انسانی ذہن ازل سے ایک سوال میں الجھا ہوا ہے: کیا اس کائنات کا کوئی خالق ہے؟ اگر ہے تو وہ کون ہے، کہاں ہے، اور کیسا ہے؟ یہ سوال ہر دور میں انسان کی عقل کو مہمیز دیتا رہا ہے۔ فلسفہ، سائنس، اور مختلف مذاہب نے اس سوال کا جواب دینے کی کوشش کی، مگر وہ یا تو اندازوں میں گم ہو گئے یا تضادات میں الجھ کر رہ گئے۔ لیکن حقیقت کے متلاشیوں کے لیے ایک ایسا راستہ موجود ہے، جہاں شک کے بادل چھٹ جاتے ہیں، دلیلیں واضح ہو جاتی ہیں، اور دل کو اطمینان نصیب ہوتا ہے۔ یہ راستہ قرآن کے بیان کردہ خدائی پیغام کی طرف لے جاتا ہے، اور سورہ انعام اس سفر کا سب سے فیصلہ کن موڑ ثابت ہوتی ہے۔
ضروری ہستی: کیا خدا کا ہونا لازم ہے؟
ملحدین کا ایک عام اعتراض یہ ہوتا ہے کہ "اگر ہر چیز کے پیچھے کوئی سبب ہے، تو پھر خدا کو کس نے پیدا کیا؟" لیکن یہ سوال خود ہی اپنی بنیاد میں غلط ہے، کیونکہ خالق وہ ہوتا ہے جو ازل سے موجود ہو اور کسی اور کے پیدا کرنے کا محتاج نہ ہو۔ اگر وہ بھی کسی کے پیدا کرنے کا محتاج ہوتا، تو پھر وہ خالق نہ ہوتا، بلکہ ایک مخلوق بن جاتا، یہی تصور فلسفے میں "ضروری ہستی" (Necessary Being) کہلاتا ہے، یعنی ایسا وجود جو کسی دوسرے کے وجود پر منحصر نہ ہو بلکہ خودبخود قائم ہو اور باقی سب چیزیں اسی سے اپنا وجود حاصل کریں، فلسفہ میں اسے "First Cause" یا "واجب الوجود" بھی کہا جاتا ہے، یعنی ایسا وجود جس کے بغیر باقی ہر چیز ناممکن ہو، قرآن اسی حقیقت کو سورہ انعام کی ابتدا میں بیان کرتا ہے:
"ٱلْحَمْدُ لِلَّهِ ٱلَّذِى خَلَقَ ٱلسَّمَـٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضَ وَجَعَلَ ٱلظُّلُمَـٰتِ وَٱلنُّورَ" (الأنعام: 1)
"تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور تاریکی اور روشنی کو بنایا۔"
یہ آیت کائنات کی تخلیق کے پیچھے حکمت اور منصوبہ بندی کی نشاندہی کرتی ہے۔ یہ کائنات کسی بے مقصد حادثے کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک حکیم و قادر خالق کے ارادے کا مظہر ہے۔
ابراہیمی استدلال اور فطرت انسانی
اگر ہم انسانی تاریخ پر نظر ڈالیں، تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ہر قوم، ہر زمانے میں لوگ کسی نہ کسی معبود کی تلاش میں رہے ہیں۔ کبھی وہ آسمانوں میں خدا کو دیکھنے کی کوشش کرتے تھے تو کبھی زمین کے پتھروں کو معبود مان لیتے تھے، لیکن انسان ہمیشہ کسی ایسی ہستی کی تلاش میں رہا جسے وہ اپنا مشکل کشا اور حاجت روا سمجھ سکے۔ اللہ تعالیٰ نے اس فطری میلان کی وضاحت حضرت ابراہیمؑ کے واقعے میں کی ہے، جہاں وہ ستاروں، چاند اور سورج کی پرستش کرنے والی قوم کو غور و فکر کی دعوت دیتے ہیں:
"فَلَمَّآ أَفَلَ قَالَ لَآ أُحِبُّ ٱلءَافِلِينَ" (6:76)
"پس جب وہ (ستارہ) ڈوب گیا تو فرمایا: میں ڈوب جانے والوں کو پسند نہیں کرتا۔"
یہ آیت دراصل ایک بنیادی عقلی اصول کی وضاحت کرتی ہے کہ انسان کی فطرت ایسے معبود کی تلاش میں ہوتی ہے جو دائمی، فنا سے پاک اور ہمیشہ کے لیے موجود رہے، (فطرت الله التي فطر الناس عليها) یہی وجہ ہے کہ عقل کا منطقی تقاضا یہی ہے کہ صرف ایک ازلی و ابدی ہستی ہی سچے معبود کی حیثیت رکھتی ہے۔
آیت نمبر 63 میں معبود کے تصور کو انسان کے ضمیر کی آواز قرار دیا گیا:
"وَإِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فِي الْبَحْرِ ضَلَّ مَنْ تَدْعُونَ إِلَّا إِيَّاهُ" (الانعام: 63)
مشکل حالات میں ہر انسان فطری طور پر کسی اعلیٰ قوت کی طرف رجوع کرتا ہے، جو اللہ کی موجودگی کا ایک اندرونی ثبوت ہے۔
ہر انسان کسی نہ کسی چیز کو معبود بنا لیتا ہے
چاہے کوئی خدا کو مانے یا نہ مانے، ہر انسان اپنی زندگی میں کسی نہ کسی چیز کو سب سے زیادہ اہمیت دے کر اس کا پجاری بن جاتا ہے۔ کوئی طاقت کے پیچھے بھاگتا ہے، کوئی دولت کا غلام بن جاتا ہے، کوئی خواہشات کا اسیر ہوتا ہے، اور کوئی کسی نظریے کو اپنا سب کچھ مان لیتا ہے۔ اس کا جینا مرنا اسی کے گرد گھومنے لگتا ہے، سورہ انعام کی آیت نمبر 116 اسی حقیقت کو ان الفاظ میں بیان کرتی ہے:
"أَرَءَيْتَ مَنِ ٱتَّخَذَ إِلَـٰهَهُۥ هَوَىٰهُ" (6:116)
"کیا تم نے اسے دیکھا جس نے اپنی خواہش کو اپنا معبود بنا لیا؟"
یہ آیت الحاد کے اصل چہرے کو بے نقاب کرتی ہے۔ جو شخص اللہ کو نہیں مانتا، وہ کسی نہ کسی چیز، شخصیت، نظریے یا خواہش کو اپنا خدا بنا لیتا ہے۔ یہ سورت توحید کے بنیادی پیغام کو بڑی قوت کے ساتھ بیان کرتی ہے۔ اس کے مختلف مقامات پر اللہ کی وحدانیت کے دلائل دیے گئے ہیں، اور انسانوں کو اس حقیقت کی طرف متوجہ کیا گیا ہے کہ زمین و آسمان کی سلطنت کا واحد مالک اللہ ہے۔ خاص طور پر آیات 101-110 میں توحید کے ایسے دلائل دیے گئے ہیں جو فکری و عقلی بنیاد پر شرک کی تردید کرتے ہیں اور انسانی سرکشی کے نتائج کو واضح کرتے ہیں۔
1. اللہ کی خالقیت: ہر چیز کی ابتدا اسی سے ہوئی:
"بَدِيعُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ أَنَّىٰ يَكُونُ لَهُ وَلَدٌ وَلَمْ تَكُن لَّهُ صَاحِبَةٌ ۖ وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ فَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ" (الأنعام: 101)
(وہ آسمانوں اور زمین کا موجد ہے، اس کا کوئی بیٹا کیسے ہو سکتا ہے جب کہ اس کی کوئی بیوی نہیں؟ اس نے ہر چیز کو پیدا کیا اور وہ ہر چیز کو خوب جانتا ہے۔)
یہاں ایک مضبوط عقلی دلیل دی گئی ہے کہ اللہ ہی کائنات کا خالق ہے، اور وہ کسی کی اولاد یا کسی اور کا محتاج نہیں۔ انسانی تجربے میں ولادت کا تصور زوجین پر مبنی ہے، مگر اللہ کی ذات اس سے بالاتر ہے۔ مسیحی عقیدۂ تثلیث اور مشرکین کے تصورات کی سختی سے نفی کی گئی ہے۔
2. حقیقی مالک وہی ہے، کوئی دوسرا شریک نہیں:
"ذَٰلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۖ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ فَاعْبُدُوهُ ۚ وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ وَكِيلٌ" (الأنعام: 102)
(یہی ہے اللہ تمہارا رب، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، ہر چیز کا پیدا کرنے والا، پس اسی کی عبادت کرو، اور وہ ہر چیز کا نگہبان ہے۔)
یہاں اللہ کی ربوبیت کو بطور دلیل پیش کیا گیا ہے کہ جو کچھ بھی ہے، اسی کے پیدا کردہ نظام کے تحت ہے۔ جب سب کچھ اسی کا پیدا کردہ ہے تو عبادت بھی اسی کے لیے ہونی چاہیے۔
3. انسانی ادراک سے ماورا ذات:
"لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ ۖ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ" (الأنعام: 103)
(نگاہیں اس کا احاطہ نہیں کر سکتیں اور وہ نگاہوں کا احاطہ کر لیتا ہے، اور وہ باریک بین اور باخبر ہے۔)
یہ آیت اللہ کی ذات کے غیب اور اس کی لامحدود قوت کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ انسانی حواس، جو محدود ہیں، اللہ کی حقیقت کو مکمل طور پر سمجھنے سے قاصر ہیں۔
4. حق واضح ہو چکا، اب اس سے منہ موڑنا ہٹ دھرمی ہے:
"قَدْ جَاءَكُم بَصَائِرُ مِن رَّبِّكُمْ ۖ فَمَنْ أَبْصَرَ فَلِنَفْسِهِ وَمَنْ عَمِيَ فَعَلَيْهَا ۚ وَمَا أَنَا۠ عَلَيْكُم بِحَفِيظٍ" (الأنعام: 104)
(تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے بصیرت کی روشنیاں آ چکی ہیں، پس جو دیکھے گا وہ اپنی ہی بھلائی کے لیے دیکھے گا، اور جو اندھا بنے گا وہ اپنی جان پر ہی ظلم کرے گا، اور میں تم پر نگران نہیں ہوں۔)
یہاں قرآن کے دلائل کو "بصائر" یعنی بینائی عطا کرنے والی حقیقتوں سے تشبیہ دی گئی ہے۔ جو شخص غور کرے گا، وہی فائدہ اٹھائے گا، اور جو انکار کرے گا، وہ اپنا نقصان کرے گا۔
5. معجزات کا مطالبہ سرکشی کے سوا کچھ نہیں:
"وَكَذَٰلِكَ نُصَرِّفُ الْآيَاتِ وَلِيَقُولُوا دَرَسْتَ وَلِنُبَيِّنَهُ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ" (الأنعام: 105)
(اور اسی طرح ہم آیات کو بار بار بیان کرتے ہیں، تاکہ وہ (مخالفین) کہہ نہ سکیں کہ تم نے کسی سے سیکھا ہے، اور تاکہ ہم ان لوگوں کے لیے حقیقت کھول کر بیان کر دیں جو جاننا چاہتے ہیں۔)
یہاں بتایا گیا ہے کہ اللہ کی نشانیاں واضح کر دی گئی ہیں، لیکن ضدی لوگ بہانے تراشتے ہیں۔ اس وقت بھی کفار نبی ﷺ پر الزام لگاتے تھے کہ وہ کوئی انسانوں سے سیکھ کر یہ باتیں کہہ رہے ہیں، حالانکہ حقیقت اس کے برعکس تھی۔
6. نبی ﷺ کا کام صرف حق کی تبلیغ ہے، لوگوں کو مجبور کرنا نہیں:
"وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ مَا أَشْرَكُوا ۗ وَمَا جَعَلْنَاكَ عَلَيْهِمْ حَفِيظًا وَمَا أَنتَ عَلَيْهِم بِوَكِيلٍ" (الأنعام: 107)
(اگر اللہ چاہتا تو یہ لوگ شرک نہ کرتے، اور ہم نے تمہیں ان پر نگران نہیں بنایا اور نہ ہی تم ان کے ذمہ دار ہو۔)
یہاں ایک اہم اصول واضح کیا گیا ہے کہ ہدایت اللہ کے اختیار میں ہے، نبی ﷺ کا کام صرف پیغام پہنچانا ہے، کسی کو زبردستی ایمان پر مجبور کرنا نہیں۔
7. ضدی اور معاند لوگ ایمان نہیں لائیں گے:
"وَلَوْ أَنَّنَا نَزَّلْنَا إِلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةَ وَكَلَّمَهُمُ الْمَوْتَىٰ وَحَشَرْنَا عَلَيْهِمْ كُلَّ شَيْءٍ قُبُلًا مَّا كَانُوا لِيُؤْمِنُوا إِلَّا أَن يَشَاءَ اللَّهُ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ يَجْهَلُونَ" (الأنعام: 111)
(اور اگر ہم ان کے پاس فرشتے اتار دیتے، اور ان سے مردے باتیں کرنے لگتے، اور ہم ہر چیز ان کے سامنے لا کھڑی کرتے، تب بھی یہ لوگ ایمان لانے والے نہ تھے، مگر یہ کہ اللہ چاہے، لیکن ان میں سے اکثر جاہل ہیں۔)
یہاں انکارِ حق کی انتہا کو بیان کیا گیا ہے کہ کچھ لوگ ضد میں اس قدر آگے بڑھ جاتے ہیں کہ چاہے جتنی نشانیاں سامنے آ جائیں، وہ پھر بھی ایمان نہیں لاتے۔
اللہ کے بغیر زندگی کا خلا:
وہ لوگ جو اللہ کی ہدایت کو چھوڑ دیتے ہیں، وہ ہمیشہ کسی نہ کسی ذہنی اور روحانی خلا کا شکار رہتے ہیں۔ وہ بار بار نظریات بدلتے ہیں، نئے فلسفے اپناتے ہیں، لیکن سکون پھر بھی حاصل نہیں ہوتا، وہ حق کی تلاش کے عنوان سے کولہو کے بیل کی طرح سرگرداں رہتے ہیں، ان کے دماغ کی گتھیاں اتنی ہی الجھتی جاتی ہیں جتنا وہ سلجھانے کی کوشش کرتے ہیں، یہاں تک کہ سورہ انعام کی صورت میں انھیں نشان منزل نظر آتا ہے جہاں پہنچ کر وہ سکون کی دولت سے مالا مال ہو جاتے ہیں، ان کو ہر سوال کا جواب مل جاتا ہے اور ان کی جستجو کا سفر اختتام کو پہنچتا ہے. آیت 125 اسی بات کی گواہی دیتی ہے کہ:
"فَمَن يُرِدِ ٱللَّهُ أَن يَهْدِيَهُۥ يَشْرَحْ صَدْرَهُۥ لِلْإِسْلَـٰمِ" (6:125)
"جسے اللہ ہدایت دینا چاہے، اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے۔"
یہ آیت واضح کرتی ہے کہ دل کا اصل سکون اللہ کی پہچان میں ہے۔ جو لوگ اللہ کو جان لیتے ہیں، ان کے اندر ایک ایسا غیرمتزلزل روحانی استحکام پیدا ہو جاتا ہے جو کسی اور ذریعے سے ممکن نہیں. اس طرح یہ سفر جو کہ محض ایک فکری یا فلسفیانہ جستجو نہیں تھا، بلکہ یہ سچائی کی تلاش میں ایک مسافر کا آخری قدم تھا۔ ایک ایسا راہی، جو مختلف نظریات کی بھول بھلیوں میں بھٹکتا رہا، کبھی عقل کے پیمانوں سے حقیقت کو ناپنے کی کوشش کی، کبھی سائنسی دلائل میں الجھا، اور کبھی انسانی خواہشات اور آزادی کے سراب میں حقیقت کا سراغ ڈھونڈتا رہا۔ مگر کہیں بھی دل کو وہ اطمینان نہ ملا جو ایک متلاشی کو منزل پر پہنچنے کے بعد حاصل ہوتا ہے، یہاں تک کہ پھر سورہ انعام کے سنگ چلتے چلتے حقیقت کا وہ آخری دروازہ کھل جاتا ہے جہاں سے سب سوالات کا ایک واضح اور فیصلہ کن جواب ملتا ہے:
"إِنَّ صَلَاتِى وَنُسُكِى وَمَحْيَاىَ وَمَمَاتِى لِلَّهِ رَبِّ ٱلْعَـٰلَمِينَ" (6:162)
"بے شک میری نماز، میری قربانی، میری زندگی اور میری موت سب اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔"
یہ وہ مقام ہے جہاں ہر شک، ہر ابہام، اور ہر وسوسہ دم توڑ جاتا ہے، یہ وہ گھڑی ہے جب دل مان لیتا ہے کہ یہ کائنات کسی اتفاق یا حادثے کی پیداوار نہیں، بلکہ ایک باحکمت، زبردست اور واحد خالق کے ارادے کا مظہر ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے جب روح گواہی دیتی ہے کہ کسی اور سمت دیکھنے کی ضرورت نہیں، کیونکہ حقیقت یہی ہے، منزل یہی ہے، اور یہی وہ آخری سچ ہے جس سے آگے کوئی جستجو باقی نہیں رہتی۔ اس طرح خالق کی تلاش کا یہ سفر آخری ثابت ہوتا ہے اور جویائے حق سورہ انعام کے سنگ اپنی منزل کو پا لیتا ہے۔
تبصرہ لکھیے