ہوم << عقل پرستی کا سراب: حقیقت کی جستجو یا خودفریبی؟ عاطف ہاشمی

عقل پرستی کا سراب: حقیقت کی جستجو یا خودفریبی؟ عاطف ہاشمی

انسانی تاریخ میں عقل ہمیشہ سے حقیقت تک پہنچنے کا ایک اہم ذریعہ رہی ہے، لیکن جب یہی عقل محدود مادی وسائل اور ظاہری چمک دمک کے دھوکے میں گرفتار ہو جائے تو وہ حقیقت کی روشنی سے محروم ہو جاتی ہے۔ قرآن حکیم کی چار سورتیں—الشوری، الزخرف، الدخان، اور الجاثیہ—اس حقیقت کو نہایت مؤثر انداز میں بیان کرتی ہیں کہ جب انسان عقل کو وحی کی رہنمائی کے بغیر استعمال کرتا ہے تو وہ در اصل سراب کا پیچھا کرتا رہتا ہے اور حقیقت سے محروم ہو جاتا ہے۔

1. اختلاف اور عقل پرستی کا فریب (سورہ الشوریٰ)
اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو مختلف عقل، فہم اور سوچنے کی صلاحیت عطا کی ہے، اسی لیے دنیا میں آراء کا اختلاف پایا جانا ایک فطری امر ہے۔ مگر اختلاف اس وقت فساد کا سبب بنتا ہے جب اسے حل کرنے کے لیے اللہ کے حکم کو نظر انداز کر دیا جائے۔ عقل پرستی کا ایک بڑا فریب یہی ہے کہ وہ اختلاف کو صرف انسانی سوچ کی برتری کے امتحان کے طور پر دیکھتی ہے، حالانکہ قرآن مجید وضاحت کرتا ہے کہ اختلاف کا حل وحی کی روشنی میں تلاش کرنا چاہیے۔ سورہ الشوریٰ کی آیت نمبر 10 میں ارشاد باری ہے: وَمَا ٱخْتَلَفْتُمْ فِيهِ مِن شَىْءٍۢ فَحُكْمُهُۥٓ إِلَى ٱللَّهِ ۚ" (الشوریٰ: 10) "اور جس چیز میں تم اختلاف کرتے ہو، اس کا فیصلہ اللہ کے ہاتھ میں ہے۔" یہ آیت واضح کرتی ہے کہ مشورہ کرنا اسلامی معاشرتی زندگی کا ایک اہم اصول ہے، جو عدل، توازن اور بھائی چارے کو فروغ دیتا ہے۔ نبی کریم ﷺ بھی اہم فیصلے کرنے سے پہلے صحابہ کرامؓ سے مشورہ کرتے تھے، حالانکہ آپﷺ کو وحی کے ذریعے براہِ راست ہدایت حاصل تھی۔ اس سے امت کو یہ سبق ملتا ہے کہ اختلافی معاملات میں یکطرفہ فیصلہ کرنے کے بجائے مشورہ اور باہمی رضا مندی سے حل نکالنا بہترین طریقہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے آیت نمبر 38 میں اہلِ ایمان کی ایک نمایاں صفت یہ بتائی کہ وہ باہمی مشورہ کرتے ہیں: وَالَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِرَبِّهِمْ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَمْرُهُمْ شُورَىٰ بَيْنَهُمْ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ (الشورى: 38) "اور وہ لوگ جو اپنے رب کی پکار پر لبیک کہتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، اور ان کے معاملات باہمی مشورے سے طے ہوتے ہیں، اور وہ ہمارے دیے ہوئے میں سے خرچ کرتے ہیں۔"

2. ظاہری چمک دمک اور حقیقت کی نفی (سورہ الزخرف)
"زخرف" عربی میں سونے کی ملمع کاری کو کہتے ہیں، جو ظاہری طور پر خوبصورت دکھائی دیتی ہے، لیکن حقیقت میں اس کی کوئی اصل نہیں ہوتی۔ سورہ الزخرف میں ان لوگوں کا ذکر ہے جو حقیقت کو دیکھنے کے بجائے دنیاوی شان و شوکت کو اصل کامیابی سمجھتے ہیں۔ اسی سورت میں حضرت ابراہیمؑ کی قوم کی گمراہی کا ذکر کیا گیا ہے، جنہوں نے سورج، چاند اور ستاروں کی چمک سے متاثر ہو کر انہیں معبود بنا لیا تھا، مگر حضرت ابراہیمؑ نے ان سے براءت کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا: إِنِّي بَرَاءٌ مِّمَّا تَعْبُدُونَ (الزخرف: 26) "بے شک میں ان (معبودوں) سے بیزار ہوں جنہیں تم پوجتے ہو۔"

اسی طرح آیت نمبر 51 میں ہے کہ فرعون نے اپنی بادشاہت اور مال و دولت کو حضرت موسیٰؑ کے مقابلے میں اپنی برتری کی دلیل بنایا اور اپنی قوم کو فریب دیا: وَنَادَىٰ فِرْعَوْنُ فِي قَوْمِهِ قَالَ يَا قَوْمِ أَلَيْسَ لِي مُلْكُ مِصْرَ وَهَٰذِهِ الْأَنْهَارُ تَجْرِي مِن تَحْتِي أَفَلَا تُبْصِرُونَ (الزخرف: 51) "اور فرعون نے اپنی قوم میں اعلان کیا: اے میری قوم! کیا مصر کی بادشاہت میری نہیں، اور یہ نہریں میرے محلوں کے نیچے نہیں بہہ رہیں؟ کیا تم دیکھتے نہیں؟" مگر وہی نہریں جن پر فرعون کو فخر تھا، اسی کے لیے ہلاکت کا سبب بن گئیں، اور وہ پانی میں غرق کر دیا گیا۔ یہی دنیا کا حال ہے، جو اس کی چمک دمک پر فریفتہ ہو جاتا ہے، وہ بالآخر دھوکہ کھا جاتا ہے۔ یہی سوچ آج بھی موجود ہے۔ آج کے عقل پرست فرعون کی ہزارہا سال پرانی ذہنیت (مگر پھر بھی اس ذہنیت کے حامل خود کو جدید عقل پرست کہلوائیں گے) کے عین مطابق مادی ترقی، سائنسی ایجادات، اور ظاہری کامیابی کو ہی سب کچھ سمجھتے ہیں، مگر وہ یہ نہیں دیکھتے کہ اگر یہ حقیقی کامیابی کا معیار ہوتا تو فرعون اور اس جیسے لوگ ہلاک نہ ہوتے۔ قرآن اس فریب سے بچنے کے لیے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی مثال دیتا ہے، جو دنیاوی اسباب سے محروم ہونے کے باوجود اللہ کے برگزیدہ بندے تھے: إِنْ هُوَ إِلَّا عَبْدٌ أَنْعَمْنَا عَلَيْهِ وَجَعَلْنَاهُ مَثَلًا لِبَنِي إِسْرَائِيلَ" (الزخرف: 59) "وہ تو محض ایک بندہ تھا جس پر ہم نے انعام کیا اور اسے بنی اسرائیل کے لیے مثال بنایا۔"

3. انجامِ غفلت: جب دھوکہ حقیقت بن جائے (سورہ الدخان)
سورہ دخان کا نام "دخان" (دھواں) اس میں مذکور ایک عظیم عذاب کی علامت سے لیا گیا ہے۔ یہ سورت مکی ہے اور اس کا بنیادی موضوع قیامت، سابقہ قوموں پر آنے والے عذاب، اور دنیاوی زندگی کے دھوکے سے متعلق ہے۔ سورہ دخان میں اللہ تعالیٰ نے ایک مخصوص عذاب کا ذکر کیا ہے جو کفارِ مکہ پر آیا تھا یا قیامت کے قریب آئے گا۔ اللہ فرماتے ہیں: [arabic]بل هم في شك يلعبون، فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُّبِينٍ، يَغْشَى النَّاسَ هَٰذَا عَذَابٌ أَلِيمٌ (الدخان: 10-11) "لیکن یہ لوگ تو شک میں پڑے کھلواڑ کر رہے ہیں، پس انتظار کرو اس دن کا جب فضا میں دھواں ہی دھواں ہو گا، جو لوگوں پر چھا جائے گا۔ یہ ایک دردناک سزا ہو گی۔" یہاں "دخان" (دھواں) کا ذکر کفار کے لیے ایک تنبیہ کے طور پر آیا ہے۔ مفسرین کے مطابق یہ دھواں قیامت سے پہلے ظاہر ہونے والی بڑی نشانیوں میں سے ایک ہوگا، جو پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔ آیت نمبر 16 میں اللہ تعالیٰ نے قومِ فرعون کا انجام بیان کیا، جو دنیاوی شان و شوکت پر مغرور تھی، مگر اللہ کے عذاب نے اسے گھیر لیا: يوم نبطش البطشة الكبرى، إِنَّا مُنتَقِمُونَ (الدخان: 16) "یاد رکھو اس دن کو جس دن ہم سخت پکڑ کریں گے، اس دن ہم پوری سزا دیں گے۔"

یہاں پر اللہ تعالیٰ قومِ فرعون کی ہلاکت کا ذکر کرتے ہیں تاکہ کفارِ مکہ نصیحت حاصل کریں کہ اللہ کے نبی کا انکار کرنے والوں کا انجام ہمیشہ تباہی ہوتا ہے۔ فرعون اور اس کی قوم کے انجام کو بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ انہوں نے کتنے باغات، نہریں، اور شاندار محلات چھوڑ دیے: كَمْ تَرَكُوا مِن جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ، وَزُرُوعٍ وَمَقَامٍ كَرِيمٍ، وَنَعْمَةٍ كَانُوا فِيهَا فَاكِهِينَ (الدخان: 25-27) "وہ کتنے ہی باغات، چشمے، کھیتیاں، عمدہ محلات، اور نعمتیں چھوڑ گئے جن میں وہ عیش کرتے تھے!" یہ دنیاوی زندگی کی کر وفر کے عارضی ہونے کی ایک بہترین مثال ہے۔ سورہ دخان کے آخری حصے میں اللہ تعالیٰ نے قیامت کے دن نیک اور بد لوگوں کے انجام کا ذکر کیا ہے۔ متقی لوگوں کو جنت میں عظیم نعمتیں دی جائیں گی: إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي مَقَامٍ أَمِينٍ، فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ، يَلْبَسُونَ مِن سُندُسٍ وَإِسْتَبْرَقٍ مُّتَقَابِلِينَ(الدخان: 51-53) "بے شک پرہیزگار لوگ امن والی جگہ ہوں گے، باغات اور چشموں میں، باریک اور دبیز ریشم کے لباس پہنیں گے اور آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے۔" جبکہ مجرمین کے لیے جہنم کا عذاب تیار ہوگا: إِنَّ شَجَرَتَ الزَّقُّومِ، طَعَامُ الْأَثِيمِ، كَالْمُهْلِ يَغْلِي فِي الْبُطُونِ(الدخان: 43-45) "بے شک زقوم کا درخت گناہگاروں کا کھانا ہوگا، پگھلے ہوئے تانبے کی طرح پیٹ میں جوش مارے گا۔" یوں، سورت "دخان" یعنی دھویں کے عذاب سے شروع ہوتی ہے اور قیامت، عذاب، اور آخرت کی نعمتوں کے ذکر پر ختم ہوتی ہے، جو اس کے بنیادی پیغام کو مکمل کرتا ہے۔

4. تکبر اور عقل پرستی کا انجام (سورہ الجاثیہ)
عقل پرستی کا سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ یہ انسان کو تکبر میں مبتلا کر دیتی ہے۔ سورہ الجاثیہ میں ایسے لوگوں کا ذکر ہے جو اللہ کی آیات دیکھ کر بھی حق کو تسلیم نہیں کرتے: وَيْلٌۭ لِّكُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍۢ يَسْمَعُ ءَايَٰتِ ٱللَّهِ تُتْلَىٰ عَلَيْهِ ثُمَّ يُصِرُّ مُسْتَكْبِرًۭا كَأَن لَّمْ يَسْمَعْهَا ۖ فَبَشِّرْهُ بِعَذَابٍ أَلِيمٍۢ (الجاثیہ: 7-8) "ہلاکت ہے ہر جھوٹے گناہ گار کے لیے جو اللہ کی آیات سنتا ہے، پھر تکبر میں آ کر اس طرح اڑا رہتا ہے گویا اس نے سنا ہی نہیں۔ تو اسے دردناک عذاب کی خبر دے دو۔" یہی رویہ آج کے عقل پرستوں میں نظر آتا ہے، جو ہر سائنسی اور فلسفیانہ دلیل کو قبول کر لیتے ہیں لیکن وحی کی کسی بات کو نہیں مانتے۔جو اپنی خواہشات کو خدا کے برابر سمجھتے ہیں اور حق کو جھٹلاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَٰهَهُ هَوَاهُ (الجاثیہ: 23) "کیا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی خواہش کو ہی اپنا معبود بنا لیا؟" نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ حق سے محروم ہو جاتے ہیں اور قیامت کے دن ذلت کے ساتھ گھٹنوں کے بل گرے ہوں گے، جیسا کہ اس سورت کے نام "الجاثیہ" کا مفہوم بھی یہی ہے: وَتَرَىٰ كُلَّ أُمَّةٍ جَاثِيَةً (الجاثیہ: 28) "اور تم دیکھو گے کہ ہر امت گھٹنوں کے بل گری ہوئی ہوگی۔"

آیت نمبر 53 میں مزید بیان ہوتا ہے کہ اللہ نے آفاق اور انفس میں اپنی نشانیاں واضح کر دی ہیں، مگر جو لوگ حق کو قبول نہیں کرنا چاہتے، وہ محض اندھی تقلید اور ضد میں مبتلا ہو کر ان نشانیوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں: سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي ٱلْآفَاقِ وَفِيٓ أَنفُسِهِمْ حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ ٱلْحَقُّ ۗ أَوَلَمْ يَكْفِ بِرَبِّكَ أَنَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍۢ شَهِيدٌ (الجاثیہ: 53) "ہم انہیں اپنی نشانیاں آفاق میں بھی دکھائیں گے اور خود ان کی ذات میں بھی، یہاں تک کہ ان پر واضح ہو جائے گا کہ یہ حق ہے۔ کیا یہ کافی نہیں کہ تیرا رب ہر چیز پر گواہ ہے؟" یہاں ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ عقل پرستی، اگر وحی کے تابع نہ ہو، تو یہ در حقیقت انسان کو دھوکے میں ڈال دیتی ہے۔ عقل انسان کو سچائی تک پہنچنے میں مدد دے سکتی ہے، مگر اگر یہ خود مختار ہو کر چلنے لگے اور وحی سے رہنمائی لینا چھوڑ دے، تو یہی عقل انسان کو تکبر، ضد، اور ہٹ دھرمی کی کھائی میں دھکیل دیتی ہے۔ 25 ویں پارے کی یہ چاروں سورتیں عقل پرستی کے دھوکے کو مختلف زاویوں سے واضح کرتی ہیں۔

سورہ الشوریٰ بتاتی ہے کہ اختلافات کو وحی کی روشنی میں حل نہ کیا جائے تو عقل مزید الجھاؤ پیدا کر دیتی ہے۔
سورہ الزخرف واضح کرتی ہے کہ جو لوگ ظاہری چمک دمک کو کامیابی سمجھتے ہیں، وہ اصل حقیقت سے محروم ہو جاتے ہیں۔
سورہ الدخان خبردار کرتی ہے کہ جو لوگ دنیاوی دھوکے میں مبتلا رہتے ہیں، ان کے لیے قیامت کا دن ایک المناک انجام لے کر آئے گا۔
سورہ الجاثیہ عقل پرستی کی سب سے بڑی خرابی یعنی تکبر کی طرف متوجہ کرتی ہے اور بتاتی ہے کہ ایسے لوگ اللہ کی نشانیوں کو دیکھ کر بھی انکار کر دیتے ہیں۔

آج کی دنیا میں بھی یہی منظر نظر آتا ہے۔ سائنسی ترقی، فلسفیانہ موشگافیاں، اور مادی کامیابی نے انسان کو اپنے خالق سے غافل کر دیا ہے۔ لیکن قرآن کہتا ہے کہ جو لوگ صرف اپنی عقل پر بھروسہ کرتے ہیں اور وحی کی روشنی کو نظر انداز کرتے ہیں، وہ درحقیقت ایک سراب کے پیچھے دوڑ رہے ہیں۔ اصل حقیقت وہی ہے جو اللہ نے اپنے انبیاء کے ذریعے انسانوں تک پہنچائی، اور وہی انسان کے لیے نجات کا واحد راستہ ہے۔

Comments

Avatar photo

عاطف ہاشمی

عاطف ہاشمی قطر میں مقیم محقق اور مترجم ہیں، سپریم جوڈیشل کونسل قطر میں ترجمانی کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں. اسلامی و سماجی علوم، عربی ادب اور ترجمہ دلچسپی کے موضوعات ہیں۔ کتاب "تیس نشستیں: قرآن کریم کے ساتھ" قرآن کے موضوعات میں باہمی ربط کے حوالے سے ایک اہم تصنیف ہے، جو پاکستان کے ساتھ ساتھ ہندوستان میں بھی شائع ہو چکی ہے۔

Click here to post a comment