مسلمانوں کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو کئی واقعات ملتے ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ مسلمانوں کو کلمہ حق کہنے کی پاداش میں قتل و غارت کا سامنا کرنا پڑا ۔انہی واقعات میں سے ایک واقعہ فرعون کا ہے جس نے ظلم و ستم کی انتہا کردی تھی ، ایک طرف قتل اور دوسری طرف خوف و ہراس کی فضا اعصاب شل کیے جانے کے برابر تھی ۔ سالہا سال جاری رہنے والا فرعونیت کا یہ سلسلہ فرعون اور اس کے لشکر کے غرق ہونے پر اختتام پذیر ہوا ۔ اسی طرح اصحاب الاخدود عورتوں ، جوانوں اور بزرگوں سمیت دہکتے الاؤ کے سپرد کیے گئے حتی کہ دودھ پیتے بچوں کو بھی نہیں بخشا گیا ۔پھر ہمارے آباؤ اجداد نے تاتاریوں کا دور دیکھا جس میں مسلمان مولی گاجر کی طرح کاٹ دیے گئے کہ نوحہ لکھنے والے نوحہ لکھتے ہوئے بھی متردد رہے کہ اسلام اور مسلمانوں کی زبوں حالی لکھنے کے لیے ہمت کہاں سے لائیں۔اس کے بعد بھی مسلم نسل کشی رکی نہیں بلکہ دنیا کے مختلف خطوں میں وقتا فوقتا جاری رہی ، کہیں مسلمان سرنگوں ہوگئے اور کہیں کہیں چنگاریاں سلگتی رہیں ۔افرادی سطح پر دیکھا جائے تو طویل فہرست ہے جہاں بے شمار افراد ، رہنما اور قیادتیں جان سے گئیں ۔
انبیاء کرام علیہم السلام کی یہودیوں کے ہاتھوں شہادتیں ہوں یاسیدنا بلال رضی اللہ عنہ کا کوئلوں پر لٹایا جانا ، رب ذوالجلال کی وحدانیت کے اقرار کی پاداش میں سیدہ سمیہ رضی اللہ عنہا کا دو ٹکڑے ہونا یا سیدنا خباب رضی اللہ عنہ کی جلد کا اتر جانا ، بئر معونہ میں اصحاب کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی اندوہناک شہادت ہو یا سیدنا حمزہ و سیدنا مصعب رضی اللہ عنہما کی زخم زخم جدائی ،سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی تکلیف دہ رحلت ہو یا ذوالنورین و حیدر کرار رضی اللہ عنہما کا بچھڑنا ، سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی مظلومانہ شہادت ہو یا آج تلک علماء و قیادتوں کی آسان ٹارگٹ کلنگ ،عرصہ دراز سے صیہونی ظلم کے آگے سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے وحشیانہ درندگی کا سامنا کرتے عام فلسطینی ہوں یا ان کی قیادت ، اس امت نے کئی دکھ جھیلے ہیں ، لیکن جس دین کے لیے یہ دکھ اٹھائے وہ قائم و دائم رہا ہے اور رہے گا ،جہاں تک شہادتوں کی بات ہے تو نبی رحمت علیہ الصلاۃ والسلام کی رحلت سے بڑھ کر تکلیف کیا ہوگی کہ ان کی مدینہ آمد پر وہ دن سب سے روشن ترین دن اور ان کے کوچ کر جانے پر وہ دن سب سے تاریک ترین دن ٹھہرا لیکن رب العالمین کے کلام نے رہتی دنیا تک ہمارے دل کو ڈھارس بندھا دی اور اعلان کردیا کہ آپ ﷺ کی وفات بھی ہوگی اور باقی لوگوں کی بھی ۔ تو جب محبوب خدا باقی نہ رہے تو کسی کے باقی رہنے کا کیا جواز ہے ؟
فلسطین کی لہو لہو صورتحال پر دل زخمی ضرور ہے لیکن تاریخ شاہد ہے اور ایمان کامل کہ ظلم و جبر کا ایک وقت مقرر ہوتا ہے فتح بالآخر اسلام کی ہوتی ہے ۔ وہ فتح اصحاب الاخدود کی مثل شہادت کے تمغے سجا کر ہو یا دشمن پر قابو پاکر ، رب العالمین ہر طریقے کو کامیابی قرار دیتا ہے ۔ملک شام میں پچاس سال تک فرعون کا کردار نبھاتے قصائی باپ بیٹے کی مثال ہمارے سامنے ہے جو یقین پر مہر ثبت کرتی ہے کہ کامیابی اہل اسلام کو مل کر رہتی ہے ۔ہمارا ایمان ہے کہ جو آج صیہونی درندگی کا سامنا کررہے ہیں وہ کل انہی یہودیوں کو اس حالت میں پکڑ کر قتل کریں گے کہ ہر حجر و شجر پکارے گا کہ اے اللہ کے بندے میرے پیچھے دشمن خدا چھپا بیٹھا ہے آؤ اور اسے آکر قتل کرو ۔
فی الحال وہ ہر طریقے سے اپنی مراد پارہے ہیں ، جا کر بھی اور باقی رہ کر بھی ۔ ہاں لیکن ہم احتساب کے کٹہرے میں ضرور کھڑے ہیں ۔ بھوک ، جدائی ، خوف اور دن رات بمباری غرض کون سی آفت ہے جو ان پر نہیں ٹوٹ پڑی لیکن کیا یہ وہی نہیں جن کی زبانیں الحمد للہ کی تکرار کرتے نہیں تھکتیں ، لٹے پٹے قافلے ہر حال میں راضی برضا ہیں ، صبر کی تصاویر بنے چہروں نے ایک دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈالا ہوا ہے ۔ یہاں ہم اپنے آپ سے سوال کریں کہ ہم نے ان کے ایمان سے کیا سیکھا اور ان کے لیے کیا کیا ؟ دعا کرسکتے تھے ، بائیکاٹ کرسکتے تھے ، سوشل میڈیا پر آواز اٹھا سکتے تھے ، آگے بڑھ کر ظلم و جبر روک سکتے تھے ، ان کے پھیلائے گئے شکوک و شبہات کا رد کرسکتے تھے ، اپنا اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق مضبوط کرسکتے تھے ،کیا کرسکتے تھے اور کیا کیا ہے؟کیا صرف سوشل میڈیا اور جلسے جلوسوں کی حد تک دکھ ،غم اور غصہ نکالا اور پھر سے لہو لعب اور رب العالمین کی نافرمانی میں مشغول ہوگئے، دن میں ان کے غم میں گھلتے رہے او رات کی تنہائیوں میں اللہ مالک الملک کے احکامات کی دھجیاں اڑاتے رہے یا ان کے ایمان اور زندگیوں سے کچھ سیکھا بھی اور عمل پیرا ہوئے ؟ہم میں سے ہر شخص اپنے اپنے دائرہ کار میں جواب دہ ہے ۔
تبصرہ لکھیے