ہوم << سائیکل پہ بیٹھی عورت - عبیداللہ کیہر

سائیکل پہ بیٹھی عورت - عبیداللہ کیہر

آپ نے اکثر پاکستانیوں کو اپنے ہی ملک کی برائیاں کرتے دیکھا ہوگا۔ یہ ایک عجب بیہودہ فیشن چل پڑا ہے۔ ہم ہر معاملے میں کوئی نہ کوئی ایسی بات ضرور نکال لیتے ہیں کہ جس پر اپنے آپ کو اور اپنے ملک کو برا بھلا کہہ سکیں۔ ایک اعتراض جو اکثر پاکستانیوں پر ہوتا ہے کہ یہ پیسے کے بڑے لالچی ہیں، بے ایمان ہیں، کنجو س ہیں اور مال کیلئے کچھ بھی کر سکتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔

ان سب باتوں کے برعکس میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ پاکستانیوں جیسے مخیّر اور برے وقت میں کام آنے والے لوگ شاید دنیا میں بہت کم ہوں گے۔ اس کی کئی مثالیں ہیں۔ جب بھی پاکستان پر کوئی قدرتی آفت آتی ہے، طوفان سیلاب یا زلزلے آتے ہیں، تو ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ امداد کیلئے اپنے گھر کی ضروری چیزیں تک اٹھا کر لے آتے ہیں۔ یہ کھل کر امداد دیتے ہیں اور یہ کوشش بھی کرتے ہیں کہ بذاتِ خود مصیبت زدہ لوگوں تک پہنچ کر ان کی مدد کریں۔ اکثر شہروں سے باہر دور دراز علاقوں میں ریل کے حادثے یا روڈ ایکسیڈنٹ کی صورت میں پورے پورے گاؤں اٹھ کر آجاتے ہیں اور انہیں جو بھی کھانا پینا میسر ہو، لا کر متاثرین پر نچھاور کر دیتے ہیں۔ اخبارات ایسے واقعات سے بھرے پڑے ہیں۔ پاکستان اور پاکستانیوں کی برائیاں کرتے وقت ہمیں ان حقیقتوں کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے۔

2005ء کا سال پاکستان کیلئے بڑا لرزہ خیز تھا، کیونکہ اس سال اکتوبر کے مہینے میں پاکستان کے شمالی علاقوں میں بالاکوٹ سے لے کر پورے کشمیر تک پھیلا ہوا بڑا ہولناک زلزلہ آیا تھا۔ میں ان دنوں اقوام متحدہ کے ادارہ خوراک و زراعت میں کنسلٹنٹ تھا اور کشمیر میں ہی ایک پروجیکٹ سے وابستہ تھا۔ 28 ستمبر کے دن میں نے کشمیر میں دریائے جہلم کے کنارے قصبہ گڑھی دوپٹہ میں اپنا اسائنمنٹ مکمل کیا اور اسلام آباد کیلئے نکل آیا۔ میری فیملی میرے ساتھ تھی۔ ہم مظفر آباد، بالا کوٹ، مانسہرہ اور ایبٹ آباد کے راستے اسلام آباد پہنچے اور اگلے دن کراچی کیلئے نکل آئے۔ کراچی پہنچے تو وہ 5 اکتوبر کا دن تھا اور رمضان المبارک کا آغاز ہو رہا تھا۔ اس کے تین دن بعد، یعنی 8 اکتوبر 2005ء کو میں سحری اور نماز فجر سے فارغ ہو کر سوگیا۔ میں تو دس بجے تک سونے کے خیال سے لیٹا تھا لیکن میری بیوی نے مجھے نو بجے سے پہلے ہی اٹھا دیا۔

”سنیں … یہ دیکھیں … یہ ٹی وی پر کیا خبر چل رہی ہے؟… اسلام آباد میں زلزلہ آیا ہے، ایک بڑی بلڈنگ گر گئی ہے، خبریں آرہی ہیں کہ اس میں کئی لوگ مر گئے ہیں۔“
میں ہڑبڑا کر اٹھا اور فوراً ٹی وی کے سامنے آ کر بیٹھ گیا ۔ رفتہ رفتہ زلزلے کی وسعت اور ہلاکت خیزی سے متعلق مزید خبریں آتی چلی گئیں اور کچھ ہی دیر میں اندازہ ہو گیا کہ یہ آفت صرف اسلام آباد میں نہیں آئی بلکہ اس نے بالاکوٹ سے لے کر تقریباً پورے کشمیر میں تباہی پھیلا دی ہے۔ بعد میں آنے والے اعداد و شمار کے مطابق اس زلزلے میں تقریباً 75 ہزار لوگ جاں بحق ہو گئے۔ جیسے جیسے خبریں آتی گئیں ویسے ویسے قوم غم میں ڈوبتی چلی گئی۔

ہم گھر سے باہر نکلے تو کراچی میں ہر طرف بس یہی بات ہو رہی تھی کہ وہاں تک امداد کیسے پہنچائی جائے۔ مختلف فلاحی اداروں نے فوراً ہی اپنے امدادی کیمپ قائم کر لئے۔ پاکستان ایئر فورس نے کراچی میں فیصل ایئر بیس سے C-130 جہاز کی ایمرجنسی فلائٹس شروع کر دیں، جو کراچی میں جمع ہونے والے امدادی سامان کو فوری طور پر راولپنڈی پہنچانے لگیں۔ جتنی بھی امداد آتی وہ فوری طور پر مظفر آباد روانہ کر دی جاتی۔ کراچی میں شارع فیصل پر امداد جمع کروانے والوں کی میلوں طویل قطاریں لگ گئیں۔

ہمارے محلے میں بھی پہلے ہی دن الخدمت فاؤنڈیشن کا امدادی کیمپ قائم ہو گیا اور سامان جمع ہونے لگا۔ میں بھی اس کیمپ میں جا کر بطور رضاکار بیٹھ گیا۔ یہاں معاشرے کے ہر طبقے سے لوگ اپنی امداد پہنچانے آرہے تھے۔ کوئی گاڑی میں تو کوئی پیدل، کوئی پیسے دے رہا تھا تو کوئی آٹے چاول کی بوریاں، کوئی گرم کپڑے لایا تھا تو کوئی بستر اور کمبل۔ جس کی جو توفیق تھی وہ دے رہا تھا کہ ان کے مصیبت زدہ کشمیری بھائیوں تک یہ امداد پہنچائی جائے۔ میں جب وہاں بیٹھا تھا تو ایک عجیب منظر دیکھا۔

ہمارا معاشرہ امیر اور غریب لوگوں کا مجموعہ ہے۔ امیروں کا ایک اپنا انداز ہوتا ہے اور غریبوں کا اپنا طرزِ زندگی۔ مثلاً امیر لوگ اپنی کاروں میں سفر کرتے ہیں اور اونچے بنگلوں میں رہتے ہیں۔ غریب آدمی پیدل چلتا ہے یا سائیکل موٹر سائیکل پر گھومتا ہے۔ اگر کوئی کار میں بیٹھا اپنی بیوی کے ساتھ آرہا ہے تو ہم یہی سمجھتے ہیں کہ وہ پیسے والا ہے اور جو موٹر سائیکل پر اپنی اہلیہ کو بٹھا کر آرہا ہے تو ہم سوچیں گے کہ متوسط طبقے کا ہے۔ لیکن بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو سائیکل پہ اپنی بیوی کو بٹھا کر نکلتے ہیں۔ ایسوں کو تو ہم بہت ہی غریب سمجھتے ہیں۔

تو کیمپ میں بیٹھے بیٹھے میں نے دیکھا کہ دور سے ایک آدمی سائیکل چلاتا ہوا آرہا ہے اور پیچھے کیریئر پر اس کی بیوی بیٹھی ہوئی ہے۔ وہ سائیکل ہمارے کیمپ کے سامنے آ کر رک گئی۔ میں نے دیکھا کہ سائیکل کے کیریئر پر بیٹھی عورت نے اپنی گود میں آٹے کی دس کلو والی بوری رکھی ہوئی تھی۔ سائیکل رکتے ہی وہ آٹے کا تھیلا ہاتھ میں لئے نیچے اتری اور اسے لا کر میرے سامنے ٹیبل پر رکھ دیا۔ میں نے حیران ہو کر اسے دیکھا تو بولی : ”بھائی یہ آٹا ہماری طرف سے ہمارے زلزلہ زدگان بھائیوں کیلئے ہے“

آپ یقین کریں کہ میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ یعنی ایک طرف تو یہ غریب آدمی تھا کہ جسے صرف سائیکل کی سواری دستیاب تھی اور اس نے اسی سائیکل پر اپنی بیوی کو بٹھایا ہوا تھا، اور دوسری طرف وہ لوگ بھی تھے جو اپنی قیمتی کاروں سے اتر کر آتے تھے اور مہنگا امدادی سامان اور ہزاروں روپے نقد جمع کروا رہے تھے۔ مجھے ان امیروں کے دیئے گئے سارے قیمتی امدادی سامان سے کہیں زیادہ قیمتی یہ دس کلو آٹے کی بوری لگی، جو اس سائیکل سوار میاں بیوی نے آ کر اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کیلئے دی تھی … اس لئے کہ ان کی تو شاید استطاعت بھی اتنی نہیں تھی …

اور ہم ہیں کہ بڑے مزے سے پاکستان اور پاکستانیوں کو برا بھلا کہہ دیتے ہیں۔ ذرا کوئی مسئلہ ہو جائے، ہم جھٹ سے کہہ دیتے ہیں کہ پاکستانی تو حج کرنے میں بھی پہلے نمبر پر ہیں اور بے ایمانی میں بھی پہلے نمبر پر … خدا کو مانو یار … دنیا کی ہر قوم میں ایماندار و بے ایمان ہر طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ کوئی بھی قوم پوری کی پوری ایماندار یا پوری کی پوری بے ایمان نہیں ہوتی۔ یہی دنیا کا دستور ہے۔ امریکہ کے شہر نیویارک میں اتنی چوری ڈاکے کی وارداتیں ہوتی ہیں کہ آپ کراچی کی وارداتیں بھول جائیں۔ پاکستانیوں کو اللہ نے یہ خاص صلاحیت دی ہے کہ وہ دکھ درد میں ساتھ نہیں چھوڑتے۔

ایک دن میں موٹر سائیکل پر صدر سے ملیر کی طرف آرہا تھا۔ ہلکی ہلکی بارش ہورہی تھی۔ بارش ہلکی ہو تو روڈ پر پھسلن ہو جاتی ہے، چنانچہ نرسری اسٹاپ کے پاس میری بائک پھسل گئی اور میں گر گیا۔ لوگ بھاگتے ہوئے مجھے اٹھانے کو لپکے۔ ان میں ایک ایسا لڑکا بھی تھا کہ جسے ہم کراچی کی اصطلاح میں ”میلا“ کہتے ہیں … یعنی میلا کچیلا اور گندا مندا۔ تو وہ گندے مندے کپڑوں والا، پان گٹکا چبانے والا، ابے تبے کہہ کر بات کرنے والا، اپنی میلی کچیلی موٹر سائیکل کو تقریباً ایک طرف پھینک کر والہانہ لپکتا ہوا میری طرف آیا اور مجھے تقریباً اپنی گود میں اٹھا کر بولا : ”بھائی آپ کو زیادہ چوٹ تو آئی؟… بھائی مجھے بتائیں کہاں لگی ہے … میں آپ کیلئے کیا کروں؟… جوس لاؤں، چائے لاؤں، آپ کو اپنے گھر لے جاؤں؟“
اس نے اتنی محبت سے آکر مجھے سنبھالا کہ میں اپنے درد ہی بھول گیا۔ پھر میں حیران بھی ہوا کہ یار اس شخص کی ہیئت دیکھو کہ میں ویسے اس سے بات کرنا بھی پسند نہ کروں، یہ سمجھ کے کہ یہ تو بدمعاش لگتا ہے، لیکن اس کی محبت اور اس کی ہمدردی تو میرے اپنے گھر والوں، اپنے سگے بھائیوں جیسی تھی۔

تو ایسے لوگ ہمارے پاکستانی معاشرے میں ہمارے آگے پیچھے پھیلے ہوئے ہیں، اور ہم ہیں کہ ہر ایک کو دیکھ کر نفرت و نخوت سے ناک سکیڑتے ہیں کہ یہ تو فضول آدمی لگتا ہے۔اس رویے کا مطلب تو یہی ہوا کہ ہم خود ہی فضول ہیں۔ ہمیں اپنے پاکستان کے بارے میں بات کرتے ہوئے بہت محتاط رہنا چاہئے۔ جہاں اپنے اندر موجود برائیوں کو ختم کرنے کی خواہش ہونی چاہئے وہیں اپنی مجموعی اچھائیوں کا بھی ادراک رکھنا ضروری ہے۔ خود کو قومی طور پر ایک خواہ مخواہ کے احساس کمتری میں مبتلا رکھنا عقلمندی نہیں۔

Comments

Avatar photo

عبیداللہ کیہر

عبیداللہ کیہر اردو کے معروف ادیب، سیاح، سفرنامہ نگار، کالم نگار، فوٹو گرافر، اور ڈاکومینٹری فلم میکر ہیں۔ 16 کتابوں کے مصنف ہیں۔ 2002ء میں عبید اللہ کیہر کی پہلی کتاب ”دریا دریا وادی وادی“ کمپیوٹر سی ڈی پر ایک انوکھے انداز میں شائع ہوئی جسے اکادمی ادبیات پاکستان اور مقتدرہ قومی زبان نے ”اردو کی پہلی ڈیجیٹل کتاب“ کا نام دیا۔ روایتی انداز میں کاغذ پر ان کی پہلی کتاب ”سفر کہانیاں“ 2012ء میں شائع ہوئی۔

Click here to post a comment