ہوم << تزکیۂ نفس کی شعری جہات اور مولانا رومی کا طرزِ فکر - وسیم اکرم قاسمی

تزکیۂ نفس کی شعری جہات اور مولانا رومی کا طرزِ فکر - وسیم اکرم قاسمی

زمانہ بیت گیا اور مثنوی رومی کے اوراق ذہن کی الماری میں دھندلا گئے، جیسے کوئی مدہم یاد جو رات کے آخری پہر دل کی دہلیز پر آ کر رک جائے اور پھر معدوم ہونے لگے۔ مطالعہ کی وہ لذت جو کبھی روح کی گہرائیوں میں سرایت کر گئی تھی، اب گویا زنگ آلود ہو چکی تھی۔ میں اپنی مصروفیات کے بھنور میں ایسا الجھا کہ اس علمی ضیافت کی طرف متوجہ ہونے کی فرصت ہی نہ ملی۔ مگر ایک بے نام خلش، ایک انجانی کسک دل میں باقی تھی، جیسے کوئی دروازہ مسلسل بج رہا ہو، مگر دستک دینے والا نظروں سے اوجھل ہو۔ میں نے کئی بار دعاؤں میں اس آرزو کو سمویا کہ وقت کی صعوبتوں سے نجات پا کر رومی کی فکری کہکشاں میں دوبارہ غوطہ زن ہو سکوں، مگر وقت نے ہمیشہ کی طرح تہی دامنی کا طعنہ دے کر آگے بڑھا دیا۔

مجھے آج بھی یاد ہے کہ مثنوی شریف کو جب میں نے پہلی مرتبہ سمجھنے کی کوشش کی، تب نفس و روح کی لطافتوں کا ادراک نہ تھا۔ میں نے کم سنی میں ہی اپنی حساسیت کی وجہ سے بچپنے کو دفن کر دیا تھا، اور وقت سے پہلے معرفت کے ان صحراؤں میں آوارہ گردی کا شوق پال لیا، جن کی وسعتوں میں گم ہونے کے لیے صبر کی پختگی درکار ہوتی ہے۔

مجھے یاد ہے جب ایک سفید ریش بزرگ نے مجھے مثنوی شریف کو یوں پڑھایا کہ وہ آنکھیں بند کر لیتے اور ایک وجدانی کیفیت میں گم ہو جاتے۔ میں الفاظ کی بنت، ان کے معانی کی تہہ داری، ان میں مستور رموز و اسرار کو کھوجنے کی تگ و دو میں رہا، مگر جو لذت اس نابینا آنکھوں والے ولی کو حاصل تھی، میری بیدار نگاہوں میں کہیں نظر نہ آئی۔ میں کبھی کسی صاحبِ نسبت ہستی کی طرف لپکنے کا خواہاں ہوا، تو کبھی مادی تقاضوں کی تکمیل میں گم ہو گیا۔ اس کشمکش نے میری جوانی کی سرمستی کو تلخی میں بدل دیا، نہ میں دنیاداروں میں سے ہوا، نہ ہی اہلِ دل کی بزم میں جگہ بنا سکا۔
زندگی کے بحرِ ناپیدا کنار میں دو صداقتیں ایسی نمودار ہوئیں کہ میرے شعور کے نہاں خانے ان کی روشنی سے منور ہو گئے، اور ان حقائق کی روشنی میں اپنی ذات کی تعمیر میں کا سلسلہ شروع کیا۔ لیکن جب حیات کے مادی تلاطم نے مجھے اپنی شوریدہ موجوں میں بہا لیا، تو میں بھی ان سرگرداں مسافروں کے ہمراہ چل نکلا جو گناہوں کے بازار میں مجھ سے کہیں آگے نکل چکے تھے۔ تاہم، ایک خلش، ایک داخلی صدا، ہمیشہ میرے باطن میں گونجتی رہی۔

پہلی صداقت جو میں نے کم عمری میں بغیر کسی ظاہری سبب کے دریافت کی وہ انسان کی اصلی کیفیت ہے؟ یہ بات مسلّم ہے کہ زندگی تغیر کا ایک غیر مختتم سفر ہے، ایک بہاؤ ہے، جہاں کوئی جذبہ، کوئی کیفیت، کوئی احساس دائمی نہیں۔ مختلف مکاتبِ فکر نے بھی اس حقیقت کو تسلیم کیا ہے کہ خوشی اور غم محض ضدین نہیں، بلکہ ایک دوسرے کے تکمیلی عناصر ہیں۔ مگر میں نے جب بھی انسانی فطرت کے اس دھندلکوں میں چھپے راز کو ٹٹولا، تو میرے لیے غم ہی ازلی حقیقت کے طور پر ابھرا، جبکہ خوشی محض ایک زود گزر لمحہ معلوم ہوئی، ایک فریبِ نظر، ایک دل فریب سایہ، جو درحقیقت غم کی گہری، لازوال اور سنجیدہ کیفیت سے ایک مختصر وقفہ ہے۔

یہ نکتہ جب میری ذات میں ایک مضبوط ترقی کے ساتھ پیوست ہوا، تو ایک اور سوال نے سر اٹھایا کہ کیا یہ غم کسی معلل سبب کا نتیجہ ہے، یا ازل سے انسان بالخصوص میرے مقدر میں ودیعت کر دیا گیا ہے؟ کیا یہ ایک حادثاتی واردات ہے، یا پھر میری فطرت کے نقوش میں ازل سے کندہ ایک دائمی سچائی؟

کم عمری کے ایام میں جو دوسرا راز میرے شعور پر بغیر کسی تعلیم کے منکشف ہوا، وہ یہی تھا کہ انسان کے ظاہری رسوم و عبادات محض مذہبی مناسک نہیں، بلکہ ان کے دنیاوی اثرات ایک منفرد جہان رکھتے ہیں۔ ایک ایسا غیر مرئی تعلق، جو ظاہراً نظر نہیں آتا مگر اپنی اثر پذیری میں ناقابلِ انکار ہے۔ یہ حقیقت، اگرچہ ابتدا میں مبہم رہی، مگر جیسے جیسے شعور کی پرتیں کھلتی گئیں، میں نے بزرگوں کو پڑھا اور ان کو سنا تو محسوس کیا کہ واقعی یہ محض جسمانی حرکات نہیں، بلکہ ایک داخلی انقلاب کی بنیاد ہیں، جن پر ایک مستقل غور و فکر اور عمیق مطالعے کی ضرورت ہے۔

اسی سفر میں، میں نے مولانا جلال الدین رومیؒ کو اپنا رہنما بنایا، کہ وہی تھے جن کی فکر میں عشقِ الٰہی کا وہ الہامی سرور موجزن تھا جو جسم و جاں کو ایک نئی روشنی عطا کرتا ہے۔ ان کے خیالات کو مشعلِ راہ بنا کر، میں نے احتیاط کے ساتھ ہر قدم اٹھایا، مبادا کہیں عقل کی خشک راہوں میں بھٹک نہ جاؤں یا جذبات کے تلاطم میں بہہ نہ جاؤں۔ اس دوران جو نکات اور افکار جمع کیے، انہیں اب منظم کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں اور ان کی اشاعت "دلیل" کے علمی و فکری منبر سے کرنے کا قصد ہے۔ اس بابت، میں برادرِ محترم جناب دانیال احمد کا تہِ دل سے شکر گزار ہوں، جنہوں نے علم و فکر کی محبت میں مجھ جیسے نو آموز کو اس کارواں میں شامل ہونے کی دعوت دی۔

دوستوں کے استفادے کے لیے عرض ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بے پایاں رحمت سے نہ صرف مجھے مثنوی شریف کے فیوض و برکات کو از سرِ نو سمیٹنے کا موقع ملا، بلکہ ایک نہایت نیک، متقی اور روحانی جواہر سے آراستہ خاتون کو اس بحرِ معرفت میں شریکِ سفر بنانے کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔ وہ اپنی ذہانت اور فکری ژرف نگاہی کے ذریعے میرے سوالات کے وہ جوابات تلاش کر رہی ہیں جو میری روح کی گہرائیوں میں دیرینہ خلش کی صورت میں موجود ہیں۔ شاید انہی مباحث کے دریچوں سے وہ روشنی پھوٹے جس کا میں نے مدتوں انتظار کیا۔
(جاری ہے۔)