ سچائی اور شفافیت پر زور دیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: "خریدار اور بیچنے والے جب تک جدا نہ ہوں، انہیں اختیار حاصل رہتا ہے۔ اگر وہ سچ بولیں اور عیب ظاہر کر دیں تو ان کی تجارت میں برکت دی جائے گی۔ اور اگر جھوٹ بولیں اور عیب چھپائیں تو ان کی تجارت سے برکت اٹھا لی جائے گی۔” (بخاری، حدیث 2079)
یہ اصول جدید کاروبار میں[english] ethical business practices[/english]اور[english] corporate integrity[/english] کی بنیاد ہے۔ آج کے دور میں بھی وہی کمپنیاں زیادہ کامیاب ہوتی ہیں جو ایمانداری کو اپنی پالیسی کا حصہ بناتی ہیں۔ بڑی کمپنیاں جیسے Apple، Tesla، اور Toyota اپنی مصنوعات کے معیار اور شفافیت کی وجہ سے صارفین کا اعتماد جیتتی ہیں۔[english] Halal certification[/english]بھی ایک مثال ہے، جہاں مصنوعات کی شفافیت اور ایمانداری کو یقینی بنایا جاتا ہے۔

صارفین اور کاروباری شراکت داروں کے ساتھ انصاف
بہت سی کمپنیاں غیر منصفانہ قیمتیں رکھتی ہیں، غیر معیاری مصنوعات بیچتی ہیں، اور صارفین کو دھوکہ دیتی ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے تجارت میں انصاف اور ناپ تول کی درستگی پر زور دیا۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتے ہیں: اور ناپ تول میں کمی نہ کرو، اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم نہ دو، اور زمین میں فساد نہ مچاؤ (الاعراف، 7:85) . یہ اصول آج کے دور میں [english] Consumer Protection Laws[/english] کی بنیاد ہے، جو کہ صارفین کے حقوق کی حفاظت کے لیے بنائے جاتے ہیں۔
[english]Fair Trade Certification [/english]
آج کئی بین الاقوامی تنظیمیں [english]Fair Trade[/english] کے اصولوں پر کام کر رہی ہیں تاکہ مزدوروں کے استحصال کو روکا جا سکے اور منصفانہ تجارت کو فروغ دیا جا سکے۔ EU اور USA کے صارفین کے حقوق کے قوانین’ آج ترقی یافتہ ممالک میں سخت قوانین ہیں جو صارفین کو معیاری مصنوعات اور خدمات فراہم کرنے کو یقینی بناتے ہیں۔

سود سے پاک معیشت
روایتی بینکاری نظام سود پر مبنی ہے، جو کہ غریبوں کے استحصال کا باعث بنتا ہے اور معیشت میں عدم استحکام پیدا کرتا ہے۔ اسلام نے سود کو حرام قرار دیا ہے: "اللہ نے تجارت کو حلال کیا اور سود کو حرام قرار دیا۔” (البقرہ، 2:275) یہی وجہ ہے کہ اسلامی معیشت میں[english] Shariah-Compliant Banking[/english] اور[english] Islamic Finance[/english] کا تصور دیا گیا ہے، جس میں مشارکہ [english]Partnership[/english] ، مضاربہ[english] Profit Sharing[/english] اور اجارہ[english] Leasing[/english] جیسے طریقے اپنائے جاتے ہیں۔ آج کئی بین الاقوامی اسلامی بینک، جیسے [english]Dubai Islamic Bank Meezan Bank[/english] اور [english] Al Rajhi Bank[/english] کامیابی سے چل رہے ہیں اور دنیا بھر میں سود سے پاک مالیاتی نظام کی مثال قائم کر رہے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اسلامی بینکاری کا نظام معاشی بحرانوں سے بچاؤ کا بہترین حل ہے، جیسا کہ 2008 کے عالمی مالی بحران [english](Global Financial Crisis)[/english] میں دیکھا گیا۔

اجرت کی بروقت ادائیگی اور مزدوروں کے حقوق
بہت سی کمپنیاں مزدوروں کا استحصال کرتی ہیں، کم اجرت دیتی ہیں، اور ان کے حقوق پامال کرتی ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے مزدوروں کے حقوق کو بہت اہمیت دی اور فرمایا: مزدور کو اس کی مزدوری پسینہ خشک ہونے سے پہلے دے دو (ابن ماجہ، حدیث 2443) یہ اصول آج کے [english] Minimum Wage Laws[/english] اور [english]Workers’ Rights Regulations[/english] کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔ جیساکہ [english]International Labor Organization (ILO)[/english] کے قوانین جو مزدوروں کے تحفظ کے لیے بنائے گئے ہیں۔ اسی طرح[english] CSR (Corporate Social Responsibility) [/english] جو کمپنیوں کو مزدوروں کے حقوق کا خیال رکھنے پر مجبور کرتی ہیں۔

ذخیرہ اندوزی اور اجارہ داری کی ممانعت
کئی بڑے کاروباری ادارے ضروری اشیاء کی مصنوعی قلت پیدا کر کے قیمتیں بڑھاتے ہیں، جس سے غریب عوام مشکلات کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس بارے میں سیرت طیبہ سے رہنمائی موجود ہے نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جو شخص کھانے پینے کی چیزیں ذخیرہ کرتا ہے تاکہ ان کی قیمتیں بڑھا کر بیچے، وہ گناہگار ہے (مسلم، حدیث 1605)
یہ اصول جدید [english]Antitrust Laws[/english] کی بنیاد فراہم کرتا ہے، جو مارکیٹ میں اجارہ داری اور ذخیرہ اندوزی کو روکنے کے لیے بنائے جاتے ہیں۔ امریکہ اور یورپ کے قوانین بڑی کمپنیوں کے غیر منصفانہ تجارتی رویے روکنے کے لیے [english] Competition Laws[/english] بنائے گئے ہیں۔ حالیہ برسوں پاکستانی حکومتوں نے چینی اور آٹے کی ذخیرہ اندوزی کے خلاف کارروائیاں کی ہیں۔

نبی کریم ﷺ کے تجارتی اصول آج کے جدید کاروباری ماڈلز کے لیے ایک بہترین رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔
ایمانداری اور شفافیت کاروبار کی کامیابی کے لیے بنیادی عناصر ہیں۔
صارفین اور مزدوروں کے حقوق کی حفاظت کے بغیر معیشت ترقی نہیں کر سکتی۔
سود سے پاک معیشت معاشی بحرانوں سے بچنے میں مدد دیتی ہے۔
اجارہ داری اور ذخیرہ اندوزی کے خلاف اقدامات عوام کی فلاح و بہبود کے لیے ضروری ہیں۔
اگر جدید دنیا ان اصولوں کو اپنا لے تو معیشت میں استحکام، انصاف اور خوشحالی آ سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی اقتصادیات اور تجارت کے اصول آج بھی کامیابی کی ضمانت ہیں اور ترقی یافتہ ممالک بھی ان سے سیکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

مصنف کے بارے میں

عارف علی شاہ

عارف علی شاہ بنوں فاضل درس نظامی ہیں، بنوں یونیورسٹی میں ایم فل اسکالر ہیں، اور کیڈٹ کالج میں بطور لیکچرر مطالعہ قرآن اپنی ذمہ داری نبھا رہے ہیں۔ ان کی تحریروں میں عصرحاضر کے چلینجز کا ادراک اور دینی لحاظ سے تجاویز و رہنمائی کا پہلو پایا جاتا ہے

تبصرہ لکھیے

Click here to post a comment