علی سودانی کی تحریر عراقی اخبار ’’زمان‘‘ میں شائع ہوئی. طاہر علی بندیشہ نے دلیل کے لیے اس کا عربی سے اردو میں ترجمہ کیا ہے.
ایسے لوگ بھی ہمارے ہاں پائے جاتے ہیں جو عیسائیوں اور یہودیوں پہ کفر کے فتاوٰی کی یلغار کرتے نہیں تھکتے، ان کے قتل پہ اکساتے ہیں اور دشنام طرازی کرتے ہیں مگر بوقت ضرورت انہی کے ہاں سے کھانے پینے کی اشیاء، اسلحہ، دوائیں، جہاز، گاڑیاں، ریل گاڑیاں، بحری جہاز، ٹیلی فون، کمپیوٹر، ملبوسات، خوشبوئیں، اور دیگر اشیاء درآمد کرتے ہیں۔ حالانکہ وہ وہ زندگی میں جن نعمتوں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں وہ کفار کی دریافت شدہ اور ایجاد کردہ ہیں، جنہوں نے انسانیت کی بہتر طور پہ خدمت کرتے ہوئے ایسی ایجادات کیں کہ جن سے آج کے انسان کی زندگی بالکل آسان ہو کے رہ گئی ہے جیسے کہ بجلی، چھاپہ خانہ، موبائل، جدید آلات علاج، بلٹ پروف کاریں، انٹرنیٹ ، سیٹلائٹ اور ایسے ہی بہت سی ایجادات جو تعجب میں ڈالنے والی ہیں اور حیران کن ہیں ان کا انکار کرنا سراسر ناانصافی ہو گی۔
ان روکھے دنوں میں لوگ ایسے ہو گئے ہیں کہ وہ بکثرت کارل مارکس کا یہ جملہ استعمال کرنے لگے ہیں ملیے ایک ’’دین لوگوں کی افیون ہے‘‘. اگر موجودہ تناظر میں دیکھا جائے تو یہ جملہ اپنی کشش رکھتا ہے مگر یہ غصے اور مبالغے سے بھرے ہوئے ایک بیان سے زیادہ نہیں ہے اور اس میں سے قیاس کے مذہب کو یکسر نکال دیا گیا ہے۔ دینِ صحیح وہ ہے جو ستونوں پہ اکتفا کرے اور ایسی تفاصیل سے اجتناب برتا جائے جن میں شیطنیت اور فتنے کی چنگاری مخفی ہو۔ اللہ پاک لوگوں سے چاہتا ہے ’’نماز پڑھیں، روزے رکھیں، اور حسب استطاعت اس کی عبادت کریں۔‘‘ وہ لوگوں سے چاہتا ہے کہ ’’قتل نہ کریں، جھوٹ نہ بولیں، چوری نہ کریں، اور منافقت نہ کریں جو آج کا فیشن بن چکی ہے، پڑوسی کو تکلیف نہ پہنچائیں اگرچہ وہ ان کے دین یا عقیدے کا نہ ہو۔‘‘ مرحوم کارل مارکس کے کلام کی تصدیق کے لیے آئیے ہم بنظرِغائر اور کمال وضاحت سے دیکھتے ہیں کہ آج کا عراق روئے زمین پہ سب سے زیادہ مفسَد ( خراب) مملکت بن چکا ہے (ویسے ہمارے ہاں بھی بہت سےلکھاری ایسے ہی الفاظ وطن عزیز کے بارے میں زینت قرطاس بناتے رہتے ہیں، یہ تو بھلا ہو محترم عامر خاکوانی صاحب کا کہ انہوں نے ٹونی بازان کے حوالے سے ہمیں حوصلہ دیا کہ ابھی بھی کچھ لوگ ہیں جو دماغ کا صحیح استعمال کرتے ہوئے جوہر کی پہچان رکھتے ہیں. مترجم)، گندے انڈوں اور گھٹیا بدمعاشوں کی آماجگاہ کی صورت اختیار کر گیا ہے، اور لوگ اپنے گھروں میں خاموشی کی تصویر بنے گہری نیند میں سوئے ہوئے ہیں۔ اور اس کا سبب ان کا غبی پن، دینی گمراہی، بے حسی اور ابہام سے بھرے ہوئے دماغ ہیں جنہوں نے ان کی عقلوں اور دلوں پہ شدید ضرب لگائی ہے اور اس کے سبب عامۃ الناس بھی ان گندے انڈوں اور منافقوں کے سہولت کار شمار کیے جاتے ہیں ۔
لوگوں نے اپنے دین سے ہجرت کر لی ہے اور سنی، شیعہ اور دیگر فرقوں میں جا کے سکونت اختیار کر چکے ہیں۔ انھوں نے اللہ تعالی، نبی کریم صلى اللہ تعالی و علی الہ و سلم اور حسين شہید علیہ السلام سے جنگ کر لی ہے اور ان کے عظیم پیغام کو پسِ پشت ڈال دیا ہے۔ آسان قرآن کو چھوڑ کر قیل و قال کی طرف متوجہ ہوگئے ہیں۔ تفاسیر و تاویل کی بحث میں الجھ کے مزید قوی اور ضعیف، صحیح اور مجروح کی تکرار میں لگے ہوئے ہیں۔ لوگوں نے اپنے اپنے مجسمے بنا لیے ہیں اور ان کی پوجا میں مصروف ہیں جیسے کہ ’’ابن تیمیہ، محمد بن عبد الوہاب، خمینی، حکیم سیستانی، حسن البنّا، سید قطب، اسامہ بن لادن، خامنئی، خائری اور بغدادی۔‘‘ وہ نماز بھی پڑھتے ہیں، رکوع بھی کرتے ہیں اور بعد ازاں رشوت کا بازار بھی سجاتے ہیں اور قتل و غارت بھی کرتے ہیں۔ عنقریب انہیں دنیا کی آگ بھی کھائے گی اور ان کے لیے کوئی اور لائحہ عمل نہیں آئے گا یہانتک کہ انہیں آخرت کی آگ آ پہنچے گی۔ سو اے لوگو ! عقل پکڑو، اپنے دماغوں اور دلوں کو خوب پاک صاف کرو اور اپنے اللہ تعالی کے حکم، رحمت اور جوہر کی طرف لوٹ آؤ، بے شک وہ باقی رہنے والا ہے اور اسے موت نہیں آنی۔ نئی تماثیل فتنہ کی جڑ ہے اور یہ فکر تلخ مباحثہ کی طرف لے جاتی ہے۔ اوپر مذکور شدہ عالمین نے اپنے اپنے کلام، فتاوٰی اور وصایا کو مقدس روپ دے کے اس کی پیروی عوام کے لیے لازم کر رکھی ہے۔ اور عوام نے اپنی جہالت سے اس رویے کو اپنا کر اسے سچ کر دکھایا ہے اور یہ بڑھکتی ہوئی آگ کی صورت اختیار کر گئی ہے۔
تبصرہ لکھیے