ہوم << پاکستان میں بدامنی کے اسباب - منظوم علی قریشی

پاکستان میں بدامنی کے اسباب - منظوم علی قریشی

وطن عزیز اس وقت تاریخ کے بد ترین انتشار کی لپیٹ میں ہے۔آئے روز کہیں نہ کہیں کوئی نا خوشگوار واقع ضرور پیش آتا ہے۔رمضان المبارک کے اس با برکت مہینے میں بھی دہشت گردی کا خونی کھیل بڑی شدت سے جاری ہے۔پختونخواہ اور بلوچستان میں امن و امان کی صورت حال غیر یقینی حد تک ابتر نظر آرہی ہے۔لوگ خوف و ہراس کے سائے تلے زندگی گزارنے پہ مجبور ہیں۔ ریاست عوام الناس کی جان، مال، عزت و آبرو کو تحفظ فراہم کرنے میں مکمل ناکام نظر آرہی ہے۔

یہ خطہ اپنی Geo Strategi Location کی وجہ سے ہمیشہ بین الاقوامی Stake Holders کی توجہ کا مرکز رہا ہے۔Regional Powers(بھارت ایران اور افغانستان) بھی اپنے مفادات کے تحفظ کیلے اس خطے کو غیر مستحکم دیکھنا چاہتے ہیں۔ہر Actor خواہ وہ بین الاقوامی ہو یا Regional سب اس خطے میں اپنے Circle Of Influence کو وسعت دینا چاہتا ہے۔جس کی وجہ سے اس خطے میں چپقلش، خلفشار، بد امنی، جلاو گھیراو، مرو اور مارو کا بازار خوب گرم ہے۔ درجہ بالا محرکات کا ایک اور بنیادی محرک کے ساتھ گہرا اور مظبوط ربط ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ جدید دنیا میں جہاں کہیں بھی جب کوئی ریاست اپنی جغرافیائی حدود میں پنپنے والے اندرونی خدشات، معاملات، تنازعات اور مسائل چاہئے وہ سیاسی ہوں یا معاشی ہوں معاشرتی ہوں یا مذہبی ہوں سماجی ہوں یا ثقافتی ہوں بر وقت بطریقِ احسن دور کرنے میں ناکام ہوجائے تو وہاں انتشار،عدم برداشت، ریاست کے خلاف عوامی نفرت، عدم تشدد اور تشدد کے فلسفے پر مبنی علحیدگی پسند گروہوں تنظیموں اور گروپوں کا وجود میں آنا فطری عمل ہوتا ہے۔اسی صورت حال سے بیرونی قوتیں فائدہ حاصل کرکے اپنے مقاصد حاصل کرنے اور خطے میں اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے کود پڑتی ہیں اور صورت حال مزید پیچیدہ ہوجاتی ہے۔پشتون بلٹ بشمول بلوچ علاقے کی موجودہ حالت اسی منظر کی عکاسی کرتی ہے۔

کسی بھی خطے میں insurgency ہوتی ہے تو ضروری ہوتا ہے کہ سب سے پہلے اس خطے میں مسائل کی نشاندہی کی جائے۔۔مسائل کی نشاندہی اور ان کے حل کے بغیر insurgency کا سد ِ باب ممکن نہیں۔چھوٹے بڑے تمام مسائل کی ایک ہی کالم میں نشاندہی کرنا ممکن نہیں تا ہم کچھ بڑے اور حل طلب مسائل کی نشاندہی پیش ِ خدمت ہے۔

1- معاشی بدحالی اور بے روزگاری۔
جس خطے میں معاشی بدحالی عام آدمی کی کمر توڑے تو وہاں اپنی ضروریات زندگی پوری کرنے نوجوان طبقہ جرائم کی طرف مائل ہوتا ہے۔ریاست جب عام آدمی کو زندگی کی بنیادی سہولیات دینے میں ناکام ہوجائے تو نوجوان طبقہ ریاست مخالف مسلحہ تنظیموں کا حصہ بن جاتا ہے کیونکہ ایسی تنظیمیں نوجوانوں کو مالی فوائد کا یقین دلاتی ہیں۔ بے روزگاری کا ستایا ہوا پڑھا لکھا نوجوان جب اپنی سماجی حثیت کے بارے میں متفکر ہوتا ہے تو اس کو اپنی بقا مسلحہ تنظیموں کا حصہ بننے میں نظر آتی ہے۔یوں ان ریاست مخالف تنظیموں کی افرادی قوت میں اضافہ ہوتا ہے۔۔۔

2- قانون کی حکمرانی کی ابتر حالت
پورے پاکستان بالخصوص سرحد اور بلوچستان میں قانون کی حکمرانی کی ڈور بہت کمزور ہے۔باثر طبقے کی شتر بے مہاری نے عام آدمی کا قانونی طریقوں پر سے اعتماد اٹھا دیا ہے۔جس کی وجہ سے عام آدمی غیر قانونی اور تشدد کے راستے پر چلنے کیلے مسلحہ تنظیموں کا حصہ بن جاتا ہے۔

3- قومی وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم۔
قومی وسائل پر ہر اکائی کا برابر کا حق ہوتا ہے۔جب قومی وسائل ریاست کے صرف ایک ہی حصے پر لگتے ہوں تو باقی ماندہ اکائیوں کی عوام کا ریاست سے اعتماد اٹھ جاتا ہے اور ریاست کی مخالفت میں لوگ ایسی تحریکوں کا حصہ بن جاتے ہیں۔۔

4- کمزور جمہوریت
جمہوریت کمزور تب ہوتی ہے جب ریاست میں غیر جمہوری قوتیں مظبوط ہوں۔غیر جمہوری ریاستی ادارے انتخابات پر اثر انداز ہوتے ہیں جس سے انتخابی عمل میں غیر شفافیت کا عنصر غالب آتا ہے۔۔ جس سے اکثریتی عوامی حمایت یافتہ نمائندے ایوانوں تک نہیں پہنچ پاتے۔عوام ریاستی اداروں سے متنفر ہوتی ہے دہشت گردوں کی معاون و حمایتی بن جاتی ہے۔۔۔۔

5- تعلیم اور شعور کی کمی
پاکستان میں تعلیم کا نظام کمزور ہے اور خواندگی کی شرح بھی غیر تسلی بخش ہے۔حالات ایسے ہیں کہ تعلیم کا حصول عام آدمی کی بساط سے باہر ہے۔ اور جو لوگ تعلیم حاصل کر رہے ہیں یا کر چکے ہیں ان میں بھی شعور کا فقدان ہے۔محض ڈگری کے حصول کے کلچر میں تنقیدی سوچ، برداشت اور مکالمے کو فروغ نہیں دیا جاتا۔اگر تعلیمی ادارے برداشت اور انسانیت سکھانے سے قاصر رہیں تو انسان شدت پسندی کی طرف چلا جاتا ہے۔

6- مذہبی انتہا پسندی
پاکستان میں بہت سے لوگ مذہبی انتہا پسندی کی وجہ سے مسلحہ تنظیموں کا حصہ بن جاتے ہیں جس کی بڑی وجہ اسلامی تعلیمات کی مبہم اور غیر معیاری تشریح ہے۔مدارس اور عصری تعلیمی اداروں کے طلبا ایسی تعلیمات کے زیرِ اثر آکر دہشت گردوں کے معاون بن جاتے ہیں۔

بد عنوانی اقربا پروری میرٹ کی پامالیاں بھی نوجوانوں کو دہشت گردوں کا آلہ کار بننے کی راہ ہموار کرتی ہیں۔

یہ وہ تمام بڑے مسائل ہیں جن کی وجہ سے عام آدمی سے لیکر پڑھے لکھے نوجوان تک سب کو دہشت گردوں کا معاون و مددگار بننے پر مجبور کرتے ہیں۔۔۔ریاست پوری قوت کے ساتھ خواہ Soft Power ہو یا Hard Power ان تمام مسائل کے سد ِ باب کیلے سنجیدہ کوششیں کرے تبھی جا کے ایک پر امن ماحول کی تشکیل ممکن ہو سکتی ہے۔ یہ واضح ہے کہ صرف فوجی حل insurgency کو ختم نہیں کر سکتا؛ ایک جامع حکمت عملی درکار ہے جو سیکیورٹی اور حکمرانی کی ناکامیوں کو حل کرے۔ معاشی ترقی، عدالتی اصلاحات، جامع سیاسی نمائندگی، اور ایسی تعلیم جو تنقیدی سوچ اور برداشت کو فروغ دے، انتہائی ضروری ہیں۔