زندگی کا ہر لمحہ، ہر تجربہ اور ہر واقعہ انسان کے ذہن میں سوالات پیدا کرتا ہے۔ یہ سوالات انسان کو سوچنے اور سمجھنے کی تحریک دیتے ہیں، اور انہیں اپنی زندگی کی حقیقتوں کی گہرائی تک پہنچنے کے لیے مجبور کرتے ہیں۔ مگر علم کی یہ جستجو اس وقت بے راہ روی اختیار کر لیتی ہے جب سوال تو اٹھائے جاتے ہیں مگر جوابات پر غور نہیں کیا جاتا۔ حقیقت کی گہرائی تک پہنچنے کے بجائے سطحی دلائل کو بنیاد بنا لیا جاتا ہے، اور جو چیز فوراً عقل میں نہ آئے، اسے رد کر دیا جاتا ہے۔
قرآن کریم میں ہمیں بار بار غور و فکر کرنے اور اہل علم سے سوالات پوچھنے کی ترغیب دی جاتی ہے، تاہم قرآن ہمیں یہ بھی بتاتا ہے کہ ہر سوال کا جواب محض عقلی اور مادی سطح پر نہیں ملتا بلکہ بعض اوقات ہمارے سوالات کے جوابات ہماری محدود عقل سے آگے نکل کر اللہ کی حکمت میں ملتے ہیں۔ سورہ إسراء کی آیت نمبر 9 میں ہے:إِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ يَهْدِي لِلَّتِي هِيَ أَقْوَمُ "بیشک یہ قرآن اُس راستے کی رہنمائی کرتا ہے جو سب سے زیادہ سیدھا ہے۔" (الاسراء: 9) یہ آیت ہمیں بتاتی ہے کہ سوالات کے جوابات صرف انسانی فکر سے نہیں ملتے بلکہ اللہ کی طرف سے ہدایت کی ضرورت ہوتی ہے، جو انسان کو ایک ایسی حقیقت تک پہنچاتی ہے جو مادی سطح سے ماوراء ہے۔
ایسے ہی سوالات میں سے ایک روح سے متعلق بھی ہے جیسا کہ آیت نمبر 85 میں ہے: "وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ ۚ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا "اور آپ سے روح کے بارے میں سوال کرتے ہیں، آپ کہیے کہ روح میرے رب کے حکم سے ہے اور تمہیں علم کم ہی دیا گیا ہے۔" (الاسراء: 85) یہ آیت اس بات کو بیان کرتی ہے کہ روح کی حقیقت کو سمجھنا انسان کے علم کی حدود سے باہر ہے۔ سائنس نے بےشمار ایجادات کی ہیں، کائنات کے راز کھولے ہیں، مگر آج بھی روح کی حقیقت اور انسانی زندگی کے بنیادی اسرار اس کے لیے معمہ ہیں۔ انسان کے علم کی یہ محدودیت خود اس کی حقیقت پر سوالیہ نشان لگا دیتی ہے۔ جب ہم اپنی زندگی کے چھوٹے چھوٹے معاملات میں بھی مکمل علم نہیں رکھتے، تو اللہ کے فیصلوں پر سوال اٹھانا اور ان کی حکمت کو نظرانداز کرنا کہاں کی دانشمندی ہے؟ انسان جس قدر بھی علم حاصل کرے، کچھ نہ کچھ ایسی حقیقتیں ہمیشہ باقی رہیں گی جنہیں وہ نہیں سمجھ سکتا، اور اس کے علم میں کمی رہ جائے گی۔ اللہ کی حکمت اور مشیت سے ہی انسان کو ان سوالات کے جوابات مل سکتے ہیں۔
سورہ کہف میں مذکور چاروں واقعات اسی ذہنیت کو مخاطب کرتے ہیں جو ہر چیز کی عقلی توجیہ چاہتی ہے، بالخصوص حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام کا واقعہ اس کی بہترین مثال ہے، جس میں سوالات اور ان کے جوابات کے ذریعے ایک ایسا راز کھلتا ہے جو انسان کی محدود عقل سے ماوراء ہے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام جو ایک جلیل القدر پیغمبر اور بنی اسرائیل کے سب سے بڑے عالم تھے، جب حضرت خضر علیہ السلام کے ساتھ گئے تو وہ تین واقعات دیکھ کر حیران رہ گئے:
1. کشتی میں سوراخ کرنا: بظاہر یہ ایک غلط عمل لگتا تھا، مگر حقیقت میں یہ ماہی گیروں کی کشتی کو ظالم بادشاہ کے قبضے سے بچانے کے لیے تھا۔
2. نوجوان کا قتل: انہیں شدید دھچکا لگا کہ بے گناہ کو قتل کر دیا، مگر دراصل یہ نوجوان مستقبل میں والدین کے لیے بڑی آزمائش اور گمراہی کا سبب بننے والا تھا، اور اللہ نے ان کے لیے بہتر متبادل مقدر کر رکھا تھا۔
3. دیوار کی مرمت: حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حیرانی ہوئی کہ حضرت خضر علیہ السلام نے بغیر کسی معاوضے کے دیوار کی مرمت کر دی، مگر حقیقت میں یہ ایک یتیم بچوں کے خزانے کی حفاظت کا ذریعہ تھا۔
یہ تینوں واقعات درحقیقت الہامی علم اور تجرباتی علم کے درمیان فرق کو واضح کرتے ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام ہر بار جلدی میں سوال کر بیٹھے، مگر جب آخر میں حضرت خضر علیہ السلام نے ان معاملات کی اصل حقیقت واضح کی، تو معلوم ہوا کہ جو چیز بظاہر غلط نظر آ رہی تھی، وہی درحقیقت اللہ کی طرف سے ایک بڑی مصلحت پر مبنی تھی۔
آج کے سائنسی دور میں بھی اسی طرح کے اعتراضات کیے جاتے ہیں۔ سائنسی ذہن یہ سوال اتھاتا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے، تو وہ نقصان دہ چیزوں کو ہونے ہی کیوں دیتا ہے؟ اگر اللہ عادل ہے، تو ظالموں کو فوراً سزا کیوں نہیں دیتا؟ مگر ان اعتراضات میں ایک بنیادی غلطی ہے، یہ حقیقت کو صرف سطحی طور پر دیکھنے کی عادت ہے۔
یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی شخص امتحان کے دوران یہ اعتراض کرے کہ استاد جانتا ہے کہ کچھ طلبہ ناکام ہوں گے، تو وہ امتحان لینے سے باز کیوں نہیں آتا؟ مگر ہم سب جانتے ہیں کہ یہ امتحان ہی کامیاب اور ناکام کو الگ کرنے کا ذریعہ ہے۔ اسی طرح، ایک ڈاکٹر جب ایک بچے کو ویکسین دیتا ہے تو وہ چیختا ہے، روتا ہے، اور سمجھ نہیں پاتا کہ یہ تکلیف اس کے حق میں بہتر ہے۔ اگر بچے کو فیصلہ کرنے کا اختیار دے دیا جائے تو وہ کبھی ویکسین نہ لگوائے، مگر ڈاکٹر کی حکمت اس کے مستقبل کی حفاظت کر رہی ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ بھی کائنات کا سب سے بڑا حکیم اور علیم ہے۔ وہ جانتا ہے کہ کس چیز کا ہونا بہتر ہے اور کس چیز کو مؤخر کرنا مصلحت پر مبنی ہے۔ مگر انسان، جو وقتی نقصان کو ہی اصل نقصان سمجھتا ہے، اللہ کے فیصلوں پر اعتراض کرنے لگتا ہے۔
سورہ کہف اور سورہ بنی اسرائیل ہمیں سکھاتی ہیں کہ سوالات کرنا غلط نہیں، مگر ان کے جوابات پر غور کرنا بھی ضروری ہے۔ آج کا انسان بس سوال اٹھانے کو اپنا حق سمجھتا ہے، مگر جوابات پر غور کرنے سے بھاگتا ہے۔ حضرت موسیٰؑ اور حضرت خضرؑ کا واقعہ یہی سکھاتا ہے کہ ہر حقیقت فوری طور پر نہیں سمجھی جا سکتی، بلکہ اس کے پیچھے حکمت کو دیکھنے کے لیے صبر، غور و فکر اور علم درکار ہوتا ہے۔ آج کے سائنس زدہ ذہنوں تک یہ پیغام پہنچانا ضروری ہے تاکہ وہ قرآن کو محض اعتراض کی نظر سے نہ دیکھیں، بلکہ اس کی روشنی میں اپنی عقل کو بھی پرکھیں۔
تبصرہ لکھیے