ہوم << پاکستان: بحرانوں سے نکلنے کا راستہ - ارشد زمان

پاکستان: بحرانوں سے نکلنے کا راستہ - ارشد زمان

پاکستان آج ایک نازک دوراہے پر کھڑا ہے۔ سیاسی افراتفری، معاشی بدحالی اور بگڑتی ہوئی امن و امان کی صورتحال نے ملکی استحکام کو شدید خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔ آئے روز دہشت گردی کے واقعات، عدم تحفظ کا بڑھتا ہوا احساس اور بدانتظامی نے عوام کو خوف اور غیر یقینی میں مبتلا کر دیا ہے۔ ان حالات میں سب سے زیادہ نقصان ملک کی معیشت اور بین الاقوامی ساکھ کو پہنچ رہا ہے، جس کے اثرات مستقبل میں مزید گہرے ہو سکتے ہیں۔

ذمہ دار کون؟
اس صورتحال کے ذمہ دار صرف بیرونی دشمن یا عالمی سازشیں نہیں، بلکہ خود ہمارے ریاستی ادارے، حکومتیں اور پالیسی ساز بھی برابر کے شریک ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کی جغرافیائی حیثیت اسے عالمی طاقتوں کے کھیل کا میدان بناتی رہی ہے، مگر سوال یہ ہے کہ بیرونی مداخلت کے لیے زمین ہم خود کیوں ہموار کرتے ہیں؟ جب اندرونی بدانتظامی، ناانصافی اور بداعتمادی کا ماحول پیدا ہوگا تو دشمن کے لیے سازگار حالات پیدا کرنا مشکل نہیں ہوگا۔ معاشی عدم استحکام، حکومتی بدنظمی اور عدالتی کمزوریاں اس بحران کو مزید پیچیدہ بنا رہی ہیں۔ سرمایہ کاری رک چکی ہے، کاروبار عدم استحکام کا شکار ہیں، اور تعلیم یافتہ نوجوان بہتر مستقبل کی تلاش میں ملک چھوڑنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ ایسے میں ترقی کی امید رکھنا حقیقت پسندی نہیں بلکہ خودفریبی ہوگی۔

مسئلے کا حل کیا ہے؟
پاکستان کو اس بھنور سے نکالنے کے لیے محض بیانات نہیں، عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ ہمیں ایک جامع اور طویل المدتی حکمتِ عملی اپنانا ہوگی، جو درج ذیل نکات پر مشتمل ہو:
1. قانون کی بالادستی
جب تک ملک میں انصاف کا نظام مؤثر نہیں ہوگا اور قانون کی حکمرانی قائم نہیں کی جائے گی، ریاست کمزور رہے گی۔ عدلیہ کو آزاد اور غیر جانبدار بنایا جائے، تاکہ عوام کو یقین ہو کہ ان کے مسائل کا حل عدالتی نظام میں ہے، نہ کہ کسی بندوق یا بغاوت میں۔
2. معاشی استحکام
جب تک عوام کو روزگار، بنیادی ضروریات اور مساوی مواقع فراہم نہیں کیے جائیں گے، بدامنی کے لیے زمین ہموار ہوتی رہے گی۔ کرپشن کا خاتمہ، ٹیکس کے منصفانہ نظام، اور صنعتی و زرعی ترقی کے منصوبے ناگزیر ہیں۔
3. داخلی استحکام اور قومی یکجہتی
بلوچستان ہو یا خیبر پختونخوا، وہاں کے عوام کو ان کے آئینی حقوق دیے بغیر امن قائم نہیں ہو سکتا۔ ریاستی جبر، فوجی آپریشنز اور جابرانہ پالیسیوں کے بجائے سیاسی مذاکرات، مفاہمت اور اعتماد کی بحالی پر زور دینا ہوگا۔

خارجہ پالیسی میں توازن
پاکستان کی خارجہ پالیسی ہمیشہ عالمی دباؤ، امداد کے لالچ یا خوف کے تحت تشکیل دی جاتی رہی ہے، جس کی وجہ سے قومی مفادات اکثر پس پشت ڈال دیے گئے۔ ہمیں ایک آزاد، خودمختار اور متوازن خارجہ پالیسی اپنانا ہوگی، جو وقتی مصلحتوں کے بجائے پاکستان کے طویل المدتی مفادات پر مبنی ہو۔

کیا کرنا ہوگا؟
• دو طرفہ تعلقات میں توازن رکھا جائے، تاکہ پاکستان کسی ایک بلاک کا تابع دار بننے کے بجائے برابری کی سطح پر تعلقات استوار کرے۔
• علاقائی اتحاد اور خودمختاری پر زور دیا جائے، تاکہ کسی بیرونی قوت کو ہماری زمین پراکسی وار کے لیے استعمال کرنے کا موقع نہ ملے۔
• معاشی سفارت کاری کو فروغ دیا جائے، کیونکہ مضبوط معیشت ہی آزاد خارجہ پالیسی کی اصل بنیاد ہوتی ہے۔

آگے بڑھنے کا واحد راستہ
ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ طاقت اور جبر سے امن قائم نہیں ہو سکتا۔ سید منور حسنؒ کے الفاظ آج بھی حقائق پر مبنی ہیں: ”نہ شریعت بندوق کے زور پر نافذ ہو سکتی ہے (نہ حقوق حاصل کیے جا سکتے ہیں) اور نہ امن و امان جیٹ طیاروں کی بمباری سے قائم ہو سکتا ہے۔“ پاکستان کی وحدت اور بقا کا واحد راستہ اسلامی اصولوں پر مبنی حکمرانی ہے۔ احساسِ محرومی کا خاتمہ، وسائل کی منصفانہ تقسیم، آئین کی بالادستی، اور عدل و انصاف کی فراہمی وہ عوامل ہیں جو ملک کو انتشار سے نکال کر ترقی کی راہ پر گامزن کر سکتے ہیں۔ جتنی جلدی ہم اس حقیقت کو تسلیم کر لیں، اتنا ہی بہتر ہوگا۔ اللہ تعالیٰ پاکستان کو امن، ترقی اور استحکام عطا فرمائے۔ آمین!

Comments

Avatar photo

ارشد زمان

ارشد زمان سیاست و سماج پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ انھی موضوعات پر مطالعہ اور تجزیہ ان کا شوق ہے۔ اقامتِ دین کے لیے برپا تحریک اسلامی کا حصہ ہیں اور عملی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ حقیقی تبدیلی کے لیے عملی کاوشیں ان کے مشن کا حصہ ہیں۔

Click here to post a comment