ہوم << تین لیڈر تین کہانیاں - انجینئر افتخار چوہدری

تین لیڈر تین کہانیاں - انجینئر افتخار چوہدری

دنیا میں کچھ ہستیاں ایسی ہوتی ہیں جن کے خیالات صدیوں کا فاصلہ مٹا دیتے ہیں، جو اپنے وقت کے آئینے میں مستقبل کا عکس دیکھ لیتی ہیں، اور جب وہ بولتی ہیں تو وقت ٹھہر جاتا ہے۔ علامہ عنایت اللہ مشرقی اور چوہدری رحمت علی ایسی ہی دو شخصیات تھیں، جن کے الفاظ تاریخ کے پتھر پر کندہ ہو گئے، مگر افسوس کہ وہ اپنی ہی زمین پر اجنبی بنا دیے گئے۔ یہ وہ چراغ تھے جن کی روشنی کو خود اپنے ہی دیس کے آندھیوں نے بجھا دیا، مگر وہ شعلہ بجھ کر بھی دلوں میں جلتا رہا۔

علامہ عنایت اللہ مشرقی وہ نابغۂ روزگار ہستی تھے جن کی ذہانت کا لوہا مغربی دانش گاہوں نے بھی مانا۔ کیمبرج یونیورسٹی میں جب ریاضی کے میدان میں ان کی قابلیت کے قصے زبان زدِ عام ہوئے تو پروفیسرز حیران تھے کہ کیا واقعی کوئی برصغیر سے آیا ہوا طالب علم یورپ کے دانشوروں کو مات دے سکتا ہے؟ مگر مشرقی نے ثابت کیا کہ علم و حکمت کسی خاص سرزمین کی میراث نہیں، بلکہ جو تلاش کرے، وہی پائے۔ ان کا کہنا تھا کہ برصغیر میں بیشتر مساجد کے قبلے غلط رخ پر ہیں، اور جب انہوں نے یہ علمی نکتہ اٹھایا تو علما کی ایک بڑی تعداد ان کے خلاف کھڑی ہو گئی۔ یہ وہی معاشرہ تھا جو نئی سوچ کو گناہ سمجھتا تھا، جہاں تحقیق کا دروازہ تقلید کی زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا۔

علامہ مشرقی نے "خاکسار تحریک" کی بنیاد رکھی، جس کا مقصد برصغیر کے مسلمانوں میں وہی عسکری روح پیدا کرنا تھا جو ماضی کے فاتحین میں تھی۔ وہ جانتے تھے کہ جس قوم میں عسکری قوت نہ ہو، وہ غلام بنا دی جاتی ہے۔ مگر افسوس! جب ان کے 313 خاکسار لاہور میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے تھے، تو ان کا اپنا ہی خون اپنی ہی زمین پر بہایا جا رہا تھا۔ 19 مارچ 1940 کو جب خاکساروں پر گولیاں برسائی گئیں، تو ان میں مشرقی کے دو بیٹے بھی شامل تھے، جن کا لہو لاہور کی گلیوں میں بہا دیا گیا۔

ہٹلر نے جب علامہ مشرقی کی تصنیف پڑھی تو حیران ہو کر کہا، "اگر یہ آدمی جرمن ہوتا تو میں اسے اپنی حکومت میں ایک اعلیٰ منصب دیتا۔" مگر افسوس کہ ہمارے ہاں ایسے لوگوں کو قید و بند کا سامنا کرنا پڑتا ہے، انہیں رسوا کیا جاتا ہے، اور ان کے نظریات کو دبانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

چوہدری رحمت علی نے جب "پاکستان" کا خواب دیکھا، تو بہت سوں کو یہ دیوانے کی بڑ لگی۔ وہ کہتا تھا، "مسلمان اگر ہندو اکثریت کے ساتھ رہے تو اپنی شناخت کھو دیں گے، ان کے مذہب، ثقافت، زبان، سب کچھ ختم کر دیا جائے گا۔" مگر ہمارے رہنماؤں نے اسے ایک اجنبی کی طرح پرے دھکیل دیا۔ یہ وہی رحمت علی تھا جو دنیا کے سامنے نظریہ پاکستان پیش کر رہا تھا، مگر جب پاکستان بن گیا تو اسے اس دیس میں داخل ہونے سے روک دیا گیا۔ تاریخ کا المیہ دیکھیے کہ جو شخص پاکستان کا معمار تھا، وہی اس زمین پر بے یار و مددگار پڑا رہا، اور آخر کار پردیس میں ہی اس کا جنازہ اٹھا۔
"چے گویرا" کہتا تھا، "اگر تمہیں سچ بولنے کی سزا مل رہی ہے، تو جان لو کہ تم ظالموں کے درمیان کھڑے ہو۔"

یہی تاریخ کا جبر ہے کہ جو سچ بولے، جو مستقبل کے خطرات سے آگاہ کرے، جو اپنی قوم کو بچانے کے لیے علم بلند کرے، اسے ہمیشہ دھتکار دیا جاتا ہے۔ آج ہم پھر اسی دوراہے پر کھڑے ہیں۔ پاکستان میں ظلم و جبر کا وہی کھیل جاری ہے جو مشرقی اور رحمت علی کے زمانے میں تھا۔ آج بھی جو سچ بولتا ہے، اسے یا تو غدار کہہ دیا جاتا ہے یا ملک بدر کر دیا جاتا ہے۔

آج قیدی نمبر 804 کی کہانی سن کر علامہ مشرقی اور رحمت علی کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ وہ بھی ایک خواب لے کر آیا تھا، اس نے بھی نیا پاکستان بنانے کی بات کی تھی، اس نے بھی عوام کو شعور دینے کی کوشش کی تھی۔ مگر اس کے ساتھ کیا سلوک ہوا؟ اسے جیل میں ڈال دیا گیا، اس کے ساتھیوں کو دیوار سے لگا دیا گیا، اس کے چاہنے والوں کو عبرت کا نشان بنایا گیا۔ "سبھاش چندر بوس" کہتا تھا، "تم مجھے خون دو، میں تمہیں آزادی دوں گا!"

یہ وہی تاریخ ہے جو بار بار دہرائی جاتی ہے۔ جب مشرقی نے سچ بولا، اسے قید کر دیا گیا۔ جب رحمت علی نے مستقبل کے خطرات بتائے، اسے ملک بدر کر دیا گیا۔ اور آج، جو نئے پاکستان کا نعرہ لے کر آیا، وہ بھی اسی ظلم کا شکار ہے۔ "سلطان صلاح الدین ایوبی" کا قول ہے، "اگر تمہیں اپنی سرزمین کی قدر نہیں، تو دشمن تمہاری بے حسی سے فائدہ اٹھائے گا۔" کیا ہم نے علامہ مشرقی کے فلسفے کو سمجھا؟ کیا ہم نے رحمت علی کی قربانیوں کو یاد رکھا؟ کیا ہم نے قیدی نمبر 804 کے ساتھ ہونے والے سلوک سے سبق سیکھا؟ شاید نہیں!

یہی وجہ ہے کہ ظلم آج بھی جاری ہے، جبر آج بھی قائم ہے، اور وہی پرانے حربے آج بھی آزمائے جا رہے ہیں۔ مگر یاد رکھیے، تاریخ کے پنوں پر لکھے گئے الفاظ مٹائے نہیں جا سکتے۔ وقت کا پہیہ گھومے گا، اور سچائی کی روشنی ایک دن ضرور طلوع ہو گی۔ یہ وہی خواب ہے جو مشرقی نے دیکھا تھا، یہ وہی امید ہے جو رحمت علی نے باندھی تھی، اور یہ وہی چراغ ہے جسے آج بھی جبر کی آندھیاں بجھانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ مگر سچ ہمیشہ زندہ رہتا ہے، اور ظلم کی زنجیریں ایک دن ٹوٹ ہی جاتی ہیں۔
"بڑھتے رہو کہ منزلیں خود راستہ دیں گی،
ٹھہرو گے تو ہار جاؤ گے، وقت کسی کا نہیں ہوتا۔"