زندگی کی اصل کامیابی محض مادی ترقی، سماجی حیثیت یا دنیاوی خوشحالی میں مضمر نہیں، بلکہ اس کا حقیقی جوہر تین بنیادی اصولوں میں پوشیدہ ہے: انسانیت کی خیرخواہی (حقوق العباد)، اللہ کی بندگی (حقوق اللہ)، اور اپنی ذات کی اصلاح (خود احتسابی)۔ جو شخص ان تین نکات کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لے، وہ حقیقی معنوں میں ایک متوازن، بامقصد اور بامعنی زندگی گزار سکتا ہے۔
قرآن مجید کی یہ تین عظیم الشان سورتیں (سورہ یٰس، سورہ الصافات اور سورہ ص) ہمیں اسی حقیقت کی طرف متوجہ کرتی ہیں۔
سورہ یٰس ہمیں انسانیت کی خیرخواہی کا درس دیتی ہے، تاکہ ہم معاشرے کے لیے کارآمد بنیں اور اپنے گرد و نواح میں بھلائی اور اصلاح کا ذریعہ بنیں۔ (حقوق العباد )
سورہ الصافات ہمیں رب کی بندگی سکھاتی ہے، تاکہ ہماری زندگی کا مقصد اللہ کی رضا اور اس کی اطاعت بن جائے۔(حقوق اللہ)
سورہ ص ہمیں نفس کی تطہیر اور تکبر سے بچنے کی تلقین کرتی ہے، تاکہ ہم اپنے کردار اور اخلاق کو بہتر بنا سکیں۔(خود احتسابی)
یہ تینوں سورتیں مل کر ایک ایسے مکمل اور متوازن طرزِ حیات کا خاکہ پیش کرتی ہیں جو ایک کامیاب، مطمئن اور بامقصد زندگی کا راز ہے۔
انسانیت کی خیرخواہی (سورہ یٰس کی روشنی میں)
سورہ یٰس ہمیں یہ درس دیتی ہے کہ ایک سچا مومن صرف اپنی ہدایت کا طلبگار نہیں ہوتا، بلکہ وہ دوسروں کے لیے بھی بھلائی اور خیرخواہی کی تڑپ رکھتا ہے۔سورہ یٰس کی ابتدا میں اللہ تعالیٰ قرآن کی حکمت اور مقصد کو واضح کرتا ہے کہ یہ کتاب ان لوگوں کے لیے نازل ہوئی ہے جو غفلت میں پڑے ہوئے ہیں اور متوجہ کرنے پر رجوع کر لیتے ہیں: إِنَّمَا تُنذِرُ مَنِ اتَّبَعَ الذِّكْرَ (تم صرف انہی کو خبردار کر سکتے ہو جو ذکر (قرآن) کی پیروی کریں)
اس سورت میں ایک شخص کا ذکر کیا گیا ہے جو اپنی پوری قوم کی ہدایت کے لیے بے چین تھا اور انہیں حق کی دعوت دے رہا تھا۔ وہ اپنی قوم کو رسولوں کی پیروی اختیار کرنے کی نصیحت کرتا ہے: يَا قَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِينَ(یٰس: 20) "اے میری قوم! رسولوں کی پیروی کرو۔"
یہ رویہ ہمیں سکھاتا ہے کہ اگر ہم خیرخواہی کو اپنا مقصد بنائیں تو نہ صرف ہم دوسروں کے لیے نفع بخش بنیں گے، بلکہ یہ عمل ہماری اپنی روحانی ترقی اور آخرت کی کامیابی کا بھی ذریعہ ہوگا۔
یہ خیرخواہ شخص اپنی قوم کے لیے اس قدر مخلص تھا کہ مرنے کے بعد بھی اس کی سب سے بڑی خواہش یہی تھی کہ کاش! اس کی قوم کو معلوم ہو جائے کہ اللہ نے اسے بخش دیا ہے: يَا لَيْتَ قَوْمِي يَعْلَمُونَ (یٰس: 26) "کاش! میری قوم کو معلوم ہو جائے کہ اللہ نے مجھے بخش دیا۔"
یہ واقعہ ہمیں سکھاتا ہے کہ حقیقی خیرخواہی مفادات سے بالاتر ہوتی ہے، جس میں محبت، ایثار اور قربانی کا جذبہ شامل ہوتا ہے۔ آج کے دور میں، جہاں معاشرتی بگاڑ، نفرت اور ناانصافی عام ہو چکی ہے، ہمیں قرآن کے اس پیغام کو اپنی زندگی کا حصہ بنانا ہوگا تاکہ ہم ایک پرامن، ہمدرد اور باہمی محبت پر مبنی معاشرہ تشکیل دے سکیں۔
کائناتی مثالیں: مسلسل نفع پہنچانے کا اصول
سورہ یٰس میں اللہ تعالیٰ کائنات کے منظم اور متوازن نظام کا ذکر فرماتے ہیں: سورج اور چاند ایک مخصوص مدار میں گردش کر رہے ہیں۔ زمین سے اگنے والی پیداوار مسلسل نفع پہنچا رہی ہے۔ کائنات کی ہر مخلوق اپنے وجود سے دوسروں کو فائدہ پہنچا رہی ہے۔ یہ کائناتی مثالیں بھی یہی درس دیتی ہیں کہ زندگی کا سورج غروب ہونے تک دوسروں کو نفع پہنچانے کا عمل جاری رکھنا چاہیے۔ بھلا جس شخص کی زندگی اس خیرخواہی کے جذبے سے معمور گزرے کہ دوسروں کو تکلیف نہ ہہنچے کیا اسے موت کے وقت کوئی تکلیف پہنچ سکتی ہے؟ اپنی زندگی اور دوسروں کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کرنے والے ہی آسان موت کے سزاوار ہیں۔ علامہ اقبال ارمغان حجاز میں فرما گئے:
بہ بندِ صوفی و ملا اسیری حیات از حکمتِ قراں نگیری
بہ آیاتش ترا کارے جز ایں نیست کہ از یٰسین، او آساں بمیری
تو صوفی و ملا کی زنجیروں میں ایسا قید ہوا کہ تو نے قرآن کریم سے ہدایت لینا چھوڑ دی۔ قرآن کریم ک آیتوں سے تجھے بس اتنا ہی سروکار رہ گیا ہے کہ قریب المرگ شخص کے قریب بیٹھ کر سورہ یس کی تلاوت شروع کر دی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سورہ یس کی تلاوت سے روح آسانی سے نکل جائے گی۔ مگر افسوس اس بات کا ہے کہ جو قرآن اس لیے نازل ہوا تھا کہ اس کے ذریعے تم اپنی اور دوسروں کی زندگی آسان کرسکو اسے تم نے محض موت آسان کرنے کے لیے محدود کر دیا ہے۔
رب کی بندگی (سورہ الصافات کی روشنی میں)
انسان کا اصل مقصد اللہ کی عبادت اور بندگی ہے، اور سورہ الصافات اس حقیقت کو نہایت خوبصورتی سے بیان کرتی ہے۔ اس سورت کی ابتدا فرشتوں کے ذکر سے ہوتی ہے جو صف باندھ کر اللہ کی تسبیح کرتے ہیں اور اس کے حکم کی تعمیل میں لگے رہتے ہیں: وَالصَّافَّاتِ صَفًّا" (قسم ہے ان فرشتوں کی جو صف باندھ کر کھڑے رہتے ہیں) یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ بندگی کا صحیح تقاضا یہ ہے کہ انسان اپنے وقت، اپنی صلاحیتوں اور اپنی زندگی کو اللہ کی رضا کے مطابق گزارے۔ اگلی آیات میں کئی انبیاء کا ذکر ہے جنہوں نے سختیوں میں بھی اللہ کی طرف رجوع کیا، جیسا کہ حضرت نوح، انہوں نے اللہ کو پکارا، اور اللہ نے ان کی پکار سنی: [arabic]وَلَقَدْ نَادَانَا نُوحٌ فَلَنِعْمَ الْمُجِيبُونَ (ہم نے نوح کی پکار کو سنا، اور ہم بہترین جواب دینے والے ہیں). حضرت یونس جب وہ مچھلی کے پیٹ میں تھے، تو اللہ کی تسبیح بیان کی: لَوْلَا أَنَّهُ كَانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ، لَلَبِثَ فِي بَطْنِهِ إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ (اگر وہ اللہ کی تسبیح بیان نہ کرتے تو قیامت تک مچھلی کے پیٹ میں رہتے). اسی طرح حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیلؑ کی قربانی کا ذکر ہے، جو مکمل فرمانبرداری اور اللہ پر یقین کی علامت ہے: فَلَمَّا أَسْلَمَا وَتَلَّهُ لِلْجَبِينِ (جب دونوں نے اللہ کے حکم کو قبول کر لیا اور بیٹے کو پیشانی کے بل لٹا دیا) یہ واقعہ اس حقیقت کو واضح کرتا ہے کہ اللہ کی بندگی قربانی اور اطاعت کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی۔ جب اللہ نے حضرت ابراہیمؑ کو اپنے بیٹے کی قربانی کا حکم دیا تو وہ بلا چون و چرا اس پر عمل کرنے کے لیے تیار ہو گئے۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: إِنَّ هَذَا لَهُوَ الْبَلَاءُ الْمُبِينُ(الصافات: 106) "بے شک! یہ تو ایک کھلی آزمائش تھی۔"
یہ واقعہ ہمیں سکھاتا ہے کہ حقیقی بندگی وہ ہے جو انسان کے جذبات، خواہشات، اور دنیاوی ترجیحات پر غالب آ جائے۔ آج کی زندگی میں، جب لوگ اپنی خواہشات اور دنیاوی فوائد کو اولین ترجیح دیتے ہیں، ہمیں اس قرآنی تعلیم کو سمجھنے اور اپنانے کی ضرورت ہے تاکہ ہماری عبادت صرف رسم نہ رہے بلکہ ایک زندہ حقیقت بن جائے۔ سورت کے آخر میں تمام انبیاء پر سلامتی بھیجی گئی ہے اور اللہ کی حمد و ثنا بیان کی گئی ہے : "سبحان ربك رب العزة عما يصفون، وسَلَامٌ عَلَى الْمُرْسَلِينَ،والحمد لله رب العلمين"
نفس کا محاسبہ (سورہ ص کی روشنی میں)
انسانی زندگی میں کامیابی کے لیے سب سے اہم عنصر اپنی ذات کی اصلاح اور تکبر و بڑائی سے بچنا ہے، اور سورہ ص ہمیں اسی حقیقت سے آگاہ کرتی ہے۔ اس سورت میں حضرت داؤدؑ کا ایک واقعہ بیان ہوا ہے کہ جب ان سے ایک فتویٰ میں اجتہادی غلطی ہوئی، لیکن جب انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا تو فوراً اللہ کی طرف رجوع کیا: فَاسْتَغْفَرَ رَبَّهُ وَخَرَّ رَاكِعًا وَأَنَابَ(ص: 24) "پس انہوں نے اپنے رب سے استغفار کیا، عاجزی سے جھک گئے اور رجوع کیا۔" یہ رویہ ایک سچے مومن کی علامت ہے کہ اگر وہ غلطی کرے تو اس کا اعتراف کرے اور فوراً اللہ کے حضور جھک جائے۔ حضرت سلیمانؑ کو اللہ نے عظیم سلطنت عطا کی، مگر وہ ہمیشہ اللہ کی طرف رجوع کرنے والے تھے۔ ان کا ذکر نِعْمَ الْعَبْدُ إِنَّهُ أَوَّابٌ (وہ بہترین بندے تھے، ہمیشہ رجوع کرنے والے) کے الفاظ میں کیا گیا ہے۔ اسی طرح حضرت ایوبؑ کی آزمائش اور پھر ان کی دعا قبول ہونے کا ذکر ہے، جس سے پتہ چلتا ہے کہ صبر کے ساتھ اللہ سے دعا کرنے والا کبھی مایوس نہیں ہوتا۔ دوسری طرف، اسی سورت میں ابلیس کے تکبر کا ذکر کیا گیا ہے، جس نے حضرت آدمؑ کے سامنے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا اور اپنی ضد پر اڑا رہا جس کی وجہ سے ہمیشہ کے لیے مردود ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: إِلَّا إِبْلِيسَ اسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الْكَافِرِينَ (ص: 74) "سوائے ابلیس کے، جو تکبر کر بیٹھا اور کافروں میں سے ہو گیا۔" یہاں سبق یہ ہے کہ ضد اور ہٹ دھرمی انسان کو برباد کر دیتی ہے، جبکہ عاجزی اور رجوع کرنے والا کامیاب ہو جاتا ہے۔
الغرض یہ تینوں سورتیں ہمیں زندگی گزارنے کا ایک جامع تین نکاتی منشور فراہم کرتی ہیں: حقوق العباد، حقوق اللہ اور اپنا محاسبہ، اگر ہم اس منشور کو اپنی زندگی میں شامل کر لیں تو نہ صرف ہم ایک متوازن، بامقصد اور کامیاب زندگی گزار سکیں گے، بلکہ آخرت میں بھی کامیابی ہمارا مقدر ہوگی۔ یہی وہ راستہ ہے جو قرآن ہمیں دکھاتا ہے اور یہی وہ حقیقت ہے جو ہمیں دنیا و آخرت کی فلاح کی طرف لے جا سکتی ہے۔
تبصرہ لکھیے