میں جابر بن حیان، ایک ایسا مسافر ہوں جس نے علم و حکمت کے کئی دریا عبور کیے۔ کیمیا میرا شوق، تحقیق میرا جنون اور علم میری میراث رہا۔ میں نے اپنی زندگی کو رازوں کی جستجو میں بسر کیا، وہ راز جو مادے کی ماہیت، عناصر کی ترکیب اور اشیاء کی ماہیت کو سمجھنے کے گرد گھومتے تھے۔ میری تحریر کا مقصد فقط اپنی زندگی کا احوال رقم کرنا نہیں، بلکہ ان دریچوں کو کھولنا ہے جو عقلِ انسانی پر وا ہو سکیں۔
میری پیدائش سن 721ء میں طوس (ایران) میں ہوئی، میرے والد ایک طبیب تھے اور ان کی صحبت نے مجھے سائنسی علوم کی طرف مائل کیا۔ کم سنی ہی میں قرآن، فلسفہ، ریاضی اور طب کے رموز سیکھنا شروع کیے۔ بغداد وہ مقام تھا جہاں میرے علمی سفر کو بامِ عروج ملا۔ خلیفہ ہارون الرشید کے دربار میں مجھے عزت ملی اور وہاں کی علمی فضا نے میری پیاس کو بجھانے میں مدد دی۔
میں نے کیمیا کے میدان میں جو کام کیا، وہ آنے والی کئی صدیوں تک روشنی کا مینار بنا۔ میں نے "استقلالِ مادہ" (Law of Conservation of Mass) اور "کیمیائی تعامل" (Chemical Reaction) جیسے اصول متعارف کرائے۔ میرے تجربات نے جدید کیمسٹری کی بنیاد رکھی اور میری تحریروں سے مغربی سائنس دانوں نے استفادہ کیا۔
میں نے تقریباً پانچ سو سے زائد کتب تحریر کیں، جن میں طب، فلسفہ، کیمیا، فلکیات اور دیگر سائنسی علوم کا احاطہ کیا گیا۔ میری چند مشہور تصانیف درج ذیل ہیں:۔
1. کتاب السر المکنون : ایک شاہکار جو کیمیا کے بنیادی اصولوں کو واضح کرتی ہے۔
2. کتاب الخواص الکبیر : عناصر اور ان کی خصوصیات پر مفصل تحقیق۔
3. کتاب الرحمة : کیمیاوی تعاملات اور ادویات پر گراں قدر کام۔
4. کتاب المیزان : اشیاء کے توازن اور ان کی مقداروں پر تحقیق۔
5. کتاب التسمیات : معدنیات اور دھاتوں کی درجہ بندی پر مبنی۔
میں نے "الکحل" اور "تیزاب" کے استخراج پر کام کیا اور تجربہ گاہوں میں مختلف دھاتوں کی تبدیلی پر تحقیق کی۔ میرا ماننا تھا کہ علم کا دروازہ تجربے سے کھلتا ہے، اسی لیے میں نے مشاہدے اور عملی تجربات کو ہمیشہ فوقیت دی۔
میرے آخری ایام بصرہ کی گلیوں خاموشی میں بسر ہوئے، لیکن میری کتابیں اور نظریات زندہ رہے۔ میری تحقیق سے آگے چل کر زکریا رازی، بو علی سینا، الغزالی اور بعد میں مغربی سائنس دانوں نے استفادہ کیا۔ میرے کام نے جدید کیمسٹری اور فارماکولوجی کی بنیاد رکھی، اور آج بھی میرا نام "والدِ کیمیا" (Father of Chemistry) کے طور پر جانا جاتا ہے۔
یہ سرگزشت اس بات کا ثبوت ہے کہ اگر علم کا چراغ روشن ہو، تو زمانے کی تاریکی بھی اسے بجھا نہیں سکتی۔ میں جابر بن حیان، اپنے تجربات اور نظریات کو نسل در نسل منتقل کرتا رہا، اور میرا علم آج بھی زندہ ہے۔
تبصرہ لکھیے