انسان اپنی زندگی میں جو بھی کرتا ہے وہ اپنے ماحول سے سیکھ کر کرتا ہے۔ یہ بات بھی درست ہے کہ اس کے جینیات کا بھی اس پر اثر ہوتا ہے لیکن جینیات کے اس اثر کا اظہار انسان کس صورت میں کرےگا، اس کے لیے اس کو ماحول کا مشاہدہ کرنا ہوتا ہے اور سب سے اہم چیز ماحول ہی ہے جو کہ ایکٹولی انسان کے رویہ، جذبات، اخلاقیات اور باقی چیزوں کو ایک خاص شکل دیتا ہے۔
پس منظر
پچھلی صدی کی پانچویں دہائی تک سیکھنے کے حوالے سے بعض لوگوں کا تصور Behaviorism تھا، یعنی کہ انسان اپنے تجربات سے سیکھتا ہے، اگر اس کا ایک کام کا تجربہ اچھا رہا یا فایدہ مند رہا تو وہ اس کام میں پختہ ہو جاتا ہے، اور اگر اس کا ایک کام کا تجربہ منفی رہا یا نقصان دہ رہا تو وہ اس کام کو چھوڑ دیتا ہے اور اس سے بیزار ہو جاتا ہے۔ اسی طرح کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ نہیں انسان سب کچھ تجربات سے نہیں سیکھتا ہے بلکہ Cognitivism سے بھی سیکھتا ہے، یعنی کہ جیسے جیسے وہ بڑا ہوتا ہے تو اس کی اندرونی دماغی صلاحیتوں اور باقی چیزوں کی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے، اور وہ اس کی روشنی میں سیکھتا ہے۔
Social learning Theory سال 1960 کے آس پاس مشہور نفسیات دان البرٹ بنڈورا نے ایک نظریہ پیش کیا ہے جسے Social learning theory کہتے ہیں۔ اس نظریہ نے پہلے سے موجود نظریات کے درمیان پل کا کام کیا ہے اور ایک واضح اور بہتر ماڈل پیش کیا ہے۔ بندورا کے مطابق انسان صرف اپنے تجربات سے نہیں سیکھتا ہے، بلکہ وہ ماحول سے بھی سیکھتا ہے۔ بندورا کے مطابق انسان اپنے مشاہدات سے بھی اپنے اندر بہت ساری عادات کو پیدا کرتا ہے جو کہ وہ اپنے ماحول میں ہوتا ہوا دیکھتا ہے۔ سال 1977 میں اس نے باقاعدہ اس ماڈل کو پیش کیا کہ انسان کیسے سیکھتا ہے۔
نظریہ کے مراحل
البرٹ بنڈورا کے مطابق کسی بھی چیز کو سیکھنے کے لیے انسان پانچ مراحل سے گزرتا ہے۔
مشاہدہ/Observation
پہلے مرحلہ میں وہ مختلف چیزوں کا مشاہدہ کرتا ہے۔ آس پاس کے لوگ، معاشرہ، میڈیا، غرض اس کو دستیاب ہر چیز کا ہی وہ مشاہدہ کرتا ہے۔
توجہ/ Attention
انسان کے کسی چیز کو سیکھنے یا اس میں کسی عادت کے پیدا ہونے کے لیے دوسرے مرحلے میں انسان کو باہر کی کسی چیز پر اپنا بھرپور Focus کرنا ہوتا ہے، یعنی کہ اسے توجہ سے دیکھنا ہوتا ہے۔ اب صرف مشاہدہ نہیں بلکہ اس چیز پر بھرپور توجہ درکار ہے۔
ماڈل
انسان جس چیز کو غور سے دیکھتا ہے اور جس کی حرکات و سکنات کو توجہ دیتا ہے اسے ماڈل کہا جاتا ہے۔ یہ ماڈل کوئی زندہ لوگ ہو سکتے ہیں ، کسی کی ہدایات ہو سکتی ہے یا کتابیں وغیرہ بھی ہو سکتی ہیں جس کو انسان پڑھتا ہے۔ ایک بچے کے لیے یہ ماڈل اکثر اس کے والدین، بہن بھائی، اساتذہ اور رشتے دار ہو سکتے ہیں، اور بڑوں کے لیے یہ ماڈل اداکار ، کھلاڑی ، کامیاب لوگ ، مذہبی لوگ ، امیر لوگ، یا کوئی بھی اور ایسا انسان ہو سکتا ہے جو اس کو پسند ہوتا ہے۔ اسی طرح کتابیں، فلمیں اور میڈیا میں موجود لوگ اور چیزیں بھی کسی کے لیے ماڈل ہو سکتے ہیں۔
یادداشت/Memorization
تیسرے مرحلہ میں انسان ان چیزوں کو اپنے دماغ میں سٹور کرتا ہے،اور انھیں یاد کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ جو اس نے دیکھی ہے کہ وہ کیا تھے یا کیسے کیے گئے تھے وغیرہ وغیرہ . مثال کے طور پر اگر بچہ دیکھتا ہے کہ اس کی ماں کھانا پکا رہی ہے تو وہ کھانا پکانے کے عمل میں ہونے والی چیزوں کو اپنے دماغ اور یادداشت میں محفوظ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
نقل/ Imitation/Reproduction
چوتھے مرحلہ میں انسان ان چیزوں کو خود سے کرنے کی کوشش کرتا ہے جو اس نے ماحول میں دیکھی ہیں اور دماغ (یادداشت) میں محفوظ کی ہیں۔ وہ اپنے پسندیدہ ماڈل (جو کوئی بھی ہو سکتا ہے) کی نقل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ وہ اس میں شاید اس ماڈل کی طرح کامیاب نہ ہو ،لیکن وہ اپنی سی کوشش ضرور کرتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک بچہ ویراٹ کوہلی یا بابر اعظم کی کور ڈرائیو دیکھتا ہے تو اسے اپنے دماغ میں محفوظ کرتا ہے اور پھر اس کو کھیلنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ ممکن ہے کہ وہ اسے کھیلنے میں کامیاب ہو جائیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ اسے نہ کھیل سکیں۔
جزا و سزا/ Motivation
بنڈورا کے مطابق اس آخری مرحلہ میں انسان دیکھتا ہے کہ اس کام کو کرنے کا اسے کیا فائدہ یا نقصان ملا ہے اور یہ یا تو اس عادت کو چھڑائے گی یا مزید پختہ کرے گی۔
اندرونی و بیرونی خوشی یا فائدہ
اب یہ فائدہ اور نقصان اندرونی بھی ہو سکتا ہے کہ وہ کام کو کرنے کے بعد کیا اس کو سکون اطمینان یا خوشی ملی ہے، یا اس کے برعکس ہوا ہے؟ اور اسی طرح یہ فائدہ اور نقصان بیرونی بھی ہو سکتا ہے کہ یہ کام کرنے کے بعد اس کو کتنا معاشی یا معاشرتی فائدہ یا نقصان ہوا ہے، یعنی کہ اس کی تعریف کی گئی ہے یا تنقید ، یا اس کو مالی فائدہ ملا ہے یا نہیں ملا ہے وغیرہ وغیرہ۔ ان ساری چیزوں کو دیکھنے کے بعد وہ فیصلہ کرتا ہے کہ اب یہ کام دوبارہ کرنا ہے یا نہیں کرنا ہے۔ اگر اس کے خیال میں اسے فائدہ مل رہا ہے تو وہ یہ کام بار بار کرتا ہے، یہاں تک کہ اس کی عادت بن جاتی ہے، اور اگر اس کو لگتا ہے کہ اس کام سے اسے نقصان ہے تو وہ اس کام کو چھوڑ دیتا ہے۔
مثالیں
مثال کے طور پر اگر ایک بچے کی ایک خاص کام میں تعریف کی جائے تو وہ اس کام کو بار بار کرتا ہے، کیونکہ یہ اس کے لیے اندرونی خوشی کا سبب ہے اور رفتہ رفتہ وہ اس کی عادت بن جاتی ہے۔ اسی طرح اگر اس کو انعام دیا جائے تو بھی اس پر یہی اثر ہوتا ہے کہ یہ اس کی بیرونی خوشی کا سبب ہے، اور پھر ایسی منفی چیز میں بھی وہ پختہ ہو جاتا ہے۔ اسی طرح اگر ایک بچہ کو امتحان میں نقل فراہم کر دی جائے تو وہ اس کو استعمال کر کے اپنا فائدہ دیکھتا ہے اور وہ پھر نقل میں ہی پختہ ہو سکتا ہے۔ اسی طرح اگر ایک انسان ماڈل کو دیکھ کر پہلی بار شراب پیتا ہے، اور اس کے والد اس کی ٹھکائی کر دیتا ہے تو اس کا دوبارہ اس کے قریب جانے کا امکان کم ہو جائے گا۔
کیا یہ وضاحت کافی ہے؟؟
جی نہیں یہ کافی نہیں ہے، اسی وجہ سے بنڈورا نے ایک اور تھیوری بھی پیش کی ہے جو سیکھنے کے عمل کی مزید بہترین اور وسیع وضاحت پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔
Reciprocal Determinism
اس کے مطابق انسان اگرچہ مشاہدہ سے سیکھتا ہے لیکن وہ صرف مشاہدہ سے نہیں سیکھتا ہے بلکہ سیکھنے کے عمل کے دوران تین چیزیں آپس میں ایک دوسرے پر لگاتار اثرانداز ہوتی ہے جس کے تعامل کے نتیجے میں انسان ایک چیز کو اپنی عادت بناتا ہے یا اس کو اختیار کرتا ہے۔
اگر ان چیزوں میں سے کسی میں ایک بھی مسئلہ ہے تو یہ انسان کے سیکھنے کے عمل کو بہت شدید طریقہ سے متاثر کرتا ہے اور انسان صحیح سے نہیں سیکھ پاتا ہے یا اس عمل کو کرنا چھوڑ دیتا ہے۔ ان چیزوں میں مندرجہ ذیل چیزیں شامل ہیں۔
ذاتی خیالات
مثلاً انسان اپنے آپ کے بارے میں کیا سوچتا ہے؟ اس کی اپنے سے توقعات کیا ہیں؟ وہ معاشرہ میں کس طریقہ سے رہنا پسند کرتا ہے؟ اس کو اپنے اوپر کتنا بھروسہ ہے؟ اس میں ایک Self efficacy یعنی خود پر بھروسہ ہونا بہت اہم ہے۔ مثال کے طور پر اگر ایک کوئی انسان ویراٹ اور بابر کی کور ڈرائیو کو پسند تو کرتا ہے لیکن اسے لگتا ہے کہ میں یہ کام نہیں کر سکتا ہوں تو اس کا یقین ہی غلط ہے اور اس کو اپنے اوپر اعتبار ہی نہیں ہے تو وہ پھر کر بھی نہیں پائے گا، سو انسان کے سیکھنے کے عمل میں اس کے لیے اپنے پرسنل خیالات یعنی کہ Mental Approach درست کرنا بھی ضروری ہے۔
انسانی رویہ
اسی طرح انسان کا رویہ اور Behaviour کا بھی سیکھنے کی طرف درست ہونا ضروری ہے وگرنہ وہ کسی چیز کو بھی سیکھ نہیں پائے گا۔ اس میں اس کی Skills اور پریکٹس وغیرہ شامل ہے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی شخص ویراٹ کوہلی یا بابر اعظم کی طرح کور ڈرائیو تو لگانا چاہتا ہے لیکن اس کے پاس اس چیز کی Skills نہیں ہے اور وہ اس کی پریکٹس بھی نہیں کرتا ہے تو وہ کبھی بھی یہ نہیں کر پائے گا۔
ماحول اور معاشرت
اسی طرح انسان کا ماحول بھی اس پر اثرانداز ہوتا ہے کہ وہ ایک کام کو کرے گا یا نہیں کرے گا کیونکہ انسان تنہا نہیں بلکہ ایک معاشرہ میں رہتا ہے۔ معاشرے یا ماحول کی چیزوں میں وہاں کی ثقافت ، رسم و رواج ، مذہب ، لوگوں کے خیالات اور اس طرح کی چیزیں آتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر ایک لڑکی کسی بالی ووڈ ماڈل اداکارہ یا ڈانسر کی Dressing sense کو دیکھ کر اس سے متاثر بھی ہے تو وہ لڑکی پاکستانی معاشرے میں ایسی چیز نہیں پہن سکتی ہے کیونکہ وہ یہاں معاشرتی لحاظ سے Approved نہیں ہے۔
نتیجہ
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کسی چیز کو مشاہدہ سے جاننے کے بعد انسان کے معاشرتی حالات ، ذاتی خیالات اور رویہ کے تعامل سے ہی انسان اس چیز کو سیکھ سکتا ہے یا اس کو اپنی عادت بنا سکتا ہے۔
پسند و ناپسند کے تین ذرائع
اس سےبہت اچھی طرح یہ واضح ہوتا ہے کہ انسان تقریباً سب کچھ ہی تین اہم ذرائع سے سیکھتا ہے اور وہ چیزیں تربیت ، معاشرت اور مذہب ہے۔ انسان اپنے گھر سے ملی ہوئی تربیت اور معاشرتی ماحول سمیت اس کو دی گئی یا اس کی پڑھی ہوئی مختلف مذہبی تعلیمات کے تعامل سے اپنے عادات و اطوار کو بناتا اور سنوارتا ہے۔ اس کے علاوہ اس ڈسکرپشن سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ انسان کے عادات و اطوار مکمل طور پر اس کے اندر سے نہیں آتے ہیں بلکہ یہ معاشرے اور مذہب کی پیداوار ہے۔
"ذاتی" کچھ نہیں ہے
انسان کے عادات و اطوار اور پسند و ناپسند پر اس کے والد اور والدہ سمیت معاشرہ ، مذہب اور ثقافت باقاعدہ اثرانداز ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ انسان کے پاس جو کچھ ہے، یعنی کہ اس کی پسند و ناپسند اور عادات و اطوار وہ سب کے سب اس کے "مکمل طور پر ذاتی" نہیں ہیں، بلکہ اس کو ملے ہوئے ہیں۔
کیا حجاب چوائس ہے؟
حجاب و نقاب پہننا مکمل طور پر ذاتی فیصلہ نہیں ہے، بلکہ یہ آپ اپنے معاشرے اور مذہب کی روشنی میں ہوئی تربیت کی وجہ سے پہنتے ہیں، سو اس کو مکمل جینوئن Choice نہیں کہا جا سکتا ہے۔
کیا حجاب نہ کرنا چوائس ہے؟
حجاب نہ کرنا یا چھوٹا اور تنگ لباس پہننا بھی مکمل طور پر ذاتی فیصلہ نہیں ہے، بلکہ آپ اپنے معاشرے یا میڈیا کے پریشر کی وجہ سے ہی ایسا کرتے ہیں، سو اس کو بھی مکمل جینوئن Choice نہیں کہا جا سکتا ہے۔
کیا حجاب کرنے کا پریشر ہے؟
جی حجاب کرنے کا آپ پر اپنے والدین کی وجہ سے یا آپ کے معاشرے اور مذہب کی وجہ سے پریشر موجود رہتا ہے، اور آپ اس کو Subconsciously یا Unconsciously محسوس بھی کرتے ہیں، اور ان کو اور معاشرے کو خوش کرنے کے لیے ہی اور ان سے Validation لینے کے لیے ہی آپ حجاب کرتے ہیں۔یہ ممکن ہے کہ آپ کے لیے حجاب اتنا نارمل بن چکا ہو کہ آپ کو محسوس ہوتا ہو کہ یہ آپ اپنی مرضی سے کر رہے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس میں آپ پر پریشر بہرحال موجود ہے۔
کیا حجاب نہ کرنے کا پریشر ہے؟
جی حجاب نہ کرنے یا چھوٹا اور تنگ لباس پہننے پر بھی آپ پر اپنے ماڈل یعنی کہ معاشرے کا پریشر موجود ہوتا ہے، اور آپ اس کو بھی Subconsciously یا Unconsciously محسوس کرتے ہیں، اور ان کو اور معاشرے کو خوش کرنے کے لیے ہی اور ان سے Validation لینے کے لیے ہی آپ ایسا کرتے ہیں۔
ثبوت
حجاب و نقاب کی بات تو ہر کوئی ہی مانے گا کیونکہ مذہبی خواتین خود ہی یہ کہتی ہیں کہ یہ میرے لیے خدا کا حکم ہے، سو اس کے پریشر کے موجود ہونے میں تو کوئی بھی دو رائے نہیں ہے۔ جہاں تک بات ہے حجاب نہ کرنے کی اور چھوٹے کپڑے پہننے کی، تو وہ بھی عورت کی مکمل آزادانہ خواہش نہیں ہے بلکہ اس پر بھی ایک پریشر ہے جس کی وجہ سے وہ ایسا کرتی ہے۔ اس حوالے سے امریکہ کی نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی کی ایک خاتون نفسیات دان Renee Engeln مکمل ایک کتاب لکھ چکی ہے جس کا نام Beauty Sick ہے۔ اس کتاب میں حقائق کی روشنی میں عورت پر اپنے بدن اور کپڑوں کے حوالے سے پریشر کا باقاعدہ تذکرہ موجود ہے۔ اس کا لنک بھی ریفرنس میں موجود ہے۔ باقی عورت پر پریشر ہونے کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ ہزاروں لاکھوں خواتین اپنے جنسی حسن کو بڑھانے کے لیے موت تک لے جانے والی سرجریاں بھی کرتی ہیں، اور موجودہ دور میں اکثر خواتین کو ٹینشن اور ڈیپریشن اپنے بدن کی وجہ سے ہی ہے، سو ظاہر ہے کہ اس کا مطلب یہی ہے کہ ان پر اپنے جنسی حسن کو بڑھانے کا پریشر بہرحال موجود ہے۔
کولہے بڑھانا
سال 2023 کے دوران تقریباً 7 لاکھ 71 ہزار عورتوں نے اپنے کولہے بڑھانے کے لیے Brazilian Butt Lift سرجری پرفارم کی ہے۔ اس سرجری کو Fat Transfer to the Buttocks سرجری بھی کہا جاتا ہے۔ اس سرجری میں انسان کے پیٹ اور باقی بدن سے غیر ضروری چربی یعنی کہ Fats کو ایک خاص طریقہ سے Remove کر دیا جاتا ہے اور پھر اس کو اچھے والے Fats میں تبدیل کرنے کے بعد کولہوں میں یعنی کہ Buttocks والی جگہ پر دوبارہ سے Graft کر دیا جاتا ہے تاکہ انسان کے کولہے یعنی کہ Buttocks بڑے ہو جائیں۔ اس عمل میں ہر سال کے دوران بہت سارے لوگوں کی موت ہوتی ہے۔
چھاتیاں بڑھانا
اس طرح 2023 میں تقریباً 28 لاکھ خواتین نے اپنی چھاتی کو بڑا کرنے ، انھیں پرکشش بنانے کے لیے مختلف سرجریاں جیسے Breast lift اورBreast Augmentation وغیرہ کرائی ہے۔ ایک سروے کی طرف سے دیے گئے ڈیٹا کے مطابق 2009 سے 2022 کے درمیان 93 امریکی شہریوں کی صرف ڈومینیکن ریپبلک (جو ایسی سرجریوں کے لیے مشہور ہے) میں مختلف ایسی کاسمیٹکس سرجریوں کی وجہ سے موت ہوئی ہے۔
متفرق
یہ تو صرف موٹا اور بڑا بڑا حساب ہے، اور صرف ایک ملک کا ہی ہے۔ پوری دنیا میں سال 2023 میں تقریباً ساڑھے 3 کروڑ ایسی سرجری یا نان سرجیکل Interventionist ہوچکی ہیں، جس کا مقصد محض خوبصورتی میں اضافہ کرنا ہے۔ان میں اس کے علاوہ باقی بدن جیسے چہرے، ہونٹوں اور کمر وغیرہ کو خوبصورت اور پرکشش بنانا بھی شامل ہے۔ یہ یاد رہے کہ اس میں کاسمیٹکس اور ایسے کپڑے جو عورت کی جنسی خوبصورتی کو مزید واضح کریں، شامل نہیں ہیں، وہ اس سے الگ ہے۔ ان سب کے باوجود Higher Expectations کی وجہ سے 1985 میں امریکہ میں 69 سے 84 فیصد خواتین اپنے بدن سے خوش نہیں تھیں، اور تازہ تحقیق کے مطابق دنیا میں 97 فیصد تک خواتین اپنے بدن سے خوش نہیں ہیں، اور یہ چیز ڈیپریشن کی بڑی وجوہات میں سے ایک ہے۔ ان سب باتوں سے یہ اچھی طرح واضح ہوتا ہے کہ حجاب نہ کرنے والی عورت پر بھی معاشرتی پریشر اچھا خاصا موجود ہوتا ہے اور یہ ایک حقیقت ہے۔
مدعے کی بات
میں نے شروع میں لکھا ہے کہ البرٹ بنڈورا کے مطابق انسان ماحول سے سیکھتے وقت اپنے لیے ایک ماڈل کو منتخب کرتا ہے۔ سو اس ساری بحث سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ حجاب کرنے والیوں کے لیے ماڈل "مذہب کی تعلیمات" ہے، اور حجاب نہ کرنے والیوں یا چھوٹا لباس پہننے والیوں کے لیے اس حوالے سے ماڈل کوئی "بالی ووڈ یا ہالی ووڈ" اداکارہ ہے، سو یہ دونوں ہی اپنے ماڈل کو فالو کر رہے ہیں سو ان میں فی نفسہ کوئی جبر اور کوئی آزاد نہیں ہے۔
جبر اور پریشر میں فرق
یاد رہے کہ جبر اور پریشر میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ جبر میں آپ بزور طاقت ایک خاص قسم کی چیز کو زبردستی کرنے پر مجبور کرتے ہیں، لیکن پریشر میں آپ ایسا کچھ بھی نہیں کرتے ہیں، بلکہ صرف خاص نظام تخلیق کرتے ہیں کہ جہاں ایک چیز کو دوسری چیز سے زیادہ اچھا اور صحیح سمجھا جاتا ہے، اور ایسا اکثر میڈیا کے استعمال ، مال و دولت کے استعمال ، ایڈورٹائزمنٹ کے استعمال اور ثقافتی روایات یا مذہبی تعلیمات کے ذریعے سے ہی ہوتا ہے۔
جبر اور پریشر صحیح یا غلط
جبر ایک غلط چیز ہے جس کی مذہب کوئی بھی اجازت نہیں دیتا ہے، اور نہ ہی لبرل نظام اس کی اجازت دیتا ہے لیکن پریشر قائم کرنا ایک قدرتی چیز ہے، اور اس وجہ سے ایڈورٹائزمنٹ و میڈیا اور تبلیغ سے ایک قسم کا پریشر قائم کرنے یا پیدا کرنے کی لبرلزم اور مذہب دونوں میں گنجائش ہے۔ مذہب کی اصولی تعلیمات کسی بھی قسم کے زور زبردستی کے بجائے بہترین اور مذہبی ماحول کو پیدا کرنے کی تلقین و تاکید کرتی ہیں، اور لبرل نظام اگرچہ کسی بات کی تلقین تو نہیں کرتا ہے لیکن میڈیا کے فری استعمال (ڈرامے، فلمیں اور ایڈورٹائزمنٹ) سے کچھ خاص قسم کے عناصر کو لوگوں کو ایک خاص قسم کے رجحان (Trend) تک لے جانے کی اجازت ضرور دیتا ہے۔
کیا حجاب جبر ہے؟
حجاب و نقاب کرنا کوئی جبر نہیں ہے اور نہ ہی اس کے جبر ہونے کے کوئی ثبوت ہیں۔ آج تک کسی مولوی یا مفتی کی بیوی، بیٹی یا بہن گھر سے بھاگ کر میڈیا میں نہیں آئی ہوگی کہ مجھ پر زبردستی ہو رہی ہے، اور نہ ہی مولویوں کے گھر میں خواتین کا خودکشیاں کرنا کوئی معمول کی بات ہے کہ جس سے ہمیں پتہ چلے کہ وہ مجبور تھی (بہت ہی کم ایسے کیسز ہوں گے)، ہاں حجاب کا پریشر ضرور موجود ہے لیکن وہ ایک غلط چیز نہیں ہے، جب تک کہ وہ جبر نہ بنے اور پریشر تو حجاب نہ کرنے والیوں پر بھی موجود ہے۔
اہم ترین نکتہ
اگر حجاب جبر ہوتا تو جن ممالک میں خواتین پر حجاب نہ کرنے کا جبر ہے، وہ وہاں حجاب کے لیے عدالتوں تک کیوں جا رہی ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ مذہبی خواتین اس کو اپنے لیے جبر نہیں سمجھتی ہیں بلکہ اس کو پسند کرتی ہیں اور اس حد تک پسند کرتی ہیں کہ اس کے لیے عدالت تک جا سکتی ہیں۔
شدت پسندی کی جھلک
اگر آپ کو حجاب جبر لگتا ہے تو یہ آپ کی شدت پسندی یا مذہب بیزاری ہے، کہ چونکہ آپ کو "مذہبی ماڈل" پسند نہیں ہے اور کوئی اور قسم کا "ماڈل" پسند ہے، سو آپ مذہبی ماڈل کو دوسروں کے لیے بھی جبر بول رہے ہیں، حالانکہ خود ان لوگوں کو یعنی مذہبیوں کو اس سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ باقی اگر ہم آپ کے اصولوں پر چلیں کہ پریشر ہی جبر ہے تو پھر خواتین کا کم لباس پہننا بھی جبر کا نتیجہ ہے کیونکہ وہ بھی پریشر ہی ہے (الزامی جواب)۔
تحریر میں موجود ڈیٹا کے ریفرنسز
Hudson M, Matos JA, Alvarez B, et al. Deaths of U.S. Citizens Undergoing Cosmetic Surgery — Dominican Republic, 2009–2022. MMWR Morb Mortal Wkly Rep 2024;73:62–65. DOI: http://dx.doi.org/10.15585/mmwr.mm7303a3
Runfola, C. D., Von Holle, A., Trace, S. E., Brownley, K. A., Hofmeier, S. M., Gagne, D. A., & Bulik, C. M. (2013). Body dissatisfaction in women across the lifespan: Results of the UNC-SELF and Gender and Body Image (GABI) studies. European Eating Disorders Review, 21(1), 52–59. https://doi.org/10.1002/erv.2201
https://www.cbsnews.com/news/survey-97-percent-of-women-have-negative-body-image/
https://www.isaps.org/media/rxnfqibn/isaps-global-survey_2023.pdf
https://archive.org/details/beautysickhowcul0000enge
عبید
تبصرہ لکھیے