آج کے زمانے میں سر زمین برصغیر پر سلف صالحین کے زمانے سے چلی آنے والی فقہ حنفیہ کا دفاع کرنااسلام کا دفاع کرنا ہے !
اسلام کا ایک عظیم حصہ دین کے عملی مسائل سے تعلق رکھتا ہے۔ چاہے وہ معاملات ہوں یا عبادات، ان مسائل میں ایک بہت بڑا حصہ تو ایسا ہے کہ جو قرآن و حدیث کی صاف صاف آیات و احادیث سے ثابت ہوتا ہے، جسے سمجھنے میں کوئی خاص علمی گہرائی اور کوشش کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ایسے مسائل پر امت میں کوئی اختلاف بھی نہیں ہوتا ،جیسے فرض نمازوں کی تعداد اور اوقات. ایسی موٹی موٹی باتیں ۔ البتہ دین کے بعض مسائل ایسے ہوتے ہیں جنہیں سمجھنے کے لیے گہرے علم کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان مسائل کو جاننے کے پیچھے شریعت کے پیچیدہ اصول و ضوابط ہوتے ہیں، جنھیں گہرا علم رکھنے والے علماء ہی جانتے ہیں۔
برصغیر ایک ایسا علاقہ ہے کہ جہاں احناف وہ مضبوط ترین مدرسہ ہے کہ جو ایک طرف اپنی جڑیں صحابہ و تابعین کے زمانوں میں رکھتا ہے تو دوسری طرف ان کی فقہ نہ صرف یہ کہ نہایت باریکی سے مرتب و منظم کی گئی ہے، بلکہ یہ عملی طور پر صدیوں عالم اسلام پر حکمرانی بھی کرتی رہی ہے. برصغیر کے علاوہ دیگر مسلم ممالک میں دیگر سکول آف تھاٹس جیسے حنابلہ، شوافع وغیرہ اپنی پوری علمی وجاہت کے ساتھ پائے جاتے ہیں، البتہ پاک و ہند میں یہ وجاہت و ہیبت خاص طور پر احناف کو حاصل رہی ہے اور اب بھی انھی کو حاصل ہے ۔
میں بذات خود اہل حدیث مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے اور باقاعدہ درسِ نظامی کا فاضل ہوتے ہوئے بھی یہ بات اس لیے کر رہا ہوں کہ اب ہم جس دور سے گزر رہے ہیں، اس میں احناف وہ واحد منظم ، گہرا اور مرتب فقہ اور قانون اور اصول رکھتے ہیں کہ جس کا قائم رہنا لوگوں کو ہدایت پر مطمئن اور قائم رکھنے کے لیے بہت ضروری ہے۔ باوجود اہل حدیث کے سکول آف تھاٹ کی اعلی صفات، اور مضبوط دلائل کے، میں فقہ حنفی کے دفاع کو اہم سمجھتا ہوں، کیونکہ ایک تو اہل حدیث اپنے پرانے ماڈل علوم آلہ خاص کر کے اصول فقہ کی مہارت اور علماء کی علمی ہیبت و وجاہت کو قائم میں کافی زیادہ ناکام ہو چکے ہیں۔ جو ایک نہایت فکر مندی کی بات ہے ۔
نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ حدیث کی اتباع کے نام پر مارکیٹ میں فقہی ورثے اور علم کی گہرائی سے محروم طبقے چھاتے چلے جا رہے ہیں۔ جو آگے چل کر بہت سی گمراہیوں کو پیدا کرنے کا سبب بن رہا ہے، محض ترجمہ پڑھ کر فتویٰ دینے والے پھیلتے جا رہے ہیں۔ اس لحاظ سے فقہ حنفی ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ البتہ علمائے احناف کو خود کو اپ ڈیٹ کرنے کی شدید ضرورت ہے۔ اجتہاد کے ٹول کو بروئے کار لاتے ہوئے کچھ پرانے مواقف کو Review کرنے کی ضرورت ہے ، جیسے عورتوں کو مساجد میں آنے سے روکنا وغیرہ ۔
دوسری جانب ہمارے اہل حدیث مدرسے کو گہرے علم سے جڑنے کی ضرورت ہے۔ محض حدیث کے الفاظ پڑھنے پڑھانے سے آگے بڑھ کر حدیث کے فہم میں استعمال ہونے والے اصول فقہ اور تاریخی فقہی ورثے سے مضبوطی سے جڑنے کی ضرورت ہے، تاکہ اہل حدیث کی علمی وجاہت قائم ہو ، اور اسے غامدی جیسے لوگ اپنی نرسری کے طور پر استعمال نہ کر سکیں ۔
تبصرہ لکھیے