اگرچہ انسانی حافظہ محدود ہے اور بہت کچھ بھلا دیتا ہے لیکن زندگی کے سفر میں بعض اوقات اس طرح کے واقعات پیش آتے ہیں جو انسان چاہے بھی تو بھلا نہیں سکتا۔ بعض تلخ یادیں، جھٹکے اور صدمات اس طرح کے ہوتے ہیں جن کا خیال آتے ہی نیند حرام ہو جاتی ہے، سکون قلب برباد ہو جاتا ہے اور انسان سر تاپا دکھ، غم یا صدمے کی تصویر بن جاتا ہے۔ نظام قدرت ہے کہ زندگی رکتی نہیں، خراب گاڑی کی طرح کھڑی نہیں ہوتی بلکہ ہر لمحہ چلتی رہتی ہے، زندگی ایک ایسی رواں دواں ندی کی مانند جو بل کھاتی، رخ بدلتی، سکڑتی، پھیلتی، جاری و ساری رہتی ہے۔ تجربہ شاہد ہے کہ انسان خوشی کے واقعات کو دبا دیتا ہے لیکن روح اور دل کے گہرے زخموں کو بھلا نہیں سکتا۔ یہ زخم اس طرح تازہ رہتے ہیں جیسے ابھی کل ہی لگے ہوں اور دہائیاں گزرنے کے بعد بھی ان کی یاد آنکھوں سے آنسوئوں کی برسات برسا دیتی ہے اور سسکیوں پر قابو پانا ممکن نہیں رہتا۔
میری اس شخص سے پہلی ملاقات 1986/87میں ہوئی جب میںنے بطور سیکرٹری انفارمیشن پنجاب وزیراعلیٰ کی منظوری لے کر تحریک پاکستان کے کارکنوں کے لئے طلائی تمغوں (گولڈ میڈلز) کی اسکیم شروع کی۔ اس دور میں مجھے تحریک پاکستان کے ان گنت کارکنوں، عہدے داروں اور قائداعظم کے ساتھیوں سے ملنے کا موقع ملا۔ جب میں نے اخبارات میں اشتہارات دیئے توملنے والے خطوط کی تعداد ہزاروں سے بھی بڑھ گئی۔ انہی دنوں مجھے ایک ایسے شخص سے ملنے کا اتفاق ہوا جس کی آب بیتی کے چند اوراق میری ناقابل فراموش ذہنی کتاب کا حصہ بن گئے۔ بظاہر وہ شخص کوئی ساٹھ سال کے لگ بھگ لگتا تھا۔ تقریباً چھ فٹ قد، مضبوط جسم، چہرے پر تفکرات کی جھریاں اور چھوٹی سی ریش مبارک گندمی رنگ میں سجی ہوئی تھی۔ وہ تشریف لائے اور بیٹھتے ہی کہنے لگے ’’ڈاکٹر صاحب میں آپ کو اس تاریخی کارنامے پر مبارک باد دینے آیا ہوں اور یہ عرض کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ آپ سے لوگ گولڈ میڈل کے لئے ملتے ہوں گے لیکن میرا ایسا کوئی استحقاق نہیں اور نہ ہی تمنا۔ میں نہ تحریک پاکستان کا سرگرم رکن تھا اور نہ کبھی قائداعظم سے ملا۔قائداعظم سے گہری عقیدت تھی
اور’’لے کے رہیں گے پاکستان‘‘ کے نعرے بھی لگاتا تھا لیکن ہماری یہ سرگرمیاں اپنے دیہات تک محدود تھیں۔ اس لئے میں آپ کے پاس گولڈ میڈل کی تمنا لے کر نہیں آیا بلکہ اپنی بپتا، اپنی دکھ بھری کہانی اوراپنے دل کا زخم دکھانے آیا ہوں کہ شاید اس سے میرے دل کا بوجھ ہلکا ہو اور زخم کی شدت کم ہو جائے۔ اس کے علاوہ میرا اورکوئی مقصد نہیں۔
میں انکی بات سنتے ہی ہم تن گوش ہوگیا اور چائے کی پیالی ان کی طرف بڑھاتے ہوئے عرض کیا کہ ’’جی فرمایئے میں پوری توجہ سے سن رہا ہوں‘‘۔ اس شخص نے چائے کی پیالی ہونٹوں سے لگائی اور کہنے لگا ’’ڈاکٹر صاحب۔ میرا آبائی گائوں مشرقی پنجاب کے ضلع امرتسر میں واقع ہے۔ وہاں ہم صدیوں سے رہ رہے تھے اور زراعت پیشہ لوگ تھے۔ ہماری ایک حویلی تھی جس میں ہم دو بھائیوں کے بیوی بچے اور والدہ رہتی تھی۔والد صاحب کا انتقال ہوگیا تھا۔ ہمارے گائوں میں سکھوں کی اکثریت تھی جو اکثر زمینداری کرتے تھے۔ صدیوں تک پڑوس میں رہنے کی وجہ سے ہمارے ایک دوسرے سے تعلقات بھائیوں کی مانند تھے، ہم ان کی خوشی غمی میں شریک ہوتے اور وہ ہماری میں۔ آزادی کی تحریک دیہات تک پہنچی تو گائوں کی بیٹھکوں میں ماسٹر تارا سنگھ، نہرو، گاندھی اورجناح صاحب کا ذکر ہونے لگا۔
آہستہ آہستہ جوں جوں آزادی کا وقت قریب آتا گیا ہندوئوں اور سکھوں کے مسلمانوں کے ساتھ تیور بدلنے لگے اور رویوں میں سردمہری اترنے لگی۔ اس کے باوجود ہم لوگ کھیتی باڑی میں مصروف رہتے اور سوچتے کہ ہم نے اپنے آبائی گائوں، زمینیں، جائیدادیں اور بزرگوں کی قبریں چھوڑ کر کہاں جانا ہے۔ ہم بٹوارے کی بات ایک کان سے سنتے دوسرے سے نکال دیتے۔ انہی دنوں ہمیں کچھ پڑھے لکھے لوگ اور تحریک کے کارکنوں سے ملنے کا اتفاق ہوا تو انہوں نے بتایا کہ تقسیم ہند کی صورت میں یہ علاقہ پاکستان کو ملے گا۔ پھر آزادی اور تقسیم کے قریب آتے ہی فسادات پھوٹ پڑے، ہندوئوں، سکھوں اور مسلمانوں کے درمیان قتل و غارت کی خبریں آنے لگیں اور شہروں، قصبوں اور بڑے دیہات سے مسلمانوں کے گھروں کو جلانے کی خبریں سننے لگے لیکن ہم دو بھائیوں اور چند کزنوں نے یہی فیصلہ کیا کہ ہم اپنے گائوں میں ہی رہیں گے۔ ہمیں یقین تھا کہ ہمارے گائوں کے غیر مسلمان صدیوں پرانے تعلقات کا لحاظ کرتے ہوئے ہمیں کچھ نہیں کہیں گے۔
چودہ پندرہ اگست 1947ء کی نصف شب ہم نے آزادی کا اعلان اپنے گائوں میں ہی ریڈیو سے سنا اور پھر رمضان کی برکت سے سحری کی تیاری کرنے لگے۔ اتنے میں ہمارے گائوں میں ’’مارو، قتل کرو، آگ لگائو‘‘ کا شور بلند ہوا۔ ایک نعرہ بلند ہوا ’’کوئی مسلا (مسلمان) بچ کر نہ جائے‘‘۔ ہمارا گھر گائوں سے ذرا ہٹ کر تھا۔ گائوں کی طرف دیکھا تو آگ کے شعلے، چیخ و پکار اور شور بلند ہوتا سنائی دیا۔ لوگ جان بچانے کے لئے ادھر ادھر دوڑتے نظر آئے جن کا تعاقب بلوائی ہاتھوں میں نیزے تلواریں اور بندوقیں اٹھائے کررہے تھے۔ یہ سوچنےکا وقت نہیں تھا۔ میں نے چھوٹے بچے کوکندھے پر اٹھایا، آٹھ سالہ بیٹی کی انگلی پکڑی اور بیوی کو آگے لگا کر کھیتوں کی پگڈنڈیوں پر بھاگنا شروع کردیا۔ یہی وہ کھیت تھے جنہیں ہم نے خون پسینے سے سینچا تھا اور وہ ہمیں آج پناہ دینے کے لئے تیار نہ تھے۔ کھیتوں میں ہر طرف لوگ بھاگتے چھپتے اور پناہ ڈھونڈتے پھرتے تھے اور بلوائی اسلحہ اٹھائے ان کا پیچھا کر رہے تھے۔ کہیں بچوں کو نیزوں پر لٹکایا جارہا تھا، کہیں عورتوں کی چیخیں آسمان تک بلند ہورہی تھیں، کہیں جوانوں اور بوڑھوں کی لاشوں کے ٹکڑے بکھرے پڑے تھے۔ ہم دیوانہ وار بھاگ رہے تھے اور قاتلوں کا چھوٹا سا گروہ ہمارا پیچھا کررہا تھا۔ بھاگتے بھاگتے میری بیٹی شل ہوگئی اور اس کی انگلی میرے ہاتھ سے چھوٹ گئی۔
بلوائیوں کی خوفناک آوازیں قریب آرہی تھیں اور پیچھے مڑ کر دیکھنا ممکن نہ تھا۔ چند لمحوں کے بعد مجھے ایک چیخ سنائی دی ’’ابا مجھے بچائو‘‘ بلوائیوں نے پیچھے رہ جانے والی میری بیٹی پکڑ لی تھی لیکن ہم میں پیچھے جانے کا حوصلہ نہ تھا۔ ہم بھاگتے، چھپتے بڑی سڑک تک پہنچ گئے اور پھر فوج کی نگرانی میں مہاجرین کے ایک قافلے کے ساتھ والٹن مہاجرین کیمپ میں پہنچ گئے۔ لاہور آنے کے بعد میں نے بیوی کے چند زیور فروخت کر کے چھوٹے سے کام کا آغاز کیا، اللہ پاک نے برکت عطا کی، کاروبار پھیل کر ایک چھوٹی سی فیکٹری میں بدل گیا۔ رہنے کو اللہ نے خوبصورت گھر دیا، بیٹے نے پڑھ لکھ کر کاروبار سنبھال لیا اب وہ بھی دو بچوں کا باپ ہے۔ اللہ پاک نے دولت تو بہت دی، ہر نعمت سے نوازا لیکن میری زندگی کو سکون، راحت اور خوشی سے محروم کردیا۔ ڈاکٹر صاحب میں جب رات کو بستر پر لیٹتا ہوں تو مجھے کانوں میں اپنی بیٹی کی آواز سنائی دیتی ہے ’’ابا مجھے بچا لو‘‘ اور پھر میں سسکیوں میں ڈوب جاتا ہوں۔ دل کا زخم دکھاتے دکھاتے اس صاحب کی ریش مبارک آنسوئوں سے تر ہو چکی تھی۔ پھر وہ اچانک زور زور سے رونے لگے۔ ان کی سسکیوں اور آہوں نے مجھے پگھلا دیا اور مجھے یوں لگا جیسے ان کا غم دھیرے دھیرے میرے اندر اتر گیا ہے۔
یہ ناقابل فراموش واقعہ سنے کئی دہائیاں گزر چکیں۔ نہ جانے وہ صاحب زندہ ہیں یا اپنے زخموں کی فریاد لئے اگلے جہان میں پہنچ چکے ہیں لیکن مجھے جب بھی یہ واقعہ یاد آتا ہے میں غمگین ہو جاتا ہوں اور بستر پر بے چینی سے کروٹیں بدلنے لگتا ہوں۔
تبصرہ لکھیے