کیا آپ کسی سول سرونٹ سے مل سکتے ہیں؟ ہاں مل سکتے ہیں۔ اگر دفتر میں نہ ملیں تو ان کے یوٹیوب چینل اور فیس بک پیج پر ان سے ملاقات ہوسکتی ہے۔ اگر ان دونوں جگہوں پر بھی نہ مل پائیں تو ( دفتری اوقات میں ہی) تقسیم انعامات کی کسی تقریب میں ان سے ملاقات ہوسکتی ہے۔ ان سے ملاقات کی چوتھی سبیل یہ ہے کہ سی ایس ایس کی تیاری کرانے والی کسی اکیڈمی میں چلے جائیے۔
ان سے ملاقات کے چار ممکنہ مواقع میں سے تین ایسے ہیں جہاں یہ آپ کو مقابلے کا امتحان پاس کرنے کے طریقے بتاتے نظر آتے ہیں۔ صاحب بہادر سب سے پہلے آپ کو یہ بتائیں گے کہ انگریزی پر اتنا زور دیں کہ شیکسپیئر بھی آپ کے سامنے پانی بھرتا نظر آۓ۔ اس کے بعد منہ ٹیڑھا کرکے دو تین ایسی کتابوں, جن کا امتحان سے کوئی تعلق نہیں ہوگا, کے نام بتائیں گے۔ اس کے بعد کچھ ایسی کتابوں کے نام بتائیں گے جن کا مقصد وحید صرف اور صرف یہ ہوگا کہ کسی ناشر کی کچھ کتب فروخت ہوجائیں۔ اس کے بعد مضامین کا انتخاب کریں۔ اگر آپ پنجابی پڑھنا چاہتے ہیں تو آپ پر لازم ہے کہ کلاسیکی اور جدید پنجابی شعراء کا کلام ازبر کریں۔ ڈھولے, ٹپے, ماہیے, گدے, بولیاں, لوریاں سب کچھ ازبر کرلیں۔ پنجابی نثر سے بھی آگاہی رکھیں۔ اگر آپ عمرانیات پڑھنا چاہتے ہیں تو آپ کو بخوبی علم ہونا چاہیے کہ معاشرے کی ساخت کیا ہے؟ معاشرہ کس ارتقاٸی عمل سےگزرتا ہے؟ معاشرتی تغیرات کیوں کر نمودار ہوتے ہیں؟ معاشرہ کیوں بگاڑ اور انحراف کا شکار ہوتا ہے؟ اپنے جوابات کو مدلل بنانے کے لیے مغربی ماہرین عمرانیات کے اقوال کا حوالہ ضرور دیں۔ اسی طرح برصغیر پاک و ہند کی تاریخ کے لیے چندرگپتا اور اشوکا سے لے کر مودی اور شہباز شریف تک تمام تاریخ ازبر ہو۔ بیرونی حملوں کے اسباب پر گہری نظر ہو۔ اور سلاطین دہلی اور مغلوں کے ادوار حکومت میں نظم و نسق کیسا تھا؟ ثقافتی ترقی کی کیا ہیئت تھی؟ اس سماج کی اقتصادی حالت کیسی تھی؟ یہ سب آپ کے علم میں ہونا چاہیے۔ اور امتحان میں یہ سب کچھ انگریزی میں لکھنا ہے۔ اور آٸی ایچ قریشی, ایس ایم اکرام, ڈاکٹر اشوری پرساد, ایل پی شرما اور سٹینلے لین پول کے حوالے دینا مت بھولیں۔
اسی طرح بین الاقوامی تعلقات کے پرچے کے لیے تھوسی ڈائیڈذ سے لے کر ہنری کسنجر تک تمام دانش وروں کی دانش وری آپ کی انگلیوں کی پوروں پر ہونی چاہیے۔ بیسویں صدی کے آغاز سے وار آن ٹیرر تک تمام واقعات ازبر کرلیں۔ سائنس کے پرچے کے لیے موسموں کے تغیر, شمس و قمر کی گردش, ابر و باراں, نباتات کی نمو, بارشوں, آندھیوں , طوفانوں, سیلابوں اور زلزلوں کے ساٸنسی اسباب ذہن نشین کرلیں۔زمین کی ساخت, ماحول, فضائی آلودگی, گلیشیئر کے بننے اور پگھلنے کے عمل سمیت تمام سائنسی مظاہر کی وجوہات حفظ کرلیں۔ اسی طرح کم از کم پچاس کثیرالمقاصد اقوال زریں یاد کرلیں اور بوقت ضرورت ان کا تڑکا بھی لگائیں۔ دنیا کی تاریخ, سیاست, بین الاقوامی تعلقات, ادب ,سماجی علوم, فلسفہ اور سائنس کی مجوزہ کتب لے کر رہبانیت اختیار کرلیں۔ خود کو کسی کمرے میں بند کرلیں اور کم از کم ایک سال تک ترک دنیا اختیار کیے رکھیں۔
مقابلے کے امتحان میں کامیاب ہونے والے اپنی طویل جدوجہد اسی طرح بیان کرتے ہیں اور اس امتحان میں شرکت کرنے والے امیدواروں کو سخت محنت کی تلقین کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ حالانکہ جس طریقے پر عمل کرکے ایک امیدوار کامیاب ہوا ہے، لازم نہیں کہ دوسرا بھی اسی طریقے پر عمل کرکے کامیاب ہوجاۓ۔ افسر شاہی کے کرنے کا اصل کام یوٹیوب اور فیس بک پر بڑھکیں مارنا نہیں ہے۔ مقابلے کے امتحان میں کامیابی کے بعد یہ امر غیرمتعلق ہوجاتا ہے کہ امتحان کس طرح پاس کیا۔ اس میں محنت, رٹے اور قسمت کا کتنا عمل دخل تھا۔ امتحان کے بعد افسر شاہی کے کرنے کا اصل کام ملک کا انتظامی ڈھانچہ سنبھالنا ہے۔ لوگوں کے لیے سہولتیں پیدا کرنا، سروس ڈیلیوری کو آسان بنانا اور گڈگورننس میں معاون بننا ہے۔ یہ سول سرونٹ یعنی عوام کے خادم ہیں۔ لیکن ان کا عملی رویہ ان کی مذکورہ ذمہ داریوں کے برعکس ہے۔ اس لیے یہ ملک کا نظام ٹھیک کرنے کے بجاۓ اس میں تخریب پیدا کر رہے ہیں۔ لوگوں کے لیے سہولتیں پیدا کرنے کے بجاۓ, رکاوٹیں کھڑی کر رہے ہیں۔ گڈ گورننس کے بجاۓ بیڈ گورننس کے آلہ کار ہیں اور عوام کے خادم کے بجاٸے ان کے آقا بن گئے ہیں۔
عوام اور ان کے خادموں میں ایک خلیج حائل ہے۔ ان کے قانون کا تازیانہ صرف عام آدمی پر برستا ہے۔ چالان بھی عام آدمی کا ہوتا ہے۔ تجاوزات کے خلاف آپریشن کے نام پر بھی عام آدمی ہی زیر عتاب آتا ہے۔ دکان بھی عام آدمی کی ہی سیل ہوتی ہے۔ اشرافیہ کے مفادات وہ سرخ لکیر ہیں جسے افسر شاہی عبور نہیں کرسکتی۔ ان کالے انگریزوں کا قہر صرف ریڑھی بانوں, سبزی فروشوں اور خوانچہ فروشوں پر برستا ہے۔ یہ اتنے طاقت ور ہیں کہ اپنے دفتر سے 45 کلو میٹر ایک چھابڑی فروش کا احتساب کرلیتے ہیں لیکن اپنی ناک کے نیچے ہونے والی بدعنوانی اور رشوت ستانی نہیں روکتے۔ اب دو ہی باتیں ہیں۔ یا تو رشوت میں ان کا بھی حصہ ہوتا ہے۔ دوسرا امکان یہ ہے کہ یہ اتنے نااہل ہیں کہ ایک دفتر کا نظام نہیں چلاسکتے۔
کالے انگریزوں کے زیر انتظام چلنے والے تمام ادارے خسارے میں ہیں۔ نظم و نسق بہتر بنانے کے لیے یہ نہ صرف پاکستان بل کہ بیرون ملک سے بھی تربیتی کورسز کرتے ہیں۔ اس کے برعکس نجی شعبے میں کام کرنے والے لوگ جو اپنی قابلیت کی بڑھکیں بھی نہیں مارتے, انگریزی تحریر و تقریر میں شیکسپئر کو مات دینے کا دعوی بھی نہیں کرتے, انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا ازبر ہونے کی لاف بھی نہیں مارتے, اپنی کمپنیز کو خسارے میں نہیں جانے دیتے بلکہ انھیں نفع بخش بناتے ہیں۔ اس کے برعکس نوآبادیاتی نظام کی باقیات افسر شاہی اپنی ہی جاری کردہ ریٹ لسٹ پر عمل نہیں کراسکتی۔ ڈپٹی کمشنر کے دست خط کے ساتھ جاری ہونے والی اس لسٹ کی لا حاصل مشق باقاعدگی سے ہوتی ہے۔ چھوٹے دکان داروں کے لیے جرمانے, چالان, ہتھکڑیاں اور تعزیر۔ اور جس تاجر سے چھوٹا دکان دار اشیاء خریدتا ہے, اس کے لیے عملا کوئی قانون نہیں۔
قومی وسائل پر قابض اور ٹھاٹھ باٹھ سے رہنے والے یہ افسرشاہی ذخیرہ اندوزی پر بھی قابو نہیں پاتی۔ ناجائز منافع خوری بھی نہیں روکتی۔ جرائم کی بیخ کنی بھی نہیں کرتی۔ گراں فروشوں کو بھی لگام نہیں ڈالتی۔ انہیں کوئی بتاۓ کہ یہ عوام کے خادم ہیں آقا نہیں اور ان کا مقصد اپنی انگریزی کی بڑھکیں مارنا نہیں ہے، بلکہ انتظامی امور کی انجام دہی ہے۔
تبصرہ لکھیے