ہوم << بلوچستان پر مشرف و علی گیلانی کی نو ک جھونک - افتخار گیلانی

بلوچستان پر مشرف و علی گیلانی کی نو ک جھونک - افتخار گیلانی

بلوچستان کے ضلع بولان میں کوئٹہ سے پشاور جانے والی جعفر ایکسپریس پر کالعدم تنظیم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے جس طرح حملہ کرکے ٹرین کو مسافروں سمیت یرغمال بنالیا، اور پھر اس کے بعد فوجی آپریشن میں گو کہ بیشتر مسافروں کو بازیاب کرا لیا گیا، مگر اس واقعے سے پتہ چلتا ہے کہ بلوچستان کا معاملہ پاکستان اور اس خطے کےلیے کتنا سنگین ایشو بن گیا ہے۔

پاکستان کے کسی بھی واقعہ کی بازگشت چونکہ بالواسطہ طور پر کشمیر میں سنائی دیتی ہے، اس لیے ان واقعات کے تئیں وہاں فکر مند ی لازمی ہے۔

ان میں سے ایک کہانی اپریل 2005ء کی ہے۔پاکستان کے اس وقت کے صدر پرویز مشرف کے دورہ دہلی کا اعلان ہوچکا تھا۔ چونکہ امن کوششیں عروج پر تھیں، بھارتی حکومت اور دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن دورہ کو کامیاب بنانے کی ہر ممکن کوششیں کررہے تھے۔ انھی دنوں اس وقت دہلی میں پاکستان کے ڈپٹی ہائی کمشنر مرحوم منور سعید بھٹی نے مجھے فون کیا۔ بھٹی صاحب وضع داری، رواداری اور معاملات کو سلجھانے کے حوالے سے ابھی تک دہلی میں ڈیوٹی دے چکے، پاکستان کے مقبول ترین سفارت کاررہے ہیں۔فون پر انھوں نے ملاقات کی خواہش ظاہر کی۔ طے ہوا کہ سفارتی علاقہ چانکیہ پوری میں ہی ایک ریستوراں میں چائے نوش کریں گے۔

چونکہ مشرف کی آمد آمد تھی، میری رگ صحافت بھی پھڑک رہی تھی، کہ چلو مشرف کی آمد کےحوالے سے کوئی چٹ پٹی خبر بھی مل جائے گی۔مشرف کے آنے کی کوئی بھی خبر ،چاہے اس کا دریا گنج میں نہر والی حویلی جانے کا پروگرام ہو یا نظام الدین درگاہ پر حاضری، صفحہ اول کی زینت بن جاتی تھی۔

مگر ریستوراں میں سیٹ پر بیٹھتے ہی، بھٹی صاحب مجھے بلوچستان کی تاریخ اور شورش کا پس منظر سمجھانے لگے۔ میں حیران تھا کہ آخر اس کا مجھ سے کیا لینا دینا ہے۔ کچھ منٹ کے بعد وہ مدعا زبان پر لائے۔ کہنے لگے کہ کیا میں گیلانی صاحب کو آمادہ کرواسکوں گاکہ مشرف کے ساتھ ملاقات میں وہ بلوچستان کے مسائل کا تذکرہ نہ کریں؟ صدر پاکستان اپنے دورہ کے دوران کشمیری رہنماؤں سے ملاقات کرنے والے تھے۔

میں نے معذرت کی کہ گیلانی صاحب کی سیاست میں میرا کوئی عمل دخل نہیں ہے اور نہ ہی میں ان کو کوئی مشورہ دینے کی حیثیت رکھتا ہوں۔گیلانی صاحب نے سرینگر میں بلوچستان میں فوجی آپریشن کے خلاف بیانات داغے تھے اور نواب اکبر بگٹی کے ساتھ افہام و تفہیم سے معاملات حل کرنے کا مشورہ دیا تھا۔بھٹی صاحب کا کہنا تھا کہ کشمیری رہنماؤں اورخصوصاً گیلانی صاحب کا پاکستان کی چوٹی لیڈرشپ سے ملاقات کا موقع ملنا ناممکنات میں سے ہے، اور یہ ایک نایاب موقع ہےکہ کشمیر میں تحریک کو درپیش مسائل سے صدر پاکستان کو، جو ملٹری لیڈر بھی تھے، باور کراکر انھیں فی الفور حل بھی کروایا جائے؛ چنانچہ میں معذرت کرکے رخصت ہوگیا۔

مگر ان کی اس بات سے کہ کشمیر کے اپنے مسائل کچھ کم نہیں ہیں، جو کوئی کشمیری رہنما، صدر پاکستان کے ساتھ بلوچستان کا درد بھی سمیٹنے بیٹھے، تھوڑا بہت مجھے بھی اتفاق کرنا پڑا۔مگر یہ بھی مجھے معلوم تھا کہ میں اس ایشو پر گیلانی صاحب کے ساتھ بات نہیں کر پاوٗں گا۔ اگلی رات کو ڈنر پر میں نے بس یونہی اپنی اہلیہ کو بتایا کہ تمھارے والد (گیلانی صاحب) کیوں ہر کسی کے ساتھ لڑائی مول لیتے ہیں۔ پاکستان ہی واحد ملک ہے، جو ان کی تحریک کی عملی اعانت کرتا ہے، وہ ان سے بھی جھگڑا مول لے رہے ہیں۔

مشرف دہلی آچکے تھے۔ گیلانی صاحب بھی اپنے ساتھیوں کے ساتھ سرینگر سے وارد ہوچکے تھے ۔ اگلے روز صبح سویرے میں ناشتہ کرتے ہوئے اخبارات کی ورق گردانی کر رہا تھا کہ گھنٹی کی آواز آئی۔ دروازہ کھول کر دیکھا تو سامنے گیلانی صاحب کھڑے تھے۔ بیٹھتے ہی سلام کا جواب دے کر انھوں نے مسکرا کر کہا،’’ کہ اپنے دوست اور محسن کو یہ کہنا کہ اپنے گھر کاخیال رکھو، اور اس کو کو فتوں سے خبردار کرانا آخرکیوں کر سفارتی آداب کے منافی ہے؟‘‘ اتنا تو معلوم ہو اکہ میری اہلیہ نے ان کو میری گذارشات کے بارے میں بتایا تھا۔ انھوں نے بس اتنا کہا کہ آپ کو بھی کسی نے اپروچ کیا تھا۔ یہ تو معلوم ہوگیا کہ دیگر ذرائع سے بھی ان کو اپروچ کیا گیا تھا کہ بلوچستان کے ایشو کو لیکر مشرف کے ساتھ الجھنے کی کوشش نہ کریں۔ مجھے لگا کہ وہ شاید متفق ہو گئے تھے کہ گفتگو کشمیر تک ہی مرکوز رکھیں گے۔

بہر حال دوپہر 4 بجے لیاقت علی خان کی دہلی کی رہائش گاہ اور موجودہ پاکستان ہاؤس میں ان کی میٹنگ مشرف کے ساتھ طے تھی۔ چونکہ اس کے فورا بعد ہی رہائش گاہ کے بیک لان میں دہلی کی اشرافیہ اور سینئر صحافیوں کے ساتھ مشرف کی چائے پر نشست تھی، اس لیے میں بھی دیگر میڈیا کے افراد کے ساتھ وہاں موجود تھا۔ گیلانی صاحب کی میٹنگ شاید بیس منٹ تک ہی جاری رہی، اور میں نے دیکھا کہ منور بھٹی اور دیگر افراد جو میٹنگ سے نکل کر لان کی طرف آرہے تھے، ان کی منہ لٹکے ہوئے تھے۔

بعد میں معلوم ہوا کہ طاقت کے نشے میں سرشار مشرف نے ان کے وفد میں شامل دیگر اراکین سے ہاتھ ملانے سے انکار کیا۔ کرسیوں پر بیٹھنے سے قبل ہی گیلانی صاحب نے دوٹوک الفاظ میں مشرف سے کہا،”کہ یہ داڑھی والا نوجوان (نور احمد)، جو میرے ساتھ ہے، پوسٹ گریجویٹ ہے۔ آپ کے ہاتھ میلے نہیں ہوں گے۔ “ اس ” والہانہ“ استقبال کے بعد مشرف نے خود ہی چھوٹتے ہی کہا،”گیلانی صاحب آپ آئے د ن بلوچستان کے معاملات میں ٹانگ اڑاتے رہتے ہیں۔ آخر آپ کو وہاں کی صورت حال کے بارے میں کیا پتہ ہے؟ آپ بلوچستان کی فکر کرنا چھوڑیں۔“

بقول ان افراد کے، جو اس میٹنگ میں شریک تھے، مشرف نے ایک تو خود ہی بلوچستان کا ذکر چھیڑا، اور بزرگ کشمیری رہنما کی توہین کرنے کی بھر پور کوشش کی۔ ان افراد کے مطابق گیلانی صاحب نے جواب دیا کہ کشمیر کاز پاکستان کی بقا سے منسلک ہے۔ اس کے رکھ رکھاؤ، اس کی سلامتی اور اس کی نظریاتی سرحدوں کے تحفظ کی ان کو فکر ہے۔

اس کے بعد مشرف نے اپنے فارمولہ کی مخالفت کرنے پر ان کو آڑے ہاتھوں لیا۔گیلانی صاحب نے ان کو ان کی افغان پالیسی اور امریکہ کی مدد سے اپنے شہریوں کو قتل کروانے پر بھی آڑے ہاتھوں لیا، اور کہا کہ تحریکوں میں شارٹ کٹ کی گنجائش نہیں ہوتی۔ 20منٹ کی یہ میٹنگ اس طرح کی’’خیر سگالی“ پر ختم ہوئی۔ مشرف نے ان سے کہا کہ ’’آپ ہماری اپوزیشن کی بولی بولتے ہیں‘‘۔

معلوم ہو اکہ پاکستان جاتے ہوئے بھی مشرف غصے سے شرابور ہو رہے تھے۔ ایوان صدر پہنچ کر انھوں نے میڈیا کے خاص خاص افراد کو بلاکر اپنا غبار نکال کر یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ گیلانی جیسے لوگ ان کو آگے بڑھنے نہیں دیتے ہیں۔ پھر شیخ رشید کی مداخلت سے صدر کے ان إرشادات کو عوام میں آنے سے روک دیا گیا۔ واپسی پر مشرف کے حکم پر پاکستان میں ان کے دفاتر بند کر دیے گئے۔ سرینگر راج باغ میں بھی ان کو اپنا دفتر بند کرنا پڑا۔

ایک سال بعد اکبر بگٹی کو جب ایک غار میں ہلاک کیا گیا، تووہ سخت نالاں تھے۔اس کا ذکر بعد میں2011ء میں دہلی میں انھوں نے اس وقت کی پاکستان کی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر کے ساتھ بھی کیا۔

چونکہ میرا بھی خیال تھا کہ مشرف فارمولہ سے کم سے کم لائن آف کنٹرول کو کھول کر عوام کو کسی حد تک راحت اور ان کا احساس اسیری دور کیا جاسکتا ہے، میں نے ایک بار ان کو قائل کرنے کی کوشش کی۔ مگر ان کا جواب تھا کہ”اگر یہ حل قابل عمل ہے تو اس کو لاگو کرنے کے لیے سید علی گیلانی کا آن بورڈ ہونا کیوں ضروری ہے؟ اگر یہ کامیاب ہوتا ہے، تو میں خود ہی سیاسی طور پر بے وزن و بے وقعت ہو جاؤں گا، اور اگر بھارت آمادہ ہے تو مشرف کے بجائے اس کے لیڈران اس کا اعلان کرکے اس کا کریڈیٹ خود کیوں نہیں لیتے ہیں۔‘‘

Comments

Avatar photo

افتخار گیلانی

افتخار گیلانی برصغیر کے معروف صحافی ہیں۔ سیاست اور خارجہ پالیسی جیسے موضوعات کی رپورٹنگ کرنے کا تین دہائیوں کا تجربہ ہے۔ ہندوستان کے بہت سے صحافتی اداروں میں ادارتی ذمہ داریوں کے علاوہ ترکی کی نیوزایجنسی انادولو اور جرمن ادارے ڈوئچے ویلے کےلیے کام کر چکے ہیں۔ ان کے کالم پاکستان اور ہندوستان کے کئی اخبارات میں چھپتے ہیں اور بڑے پیمانے پر سراہے جاتے ہیں۔ کئی میڈیا ایوارڈ حاصل کیے ہیں۔ تہاڑ کے شب و روز نامی کتاب کے مصنف ہیں۔

Click here to post a comment