ہوم << محمد محمود عالم: فولادی عزم کا شاہین - ثمر عباس لنگاہ

محمد محمود عالم: فولادی عزم کا شاہین - ثمر عباس لنگاہ

کہتے ہیں کہ کچھ شخصیات وقت کی گرد میں دب کر مٹ جاتی ہیں، مگر کچھ ایسی ہوتی ہیں جو تاریخ کے صفحات پر امر ہو جاتی ہیں۔ ایسی ہی ایک عظیم ہستی، پاکستان کے وہ سپوت، جنہیں دنیا "ایم ایم عالم" کے نام سے جانتی ہے، آج بھی ہمارے دلوں میں زندہ ہیں۔ محمد محمود عالم، وہ مردِ میدان، جنہوں نے 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں تاریخ کا وہ باب رقم کیا جس پر آج بھی دنیا حیران ہے۔ صرف چند لمحوں میں دشمن کے پانچ طیارے گرا کر جنگی ہوابازی کی تاریخ میں ایسا کارنامہ انجام دیا جو ناقابلِ یقین لگتا ہے۔ یہ نہ صرف پاک فضائیہ بلکہ پوری دنیا کی فضائی تاریخ کا وہ سنہرا لمحہ ہے جس کی گواہی آج بھی ریکارڈ بکس میں درج ہے۔

ایم ایم عالم کا وہ ناقابلِ فراموش لمحہ 7 ستمبر 1965ء کا دن تھا۔ جب وہ F-86 سیبر طیارے میں ہوا کے دوش پر دشمن کو خاک چٹانے نکلے۔ کہتے ہیں کہ اصل جنگ تو میدانِ کارزار میں سپاہی کے دماغ میں لڑی جاتی ہے، اور ایم ایم عالم جیسے شاہین کا ذہن بجلی کی سی تیزی رکھتا تھا۔ ایک پل میں فیصلہ، ایک لمحے میں وار اور دشمن کے عزائم ملیامیٹ ۔۔۔ محض 30 سیکنڈ میں پانچ بھارتی ہنٹر طیارے مار گرانا، کیا یہ کوئی عام واقعہ تھا؟ ہرگز نہیں! یہ مہارت، جرات، اور فولادی عزم کی وہ مثال تھی جسے تاریخ ہمیشہ سنہرے الفاظ میں لکھے گی۔ یہ وہی کارنامہ تھا جس نے ایم ایم عالم کو دنیا بھر کے جنگی ماہرین کے لیے ایک معمہ بنا دیا، اور جس پر آج بھی دفاعی تجزیہ کار حیران ہیں کہ اتنی تیزی اور مہارت کا راز کیا تھا؟

مگر ایم ایم عالم صرف ایک عظیم پائلٹ ہی نہیں تھے، وہ کردار کی عظمت کا مینار بھی تھے۔ عموماً ایسا ہوتا ہے کہ جنگی ہیرو فتح کے نشے میں اپنی عاجزی کھو بیٹھتے ہیں، مگر ایم ایم عالم کی آنکھوں میں ہمیشہ شکر گزاری اور خاکساری جھلکتی رہی۔ وہ علم و تدبر کے بھی شاہین تھے اور اپنی روحانی وابستگی کو ہمیشہ مقدم رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ محض ایک جنگجو نہیں بلکہ پاک فضائیہ کے وہ درخشاں ستارے تھے جن کی روشنی آج بھی ہر نوجوان پائلٹ کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ ان کی سادگی، ان کی دین داری، ان کی فرض شناسی—یہ سب اوصاف ان کی شخصیت کو ایک مکمل مسلمان اور سچے پاکستانی کی پہچان بناتے ہیں۔ ان کی خدمات کے صلے میں انہیں ستارۂ جرات سے نوازا گیا۔ مگر اصل اعزاز تو وہ مقام تھا جو انہیں قوم کے دلوں میں ملا۔ وہ نشانِ حوصلہ بھی تھے اور درسِ شجاعت بھی۔

آج، جب ہم ایم ایم عالم کی 12 ویں برسی منا رہے ہیں، تو یہ سوال اہم ہے کہ ہم نے ان کی یاد کو صرف رسمی تقاریب تک محدود کر دیا ہے یا ان کے کردار اور اصولوں کو اپنی زندگی کا حصہ بنایا ہے؟ ایم ایم عالم کی زندگی ہمیں سکھاتی ہے کہ اگر حوصلہ، یقین، اور مہارت ساتھ ہوں، تو بڑے سے بڑا معرکہ بھی سر کیا جا سکتا ہے۔ ان کی شخصیت ہمیں سکھاتی ہے کہ اصل کامیابی محض میدانِ جنگ میں نہیں، بلکہ اخلاق، کردار، اور تقویٰ کے ساتھ جینے میں ہے۔ وہ ہمیں یہ بھی سکھاتے ہیں کہ ملک کی سلامتی محض اسلحے سے نہیں، بلکہ ایمانی قوت، استقامت، اور دانش سے وابستہ ہے۔

18 مارچ 2013ء کو یہ عظیم شاہین اپنے رب کے حضور جا پہنچا، مگر اس کی پرواز آج بھی نوجوانوں کے عزم کو جلا بخش رہی ہے۔ وہ چلا گیا، مگر اس کی گرجتی ہوئی پرواز آج بھی ہمیں پکار رہی ہے: "اے ملت کے جوانو! عزم، جرات، اور ایمانی قوت کو تھامے رکھو، کیونکہ میدانِ عمل میں کامیابی انہی کے نصیب میں آتی ہے جو فولاد کے بنے ہوں!" مگر یاد رکھیے، تبدیلی راتوں رات نہیں آتی بلکہ وقت لگتا ہے۔

Comments

Avatar photo

ثمر عباس لنگاہ

ثمر عباس لنگاہ نویں جماعت کے طالب علم ہیں۔ مختلف اخبارات اور جرائد میں کالم اور مضامین شائع ہوتے ہیں۔ "ماہنامہ مرقع اردو ادب" کے چیف ایڈیٹر ہیں۔ صحافت اور ادب کے ذریعے معاشرتی اصلاح اور فکری بیداری کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔ احمد ندیم قاسمی ایوارڈ، اثاثہ ادب ایوارڈ، پہچان پاکستان ایوارڈ سمیت کئی اعزازات مل چکے ہیں۔

Click here to post a comment