ہوم << آرٹیفیشل انٹیلی جنس اور روحانیت: ایک نئی جہت - ملک محمد فاروق خان

آرٹیفیشل انٹیلی جنس اور روحانیت: ایک نئی جہت - ملک محمد فاروق خان

آرٹیفیشل انٹیلی جنس (AI) نے زندگی کے ہر شعبے میں انقلاب برپا کر دیا ہے، اور اب یہ روحانیت پر بھی اثر انداز ہو رہی ہے۔ جہاں یہ ٹیکنالوجی سائنس، طب، اور معیشت کو نئی راہوں پر گامزن کر رہی ہے، وہیں روحانی تجربات، مذہبی عبادات، اور تصوف کے تصورات کو بھی تبدیل کر رہی ہے۔

آج سے چند دہائیاں پہلے روحانی علوم اور مذہبی تعلیمات صرف مخصوص کتابوں، مذہبی اسکالرز، یا گُرو حضرات کے ذریعے حاصل کی جا سکتی تھیں۔ مگر اب AI کی بدولت یہ علوم ہر فرد کی دسترس میں ہیں۔ چیٹ بوٹس اور ورچوئل اسسٹنٹس مذہبی سوالات کے جوابات فراہم کر رہے ہیں، اور مختلف مذاہب کی مقدس کتابوں کی تشریحات بھی خودکار انداز میں مہیا کی جا رہی ہیں۔

آرٹیفیشل انٹیلی جنس نے آن لائن عبادات کو فروغ دیا ہے۔ اب ایسی ایپس دستیاب ہیں جو نماز اور دیگر عبادات کے اوقات کی یاد دہانی کراتی ہیں، قرآن کی تلاوت کا تجزیہ کرتی ہیں، اور حتیٰ کہ شخصی طور پر عبادات کے طریقے کو بہتر بنانے میں مدد دیتی ہیں۔ مراقبہ (meditation) کے لیے بھی AI پر مبنی پروگرام بنائے گئے ہیں جو صارف کی ذہنی کیفیت کے مطابق رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔

ماضی میں کسی مسئلے پر دینی رہنمائی حاصل کرنے کے لیے کسی عالمِ دین سے رابطہ ضروری ہوتا تھا، مگر اب AI ایسے سسٹمز تیار کر رہی ہے جو سوالات کے جواب دینے کے ساتھ ساتھ فتاویٰ بھی مہیا کر سکتے ہیں۔ البتہ، اس پر یہ خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ کیا یہ فتاویٰ مستند ہوں گے یا نہیں؟

صوفیانہ روایات میں روحانی ترقی کو ہمیشہ انسانی رہنمائی اور مجاہدے سے منسلک کیا گیا ہے، مگر AI کے ذریعے ایسے تجربات تخلیق کیے جا رہے ہیں جن سے لوگ روحانی خوشی اور تسکین حاصل کر سکیں۔ مثال کے طور پر، AI پر مبنی میوزک تھراپی اور صوفیانہ کلام کے جدید تجزیے لوگوں کو ایک نئی روحانی دنیا میں لے جا سکتے ہیں۔

AI مختلف مذاہب کے درمیان ہم آہنگی کو فروغ دے سکتی ہے۔ اس کے ذریعے بین المذاہب مکالمے کو بڑھایا جا سکتا ہے، اور تعصبات کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ آرٹیفیشل انٹیلی جنس روحانیت کو ایک نئی شکل دے رہی ہے۔ یہ عبادات، مذہبی علوم، اور روحانی تجربات کو آسان اور جدید بنا رہی ہے، مگر اس کے ساتھ کچھ چیلنجز بھی موجود ہیں، جیسے کہ AI کے ذریعے حاصل کردہ روحانی علم کی صداقت اور انسانی تجربے کا فقدان۔ آنے والے وقت میں، AI اور روحانیت کا امتزاج شاید انسان کی روحانی زندگی کو مزید بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہو، مگر اس کے لیے ایک متوازن نقطہ نظر ضروری ہوگا۔

آرٹیفیشل انٹیلی جنس (AI) کے بڑھتے ہوئے اثرات کے پیشِ نظر، یہ سوال بہت اہم ہے کہ آیا یہ مذہبی عقائد کو نقصان پہنچا سکتی ہے یا نہیں۔ اس کا جواب مکمل طور پر سیاق و سباق پر منحصر ہے—یعنی AI کا استعمال کس طرح اور کس مقصد کے لیے کیا جا رہا ہے۔

مستند مذہبی معلومات میں تحریف
AI پر مبنی چیٹ بوٹس اور ویب سائٹس مذہبی سوالات کے جوابات فراہم کر سکتی ہیں، لیکن اگر یہ معلومات مستند ذرائع سے نہ لی جائیں، تو غلط تشریحات اور غیر مصدقہ نظریات عام ہو سکتے ہیں، جو مذہبی عقائد میں بگاڑ کا سبب بن سکتے ہیں۔

روحانی تجربات کی مصنوعی نقل
AI ایسی ورچوئل رئیلٹی (VR) اور ایپس تیار کر رہی ہے جو روحانی تجربات کی نقل کر سکتی ہیں، جیسے کہ ڈیجیٹل مراقبہ یا صوتی تھراپی۔ اگر لوگ ان مصنوعی تجربات کو اصل روحانیت سمجھنے لگیں، تو مذہب کی حقیقی روح کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ بعض AI سسٹمز فتاویٰ یا مذہبی مشورے فراہم کرنے لگے ہیں، لیکن چونکہ AI انسانی جذبات، سیاق و سباق، اور نیت کو مکمل طور پر نہیں سمجھ سکتی، اس لیے غلط یا متنازعہ فتوے دینا ممکن ہے، جو مذہبی عقائد میں الجھن پیدا کر سکتا ہے۔ روایتی مذہبی قیادت کا کمزور ہونے کی وجہ سے لوگ مذہبی اسکالرز اور علما سے کم رجوع کرنے لگ سکتے ہیں، کیونکہ فوری اور خودکار جوابات دستیاب ہوتے ہیں، اس سے مذہبی قیادت کی حیثیت متاثر ہو سکتی ہے، اور مذہب کے روایتی ذرائع کمزور پڑ سکتے ہیں۔ AI الگورتھمز کو مخصوص نظریات کی ترویج کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اگر کوئی طاقتور گروہ AI کو مذہب مخالف یا الحادی نظریات کو عام کرنے کے لیے استعمال کرے، تو یہ مذہبی عقائد کے خلاف ایک چیلنج بن سکتا ہے۔

یہ کہنا بھی غلط ہوگا کہ AI صرف مذہبی عقائد کے لیے نقصان دہ ہے۔ اس کے کچھ مثبت پہلو بھی ہیں:
لوگ قرآن، حدیث، بائبل، گیتا اور دیگر مذہبی کتابوں تک آسانی سے رسائی حاصل کر سکتے ہیں اور اپنی مذہبی معلومات کو بہتر بنا سکتے ہیں۔
مختلف مذاہب کے درمیان بہتر مکالمے کو فروغ دے سکتی ہے اور مذہبی اختلافات کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔
ایپس نماز کے اوقات، قرآن کی تجوید، اور عبادات کے دیگر پہلوؤں میں مدد کر سکتی ہیں، جو ایمان کو مضبوط کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔

یہ بذاتِ خود مذہبی عقائد کو نقصان نہیں پہنچاتی، بلکہ اس کا اثر اس بات پر منحصر ہے کہ اسے کیسے اور کس نیت سے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اگر اس کا درست استعمال کیا جائے، تو یہ مذہب کو تقویت دے سکتی ہے، لیکن اگر اسے غلط سمت میں استعمال کیا جائے، تو یہ مذہبی عقائد میں بگاڑ پیدا کر سکتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ مذہبی علما، اسکالرز، اور ٹیکنالوجی ماہرین مل کر AI کے مثبت اور مؤثر استعمال کو فروغ دیں تاکہ یہ ایمان اور روحانیت کے لیے معاون ثابت ہو، نہ کہ رکاوٹ۔