ہیں کیا کہہ رہے ہو بھائی، یہ کب ہوا ؟ وقاص فون پر زور زور سے کارخانے کے ورکر سے بات کر رہا تھا، اور خاصا پریشان دکھائی دے رہا تھا. منیبه سارے کام چھوڑ کر اسی طرف آگئی اور یکطرفہ آواز سن کر بات کو سمجھنے کی کوشش کرنے لگی. وقاص بیتابی سے ٹہلنے لگا تھا. تکلیف سے آنکھیں سرخ ہونے لگی تھیں. کچھ عرصه پہلے ہی تو کارخانے نے بزنس پکڑنا شروع کیا تھا ،ورنہ اس سے پہلے تو صرف محنت، وقت اور مال لگتا ہی چلا جارہا تھا. آئیڈیا وقاص کا ہی تھا کہ چار دوست مل جل کر سائیڈ بزنس کریں، تو پہلے سب کا پیسے جمع کرنا، اسے جوڑ کر مختلف مشینیں خریدنا، ورکرز خام مال، مناسب جگہ کا انتظام کرنا اور کلائنٹس ڈھونڈنا، مارکیٹنگ کرنا، غرض کہ بڑھتی مہنگائی اورمستقبل قریب میں اولادوں کے تعلیمی اخراجات پورے کرنے کی بہترین پلاننگ کے ساتھ رزق حلال کی تگ و دو میں یہ چاروں پارٹنرز ایک عرصے تک مسلسل کھپتے رہے تھے.
منیبه کا ذہن تیزی سے کام کر رہا تھا لیکن وہ یہیں تک پہنچ سکا کہ کوئی ڈیل کینسل ہو گئی ہو گی، وقاص کا لہجہ اب مدھم ہوتا جارہا تھا "تو پولیس میں رپورٹ کی ؟ بندہ بچ گیا ؟ ہسپتال لے کر جاؤ اسے، میں باقی پارٹنرز کو بھی اطلاع دیتا ہوں،جاؤ یار کچھ نہیں ہوسکتا اب ".
فون رکھ کر وقاص سر پکڑ کر بیٹھ گیا . منیبه کی ہمت نہیں ہو رہی تھی کہ اس سے پوچھے کہ آخر ہوا کیا ہے؟ وقاص نے اپنے موبائل سے کوئی نمبر دیکھا اور لینڈ لائن سے ملانے لگا. منیبه دم سادھے کان لگاۓ بیٹھی رہی کہ اب جس پارٹنر سے بات کرے گا، یہ بھی سن اور سمجھ سکے گی …. لیکن یہ کیا، وقاص نے ایمیگریشن لائیر کو فون کیا تھا اور اس سے باز پرس کر رہا تھا کہ امریکہ کی ایمیگریشن کا کیا بنا،اور پھر بری طرح اس بیچارے پر برس پڑا، "تم لوگ اتنی اتنی فیس کس لیے لیتے ہو! میرا پیسہ حرام کا نہیں ہے ،سنا تم نے، اگر نہیں کرسکتے کام تو مجھے میرے کاغذات فائلیں سب واپس کرو، میں خود کر لوں گا سب کچھ ،اب مجھے اس ملک میں نہیں رہنا، جہاں وڈیروں لٹیروں کے ہاتھ میں قانون ہو اور محنتی انسان کا مستقبل ان کے ہاتھوں کھلونا بن کر رہ جاۓ ".....فون پٹخا اور پارٹنر کو فون ملایا. منیبه کو سمجھ آگیا کہ وہ اس سے بات اس لیے نہیں کر رہا کہ کہیں رو کر کمزور نہ دکھائی دے. وہ کچن کی طرف چلی گئی لیکن کان وہیں پر تھے. وقاص کی رندھی ہوئی آواز آرہی تھی " شاکر بھائی! یار میں ٹوٹ گیا ہوں، ہمارا کاروبار آن کی آن میں زیرو ہو گیا ہے. حنیف کا فون آیا تھا کہ کارخانے پر رات کے وقت ایک بڑا سا ٹرک آیا ہے،کچھ لوگ اترے جو وڈیرے کے کارندے تھے ، ان سب نے چوکیدار کو اسی کے لحاف میں لپیٹ کر خوب مارا اور باندھ کر ایک طرف ڈال کر کارخانے کی ساری مشینیں،خام مال، تیار مال، ہر چیز لاد کر لے گۓ ہیں. حنیف اپنی ڈیوٹی پر پہنچا ہے تو ….نہیں یار آپ آکر کیا کر لیں گے ،باقیوں کو بتا دیں، مجھ میں ہمت نہیں."
---------------
ردا کے میاں آفتاب اپنے والدین کے بہت فرمانبردار بیٹے تھے ،وہ بیوی سے بھی بہت پیار کرتے،ساتھ ہی اپنے بھائی بہنوں پر بھی جان نثار کرتے تھے ۔جس طرح اپنے بچوں کے لیے ان کا ہاتھ کھلا تھا، اسی طرح بھائی بہنوں ان کے بچوں کے لیے بھی۔ یہ الگ بات ہے کہ بہن بھائی کافی زیادہ خود غرض اور لاپرواہ واقع ہوئے تھے۔
آفتاب اول تو ماں باپ کو کسی بھائی بہن کے گھر پہ آسانی سے جانے بھی نہ دیتے، کیونکہ جب جب وہ ان کے گھر رہنے جاتے، دونوں ہی کی صحت متاثر ہو جایا کرتی ۔ دوسری جانب بہن بھائیوں کی جانب سے اکثر یہ شکوہ بھی سننے کو ملتا کہ امی ابا آفتاب بھائی کے بچوں کو ہمارے بچوں سے زیادہ پیار کرتے ہیں، اسی لیے تو ہمارے گھر ان کا دل نہیں لگتا. حالانکہ حقیقت یہ تھی کہ وہ ان کی اس طرح سے دیکھ بھال نہیں کرتے تھے، جس طرح سے ردا کیا کرتی تھی، اسی لیے ان کی مستقل رہائش آفتاب ہی کے گھر تھی. اس وجہ سے ردا اور بھی زیادہ مصروف رہتی تھی، کیونکہ بزرگ جس گھر میں بھی ہوں، وہاں پر ملنے ملانے والوں کا آنا جانا لگا رہتا ہے، اور جو آتا ہے وہ اپنے حصے کا رزق لے کر آتا ہے، اس لیے اتنے زیادہ اخراجات کے باوجود بھی ردا کو تنگی کا احساس کبھی نہ ہوا، نہ دلی طور پر،نہ جذباتی طور پر، نہ مالی طور پر ۔
ساس سسر کا ساتھ شروع میں تو ردا کو بہت عجیب سا لگتا تھا کیونکہ اس کی ساس اس کے کاموں میں بہت زیادہ مین میخ نکالا کرتی تھیں، اور اپنی بیٹی سے بھی بیجا موازنہ کیا کرتی تھیں، لیکن ردا نے آخر کار اپنی خدمت اور خلوص کے ساتھ ان کا دل جیت لیا تھا، اور دوسرا یہ کہ ان کو بھی شاید اندازہ ہو گیا تھا کہ ان کی بیٹی اپنے شوہر کو خوش کرنے اور اپنے بچوں کی پرورش میں اتنا زیادہ وقت لگاتی ہے کہ اس وجہ سے والدین کا دھیان نہیں رکھ پاتی، تو پھر ان کا دل بھی اللہ تعالی نے آفتاب کے گھر میں لگا دیا ۔
ردا کو ساس سسر کے ساتھ رہنے میں دوسرا بڑا فائدہ یہ بھی ہوا کہ جب اس کے پے در پے بچے ہوئے، کتنی ہی بار ڈاکٹر کے وزٹ ہوتے، ہاسپٹل میں رکنا پڑ جاتا تو پیچھے ساس ہی تو بچوں کی دیکھ بھال کرنے کو موجود ہوتی تھیں، گو کہ وہ کام کاج میں بالکل بھی ہاتھ نہیں بٹاتی تھیں، لیکن جز وقتی ملازمہ کے آنے جانے، کام کرنے پر نظر رکھنا، بچوں کو گرم کھانا نکال کر دے دینا ،یہ بھی چند دن بہت بڑی مدد ہو جایا کرتی تھی.
ردا کے سسر عابد صاحب ایک فرشتہ صفت انسان تھے ،نمازپڑھتے توشروع سے پوتے پوتیوں کو آواز دیتے ،وہ ایک اواز میں لپک کر آتے اور اپنے دادا جان کے ساتھ نماز پڑھنا شروع کر دیتے. اکثر وہ تہجد میں بھی اٹھ جایا کرتے، اور اب کافی دن سے تو ان کی یہ کوشش تھی کہ اس عادت کو پختہ کر لیں تو اپنے سونے جاگنے کے اوقات کا بہت زیادہ خیال کرنے لگے۔ آج بھی جب ردا بچوں کو ہوم ورک جلدی نہ کرنےپر ڈانٹ رہی تھی تواس کے سسر بیچ بچاؤ کروانے کے لیے اسی طرف آ گئے، اورردا کو روکا "ارے بٹیا چھوٹے چھوٹے سے بچے ہیں اور ابھی مہینہ پہلے تو اسکول واپس کھلے ہیں، گرمیوں کی چھٹیوں میں عادت ہی کہاں رہ جاتی ہے بچوں کو اتنا پڑھنے کی" پھر چونک کر کہنے لگے" دیکھو تو ذرا ! کل ہی ایسا لگتا ہے کہ سال شروع ہوا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے نو مہینے بھی گزر گئے بلکہ شاید نو دس دن اس ماہ کے بھی کم ہو چکے ہیں ، کیا تاریخ ہو گئی آج " ….. وہ یہ بات کر ہی رہے تھے کہ اچانک سے ردا کا بڑا بیٹا دوڑتا ہوا آیا اور چلاتے ہوئے دادا کو کھینچنے لگا "ٹی وی پہ خبریں سنیں دادا جان! ادھر آئیں ،جلدی آئیں" ،یہ لوگ بھاگتے ہوئے وہاں پہنچے تو خبرچل رہی تھی کہ ٹوئین ٹاورزسے جہاز ٹکرا گئے ہیں اور دونوں عمارتیں ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہو رہی ہیں، ردا نے ساس کو آواز دی تو وہ بوکھلا کر لاؤنج میں آئیں. ہر چینل پر ہی یہ خبر مسلسل چل رہی تھی. شروع کے چند منٹ تو ہر ایک سکتے کے عالم میں اپنی جگہ کھڑا رہا، پھر جیسے جیسے یہ بات جذب ہوتی گئی سب بیٹھتے گئے.
عابد صاحب کی حالت سوگوار سی ہو گئی تھی، پوتی نے جلدی سےانھیں پانی لاکر پلایا، بیگم نے پوچھا "اے جی آپ کا بلڈ پریشر تو نہیں بڑھ گیا ہے گا. اے ردا رنگ دیکھو ذرا ان کا."ردا نے کہا "ابا فون کر کے ڈاکٹر کو بلاؤں " انھوں نے مختصر جواب دیا "نہیں" بیگم ان کے ہاتھ سہلاتے ہوئے بولیں "اے چھوڑیں بھئی بہت پیسے والا ملک ہے گا، پھر بنا لے گا بلڈنگیں" .
عابد صاحب پژمردہ انداز میں بولے "یہ تو ہو ہی جائے گا، لیکن میں بہت دور تک دیکھ رہا ہوں، بیگم یہ تباہی بہت دور تک پھیلے گی. یہ ان کی عزت پر حملہ تصور کیا جاۓ گا اور پھر یہ بدلہ لیں گے، اور شاید اب وہی دور شروع ہونے والا ہے … فتنے برسنے والے ہیں ….شاید لڑی ٹوٹ چکی ہے." یہ کہتے ہوئے وہ صوفے پر نیم دراز ہو گئے۔
۔ آفتاب کو فون کیا گیا، وہ گاڑی دوڑاتا ہوا گھر پہنچا ،محلے کے ڈاکٹر کو ساتھ ہی لیتا آیا تھا. بہرحال بلڈ پریشر ان کااتنا برا نہیں تھا ، بس وہ بہت زیادہ اداس ہو گئے تھے. خبریں تواتر سے چل رہی تھیں. آفتاب نے ٹی وی بند کیا اور بچوں کی طرف دیکھ کر کہا کہ" اب ٹی وی کوئی نہیں چلائے گا، اور ابا آپ بہت زیادہ ہی دل پر لے رہے ہیں یہ بات، ایسا کچھ بھی نہیں ہے جو آپ سوچ رہے ہیں، جو چیز ہوئی نہیں ہے اس کے لیے آپ کیوں پریشان ہو رہے ہیں." لیکن ان کا کہنا یہی تھا " میں بہت دور تک دیکھ رہا ہوں." اور پھر ہوا بھی یہی ۔
ٹی وی کتنے عرصے بند رہتا. وہ اطلاع بھی آگئی کہ مسلم ملک پر حملہ شروع ہو گیا ہے، اور ان کے اپنے اسلامی ملک نے اس کی سہولت مہیا کر دی ہے، جس سے وہ اور بھی دکھی ہو گئے. وہ بہت بے چین بیٹھے تھے تو ردا نے کہا : " ابا آپ ایسا کریں کہ تھوڑی دیر سو جائیں، پھر رات تہجد میں اٹھ کر سب کے لیے دعا کیجیے گا" ۔ وہ سونا تو نہیں چاہتے تھے، لیکن آفتاب نے زبردستی لائٹ وغیرہ بند کر کے اور دوسرے کمرے میں بچوں کو خاموش کروا کےانہیں سونے کے لیے بھیج دیا۔
رات کسی وقت گلاس گرنے کی آوازآئی تو آفتاب ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا ، بھاگ کر والد کو آواز دیتے ہوئے کمرے کی لائٹ جلائی توسمجھ آیا کہ شاید وہ پانی پینا چاہ رہے تھے مگر گلاس گر گیا تھا،والدہ بھی جاگ چکی تھیں ،ردا کی بھی آنکھ کھل گئی تھی اور چندھیائی آنکھوں سے ڈائری سے ڈاکٹر کا نمبر تلاش کر رہی تھی،آفتاب پر گھبراہٹ غالب آ چکی تھی کیونکہ عابد صاحب کی طبیعت بالکل ٹھیک نہیں لگ رہی تھی. وہ بھاگ کر لاؤنج میں گیا اور بھائی کو فون ملایا کہ اتنے میں امی کے زور سے چیخنے کی آواز آئی " اے آفتاب دیکھو تو ،تمھارے ابا کو کیا ہو رہا ہے گا! دوسرے بیٹے نے فون پر ماں کی آواز سن لی تھی، اس نے بہن کو فون کیا کہ تمھیں لینے آرہا ہوں، ابا کی طبیعت بگڑ گئی ہے ،رات کے وقت سڑکیں خالی ملیں، وہ جلد ہی وہاں پہنچ گۓ. امی زار و قطار رو رہی تھیں ،ڈاکٹر پہنچ چکا تھا لیکن اب اس کے ہاتھ میں علاج دکھائی نہ دیتا تھا. عابد صاحب ذرا سے ہوش میں آئے، کلمہ پڑھا اور دیکھتے ہی دیکھتے دار فانی سے کوچ کر گئے۔
ان کے جنازے پردنیا حیران تھی کہ شاید یہ بھی شہید ہی ہوئے ہوں، کیونکہ جب کوئی مسلمان خلوص نیت سے اپنے لیے شہادت کی دعائیں کرتا ر ہے،پھر کبھی میدان جنگ میں جانے کا موقع نہ ملے اور گھر پر اپنے بستر پر بھی مرجاۓ ،تو وہ شہید ہی شمار ہوتا ہے. اگر یہی ہوا تھا تو کیسی آسان اور کتنی خوش نصیبی کی بات تھی ان کے لیے ۔
تبصرہ لکھیے