یہ تذکرہ ہے ایک سال قبل کا. 8 اگست 2015ء بروز ہفتہ کو برازیل کے مایہ ناز قلم کار اور بین الاقوامی سطح پر ہاٹ کیک کی طرح بکنے والے ’’الکیمسٹ‘‘ ناول کےمصنف پائولوکوئلو نے اپنے فیس بک پیج پر قرآن مجید کے سرورق کی تصویر درج ذیل عنوان کےساتھ لگائی تھی.
Exhibition : Books that changed the world
(نمائش:کتابیں جنھوں نےدنیاکوبدل دیا)
اس پر کسی حبابی دقاق ( Hiba B Dakkak) نامی خاتون کا کمنٹ تھا
Really This book is the source of violence and murder.
(واقعی؟ یہ کتاب توتشدد اورقتل کاسبب ہے-)
جس پر پائولوکوئلو کا جواب تھا، جوگرامرکی اغلاط سے قطع نظرکرتے ہوئے جوں کاتوں پیش ہے،
Not true. I am Christian, and for centuries we tried to imposed our religion by the force of the sword - check ‘cruzades’ in the dictionary in defense of Islam. We murdered women - calling them witches, and we tried to stop science - like in the case of Galileu Galilei. So, it is not to blame a religion, but how people manipulate it.
(یہ صحیح نہیں ہے. میں عیسائی ہوں، کئی صدیوں تک ہم نے اپنا مذہب تلوار کی نوک پر مسلط کرنا چاہا. لغت میں اسلام سے مدافعت میں لفظ ’کروسیڈ‘ چیک کر لیجیے. ہم نےعورتوں کوقتل کیا ، انھیں چڑیلیں کہا، ہم نے سائنس کو روکنےکی کوشش کی جیسا کہ گیلیلیوگیلیلی کے ساتھ ہوا. اس لیے، مذہب کو الزام دینا مناسب نہیں ہے، بلکہ لوگوں کو الزام دیجیے جنھوں نے اسے مسخ کیا-)
اسے پڑھتے ہوئے اکبرالہ آبادی کی طنز کی کاٹ سے پر رباعی یاد آگئی. فرماگئے ہیں:
اپنے عیبوں کی نہ کچھ فکر ہے نہ پرواہ
غلط الزام بس اوروں پہ لگارکھا ہے
یہی فرماتے رہے تیغ سے پھیلا اسلام
یہ نہ ارشاد ہوا توپ سے کیا پھیلا ہے
صلیبیوں کی خوں آشام فطرت، لالچی طبیعت، تشنہ شہوت اور موقع پرست وحدت کو خود عیسائی مصنف (Werner Stark) کے قلم سے نکلی کتاب (God's Battalions: The Case for the Crusades) طشت ازبام کرتی ہے. یہ صلیبی درندے اس درجہ ذلیل تھے کہ خود اپنے ہم مذہبوں کےساتھ ان کا برتائو جانوروں سے بدتر تھا. کرسٹوفر (Christopher Hatch MacEvitt) نے صلیبیوں کے قبطی عیسائیوں سے کیے جانے والے ظالمانہ رویوں کو اپنی مشہور کتاب (The crusades and the christian world of the east rough tolerance) میں تفصیل سے قلمبند کیا ہے.
اسی طرح غور و فکر اور تدبر سے بھی اہل مغرب کو خدا واسطے کا بیر تھا. سائنس کےساتھ کلیسا کے رویے پر جے ڈبلیو ڈریپر (J.W. Draper) کی 1874ء میں کتاب ’’معرکہ مذہب وسائنس‘‘ (The Conflict Between Religion and Science) اس کےعلاوہ 1896ء میں کارنیل یونیورسٹی کے بانی اینڈریووائٹ ( Andrew White) کی ضخیم کتاب ’’سائنس اور مذہبیات میں جنگ وجدل کی تاریخ‘‘ ( History of the Warfare of Science with Theology) آشکار کرتی ہے.
جبکہ اسی دوران، جب مغرب میں سائنسی علوم کے لحاظ سے تاریک دور اور نسلی تفاخر کا دوردورہ ہوا کرتا تھا. اسلام کی رواداری اور علم دوست رویے کےمتعلق ایک ایرانی مصنف خامہ فرسائی کرتاہے:
’’اسلامی تمدن ایک ایسا تمدن تھا جس کا مرکز قرآن تھا. شام اور نہ عراق. وہ قرآن جس کی قلمرو میں کوئی سرزمین تھی اور نہ ہی کوئی نسل، نہ شرقی کی ضرورت تھی نہ غربی کی. مصر میں ایک خراسانی حکمراں تھا اور ہندوستان میں ایک ترک، غزالی بغداد میں بیٹھ کرفلسفہ پر اپنے خیالات قلم بند ک ررہے تھےاور ابن رشد اندلس میں اس کا جواب لکھ رہے تھے-‘‘ (فرہنگ تمدن اسلامی و جہان اسلام)
انہیں کوئی سمجھائے کہ میاں،
اٹھا کر ایڑیاں چلنے سے قد نہیں بڑھتا
مرے رقیب سے کہہ دو کہ اپنی حد میں رہے
تبصرہ لکھیے