ہماری انفرادی ،اجتماعی،قومی،ملی اور بین الاقوامی زندگی میں حتیٰ کہ مذہبی حوالوں سے ۔۔دل۔۔بہت ناگزیر،اہم اور مرکزیت کے ساتھ انقلابی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کی اتنی جہتیں اور پہلو کہیے یا روپ ،کہ احاطہ ممکن نہی ۔اور دلچسپ بات یہ کہ اس کے ہر انداز اور روپ سے ہر کوئی متأثر ہوئے بغیر رہ نہیں پاتا۔ زندہ دل۔بیدار دل۔مردہ دل۔مطمئن دل۔مضطرب دل۔پریشان دل۔بے قرار دل۔پرسکون دل ۔ناراض دل۔خوش و سرمست دل۔لہلہاتا دل۔درد سے بھر آتا دل۔شکر اور ممنونیت سے معمور دل۔ بےشمار کیفیتیں۔۔بے شمار انداز،رنگ اور روپ۔۔
کہیں اُمتوں کے مرضِ کُہن کا چارہ،تو کہیں محبت کرنے والوں کا سہارا۔کہیں فسادِ جسم وجاں کا باعث اور صلاحِ فکر و عمل کا ضامن ۔۔۔۔ہزار روپ،ہزار طور اطوار،ہزار انداز،اور اتنے ہی اثرات۔۔۔یہ بگڑ جائے تو فرد سے لے کر قوم تک بگڑ جائے۔۔اذا فسَدَت فَسَد الجَسَد کلّہ۔۔اگر یہ سنور جائے تو۔۔ ستے خیراں۔۔سب کچھ سیدھا ہوجائے۔۔اذا صلُحَت صلُح الجسَدُ کُلّہ۔۔۔۔
تقریباً دوسال قبل میرے دل نے بغاوت کردی۔۔اس کا ایک نیا روپ میں نے دیکھا۔۔سنا تو تھا،مگر اب خود پر بیتی تو پتا چلا کہ۔۔ دل تو دل ہی ہے۔۔نہ سنگ و خشت۔ 28 جولائی 2022 کا سارا دن درد سے بھرا رہا۔اور بالآخر رات کے ابتدائی لمحوں میں مجھے فیصل آباد انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں پہنچا کر "مریضِ دل" باور کرا دیا۔۔۔دو تین ٹیسٹ ہوئے اور انجیوگرافی کی ٹیبل پر پہنچا دیا گیا۔۔
ارادہ تھا کہ دل کے ہاتھوں پچھاڑے جانے کی خبر دوستوں تک نہ پہنچے،حتیٰ کہ گھر والوں، یعنی دل کے ٹکڑوں کو بھی پتہ نہ چلے۔۔۔مگر رات چھٹتے ہی دل کے ٹکڑوں کو بِھنک ہوگئی۔۔فیصل آباد سے سعودی عرب،وہاں سے کُو بہ کُو ۔۔فیصل آباد ،اسلام آباد ۔۔اور جگر کے سب ٹکڑے بھاگے چلے آئے اور ۔۔۔۔۔بات جب پھیلنے لگی تو انجیوگرافی کے لیئے جاتے ہوئے کسی انجانے خدشے کے پیشِ نظر میں نے پوسٹ لگادی۔اور لکھا۔۔۔ " اے دلِ ناداں ،آخر تجھے ہوا کیا ہے.
یہ دل عجیب ہے۔۔کبھی اِتراتا ہے،کبھی کسی پہ ہار جاتا ہے،کبھی درد سے بھر آتا ہے اور کبھی لہلہاتا اور باغ باغ ہو جاتا ہے۔کبھی بھرپور طاقت اور قوت کا مظاہرہ کرتا ہے،کبھی حوصلہ ہار دیتا اور بُجھ جاتا ہے،کبھی پھڑپھڑاتا ہے،اور کبھی بالکل خاموش ہوجاتا ہے۔اس کی یہ ساری کیفیتیں،یہ سارے روپ اور بدلتے تیور دل والوں کو مثبت و منفی اثرات کی گرفت میں لیئے رکھتے اور انہیں اہم دوراہوں ،اثرات و نتائج سے دوچار کرتے ہیں۔۔
نجانے کیا ہوتا ہے کہ کبھی بہت بگڑجاتا ہے،شائد اسے اپنے ساتھ روا رکھے جانے والے غیر محتاط اور بھانت بھانت کے کیئے گئے سلوک پسند نہیں آتے،یا اس کی قوت برداشت سے باہر ہوجاتے ہیں،ایسے میں وہ بگڑتا ہے،تو جلد سنورتا نہیں اور نہ مانتا ہے۔ تقریباً ہر بڑے شہر کی طرح دل کو ستانے والوں کی گوشمالی کے لیئے فیصل آباد میں بھی امراضِ دل کا قومی ادارہ قائم ہے۔۔جدید اور شاندار۔۔ہر قسم کی طبی سہولیات سے آراستہ۔۔یہاں دل کو سنگ و خشت سمجھ کر ستانے والے سزا بھگتنے بڑی تعداد میں آتے جاتے ہیں۔
فیصل آباد انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں پانچ روزہ قیام کے دوران دل مختلف کیفیتوں سے دوچار رہا،کچھ وہ جن کا ذکر ہوا،اور کچھ نئی۔۔ احباب جنھیں خبر ہوئی ،تشریف لائے۔۔
گورنمنٹ کالج سمن آباد کے بے تکلف اور مہربان دوست طارق فیروز ۔۔جو خود اس دشت کی دو بار سیاحی کرچکے اور اپنا دل زیرو میٹر کراچکے۔۔دو بار آئے اور اپنے خوبصورت چہرے اور ہشاش بشاش دل کی شعاؤں کے انعکاس سے تقویت قلب کا نفسیاتی سامان کیا۔۔۔ کالج ہی کے نوجوان دوست وسیم محمود اور امین رشید میرے ایک فون پر روزانہ بھاگے چلے آتے۔۔۔رات دو دو بجے تک اپنے علمی،تاریخی اور فکاہی عطایا سے نوازتے اور ایف آئی سی کے وی آئی پی وارڈ کے کمرہ نمبر پانچ میں رات گئے تک گونجتے قہقہوں سے مریض کا حال اچھا کرنے کا سامان کرتے۔۔
میرے دونوں بیٹے حسن اور انس اسلام آباد سے بھاگے چلے آئے ۔۔۔اور ہمہ وقت،دن رات خدمت میں لگے رہے۔۔ہسپتال کے معاملات انس نے سنبھالے۔۔کھانے پینے اور مہمانوں کی تواضع کا محاذ حسن نے سنبھالا ،اور کھانے کی تیاری،رسد اور دیگر معاملات بہو ،بیٹی اور بیگم نے اپنے ذمے لیا۔۔۔بیگم نے مسلسل ہاتھ پکڑے رکھا اور دل تک رسائی حاصل کرکے چالیس سالہ رفاقت کی ایک بار پھر تجدید کی۔۔دل نے محسوس کیا کہ اب کی بار یہ تجدید " سنجیدہ " ہے۔۔ شکریہ اے دل مضطرب۔۔کچھ تو ترے بگڑنے کا " فائدہ " ہوا۔
میرے دیرینہ دوست اور محسن۔۔ڈاکٹر عبدالستار قریشی۔۔۔خود بھی کئی بار تشریف لائے ،پروفیشنل اور میڈیکل راہنمائی اور جائزہ لیتے رہے۔۔ڈاکٹرز سے مشورہ کرتے اور اطمینان دلاتے رہے۔۔فیصل آباد کے انتہائی سینیئر ڈاکٹرز ۔۔ڈاکٹر محمد طفیل،ماہر امراض معدہ،ڈاکٹر سلمان نعیم ماہر امراض قلب ،ڈاکٹر نعمان سینیئر رجسٹرار و ماہر امراضِ قلب اور دیگر کئی ڈاکٹرز ۔۔ڈاکٹر عبدالستار قریشی کے ہمراہ یا ان کے حوالے سے خصوصی نگرانی کے لیئے تشریف لاتے رہے۔۔
مجاہدوں کے مجاہد۔۔۔مجاہد ہسپتال کے ایڈمنسٹریٹر مہربان دوست۔۔ادیب،شاعر۔۔رانا امجد حسین۔۔جنہوں نے اپنے سرگرم تعاون سے مجھے اس "حال" تک پہچایا۔۔۔یعنی مجاہد ہسپتال میں ابتدائی ٹیسٹ اور علاج کے بعد۔۔ایف آئی سی۔۔میں داخل کروایا۔۔نے مسلسل میرے معاملے کا پیچھا کیا اور نگرانی کرتے ہوئے مسلسل خبرگیری کرتے رہے اور دعائیں دیتے رہے۔۔
اگرچہ اکثر دوست اس صورتحال سے بے خبر ہی رہے،جنہیں خبر ہوئی ،انہوں نے تشریف لانا چاہا،تو انہیں تکلیف نہ کرنے کی درخواست کی۔بعض نے فون پر رابطہ کیا ۔۔مجھے نہ اپنے" حال" کی خبر تھی،نہ " مستقبل " کی۔ کہ اب دل کس کیفیت میں ہے،اور آئندہ کس مرحلے سے گذرے گا ۔۔۔ البتہ۔۔۔پینسٹھ سال کے"ماضی"کا ہر حال اور نقش دل کی لوح اور حافظے کی تختی پر پختہ تھا ،جو ان پانچ دنوں میں بار بار فلیش ہوتا رہا۔۔ 65 سال کی ان یادوں میں حسرتیں اور پچھتاوے کم اور بلاشبہ پروردگار کے بے حساب احسانات و انعامات پر شکرگزاری کے بے حساب جذبات و احساسات اور کیفیات نمایاں اور حاوی تھیں۔۔۔الحمد للہ۔
یہ پانچ دن دل کی مختلف کیفیتوں میں گزرے۔ مایوسی،امید،اضطراب،احساس، شکرگزاری ،احسان شناسی،ادراک خطاء و اعتراف گناہ ،کوتاہیوں اور لغزشوں پر ندامت اور اس سے جڑے بےشمار افعا و اعمال ،اور ان کے اثرات ۔۔۔۔اور نتائج و مطالبات کے شعوری مراحل ۔۔۔سب ہی سے تو اس دل بے قرار نے سامنا کرادیا۔۔۔شائد ابھی عمل اور اصلاح کی مہلت باقی تھی۔۔۔ بلاشبہ پانچ دنوں میں 65 سالوں کا سفر طے ہوا،احتسابِ ذات،عرفانِ ذات،تحلیل و تجزیہ اور تفہیم و تشکیلِ نو کے نئے دَر کھلے،نئے عزم کے ساتھ ۔۔
دل کی اس شوریدہ سری میں تین چار پہلو نئے سامنے آئے ۔۔
عہد رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں ایک بار ایک معروف صحابی نے کسی معرکے میں اس خدشے کی بناء پر ایک کافر کو جس نے تلوار کی زد میں آ کر ایمان قبول کر لیا تھا ،مگر پھر بھی قتل کر دیا گیا ۔۔۔رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔۔۔ھَل شَقَقتَ قلبہ۔۔۔کیا تم نے اس کا دل چیر کر معلوم کیا تھا کہ اس نے ایمان واقعی خوفِ قتل سے قبول کیا تھا۔۔۔۔؟
امراض قلب کے ہسپتال میں ہر عمر کے سیکڑوں مرد و زن تھامے ،اس کے ہاتھوں لُٹنے کے خوف یا بچنے کی امید میں مبتلا ،دل کے ستم رسیدہ نظر آئے۔۔۔ کاش کہ اس وقت سے پہلے ہی ہر شخص دل کو سنبھالے ۔۔لفظاً بھی اور معناً بھی۔۔۔ اس ادارے میں ہر کسی کا دل کسی نہ کسی طبیب و ماہر امراض قلب کے قابو میں،بلکہ جکڑ میں دکھائی دیا۔۔کوئی ایکو گرافی کی ٹیبل پر مشینوں کے سامنے،کوئی آپریشن تھیٹر میں انجیوگرافی کے لیئے ایستادہ،کوئی اسٹنٹ ڈلوانے اور کوئی بائی پاس کے مرحلے میں اور کوئی انتہائی نگہداشت کے کمرے میں بیسیوں مشینوں اور مانیٹرنگ کے آلات کی سپرداری میں۔۔۔۔
یہ معلوم ہوا کہ۔۔۔یہ سب انتظامات،افراد اور آلات کی چیر پھاڑ تو کرسکتے ہیں،اسکی حرکات و سکنات اور زیر و بم تو نوٹ کرسکتے ہیں،اسکی نالیوں کو صاف اور خون کی روانی کو درست کرسکتے ہیں ، اس کی رگوں کو تبدیل اور ترسیل خون کے متبادل راستے بناسکتے ہیں،مگر اس کے احساسات و جذبات سے ہرگز واقف نہیں ہوسکتے۔۔۔۔یہ سب دل کو رواں تو کر سکتے ہیں،دھڑکا تو سکتے ہیں،اس کی تاروں کو ہلا تو سکتے ہیں۔۔۔اسے زندہ و بیدار نہیں بنا سکتے ۔۔دل فرد کا ہو یا قوم کا اس کی زندگی و بیداری کے نسخے کچھ اور ہی ہیں. ان احساسات و جذبات کو وہی جان سکتا ہے ،جو صاحب ہے،جو دل بیدار رکھتا ہے،دل کی آواز سننےاور احساس سمجھنے کی صلاحیت سے مالا مال ہے،اور یہ عارف و واقف دل سب سے پہلے وہی خود دل والا ہے۔۔۔اس پر لازم ہے کہ اپنے ہی کی آواز سنے،اور اس پر غور کرے اور عمل بھی ۔
یہ بھی معلوم ہوا کہ۔۔خون کے رشتے اور دل کے ساتھ جڑے لوگ۔۔۔تقویت دل کا بڑا مُحرّک ہوتے ہیں۔۔ان سے پیوستہ رہنا،جُڑے رہنا ،ان کی محبتوں کو محسوس کرنا،ان کی قدر کرنا اور ان کا شکر گزار رہنا۔۔۔دل کا اصل علاج ہے۔۔۔اس سے محرومی کو کسی طور قبول نہ کیا جائے ۔۔ یہ بھی معلوم ہوا۔۔۔میرے دل کے قریب اتنے بے شمار لوگ ہیں۔۔مجھے ادراک نہیں تھا۔۔۔ وہ بھی جن کی رگوں میں میرا خون دوڑ رہا ہے،اور وہ بھی جن کے وجود سے میری زندگی کی ڈور بندھی ہے،وہ بھی جن کے قہقہے میری آکسیجن ہے،وہ بھی جن کی دعائیں میرا سرمایہ ہیں،وہ بھی جو مجھے نہ کبھی ملے،نہ دیکھا،نہ جانتے ہیں،وہ بھی جو سات سمندر پار رہتے ہیں ،وہ بھی جو پچاس برس پہلے بچپن میں کبھی ساتھ رہے ، پڑھے ۔۔،وہ بھی جنہیں فیس بک نے بتایا ،وہ میرے فرینڈ بنے۔۔وہ بھی جنہوں نے کبھی فون کیا،نہ بات کی۔۔۔ یہ سب میرے پیارے ملنے بھی آئے،فون بھی کیے،کچھ میں سن سکا اور اکثر نہیں سن پایا ۔۔فیس بک کمنٹس میں دعائیں دیں۔۔واٹس ایپ پر اظہار محبت کیا ۔۔ میرے شاگرد بھی تھے ان میں اور عزیز واقارب بھی۔۔۔پچاس سال پرانے اساتذہ بھی اور بھولے بسرے دوست بھی۔۔۔ آپ کے لیے یہ سب شاید اہم نہ ہوں ،مگر میرے لیے ناقابل فراموش ۔۔میرے دل کی زندگی کی ضمانت۔۔۔۔۔
ہسپتال میں انجیوگرافی کا مرحلہ تو اتنا طویل نہ تھا ،نہ پیچیدہ،نہ تکلیف دہ۔۔۔البتہ وہیل چیئر،بیڈ،اپریشن تھیٹر کے ماحول ،مشینوں کے ہجوم،عملے کی روایتی سرد مہری اور سرجن /ڈاکٹر صاحبان کی خاموشی نے خاصا خوفزدہ تو نہیں،البتہ وسوسوں اور اندیشوں سے دوچار اور اللہ سے قریب کیئے رکھا۔۔
آناّ فاناً ٹانگ سُن کی۔۔اور ایک بڑی رگ کے اندر کیمرہ داخل کیا اور دل کی حالت زار کا ہر زاویہ دیکھ اور ریکارڈ کرلیا،اور کسی حد تک ابتدائی رپورٹ سے بھی مطلع کردیا۔۔بعد ازاں اس کی سی ڈی فراہم کردی گئی۔۔سرجری کے بعد پٹی باندھی گئی اور اصل تکلیف دہ مگر قابل برداشت مرحلہ چھ گھنٹے تک ٹانگ نہ ہلانے کا شروع ہوا۔۔یہ جمعہ کا دن تھا۔۔میں نماز جمعہ سے محروم رہا۔۔رات تک یہ جبر ختم ہوا۔۔الحمدللہ جسم کا زخم بھرا تو نہ تھا،البتہ جُڑ چکا تھا۔۔
شکر ہے ڈاکٹر صاحبان دل کی شریانوں کی چھان پھٹک ہی کرسکے۔۔دل کے جذبات،احساسات و خیالات سے لاعلم ہی رہے،ورنہ نجانے کون کون سے بھانڈے پھوٹتے۔۔۔۔اللہ کی قدرت و حکمت کو سلام۔۔۔جس نے بندوں کے رازوں کے پردے رکھے ہوئے ہیں۔اور ہم جیسے گناہ گاروں کے دلوں میں وہی تو بھرا ہوتا ہے جسے ہم ظاہر کرنا پسند نہیں کرتے ۔ اللہم استُر عوراتی و آمِن رَوعاتی۔۔۔
یہ بھی معلوم ہوا۔۔۔۔کہ میرے دل کی تین شریانیں بند ہیں،اور آدھا دل کام کررہا ہے،اور یہ کہ "بائی پاس "ہی اب اس کا علاج ہے۔۔ دیکھ لیجیے! اس دل نے 65 سال میرا ساتھ دیا۔۔اور عمرِ عزیز کے اتنے سالوں بعد بھی آدھا دل بچا رکھا ہے۔۔
سوچنے کے دونوں انداز ہوسکتے ہیں۔۔
ایک انداز۔۔دل آدھا رہ گیا ،عمر عزیز کنارے لگی۔۔ دوسرا زاویہ۔۔65 سال میں صرف آدھا دل ہی خرچ ہوا ۔۔آدھا تو باقی ہے۔۔۔
میرا ایمان ہے کہ۔۔۔معاملہ پہلا ہو یا دوسرا۔۔ما ھو کائِنِِ سَیَکون۔۔۔جو ہونا ہے ہوکر رہے گا۔۔بہتر ہی ہوگا ۔۔کہ میرے پاس تقویت دل کا سامان اپنوں کی دعاؤں اور محبتوں کی صورت موجود ہے،اور وہی میرا سرمایہ اور سہارا اور تقویتِ دل کی حقیقی دوا ہے۔۔
آئندہ قسط میں ان ہی محسنوں کا ذکر ہوگا،جن کی محبتوں نے میرے دل کو سنبھالا۔۔۔۔ اسی لئےڈاکٹرز کا ابتدائی مشورہ تو کی سرجری ۔۔یعنی by pass کا ہے،تاہم بعض ڈاکٹرز کی رائے میں اسٹنٹ ڈالے جاسکتے ہیں۔۔بعض مخلصین کی رائے میں طب یونانی سے استفادہ کیا جانا چاہیے ۔۔
دل ۔۔ دو سال گزر گئے ،فی الحال تو دھڑک رہا ہے۔ میرے خیال میں اب تک دل دھڑکنے کا سبب وہ دعائیں اور محبت کے بے پایاں جذبے ہیں،جن کا اظہار میرے مہربانوں نے کیا۔ اس دل نے جہاں مجھے خود سے ملایا ،وہیں میرے پیاروں سے بھی مربوط کیا۔۔میں انہیں کیسے نظر انداز کر سکتا ہوں،کہ انہوں نے اپنی محبتوں کے تریاق سے میرے آدھے دل کو دھڑکنیں بخشیں۔۔
نامکمل رہے گا۔
یہ ذکرِ الفت و محبت۔۔اگر میں اپنی پیاری "مانو" کو بھول جاؤں،جو بیماری کے دنوں میں جب میں ہسپتال میں رہا،اور گھر خالی۔۔تو یہ اداس،پریشان اور بے قرار رہی۔۔اور جب میں گھر آیا تو قدموں سے لپٹ کر،سینے پر چڑھ کر ،بستر پر لیٹ کر،جوتی پر سر رکھ کر اپنی محبت کا بے لوث اظہار کرتی رہی۔۔
محبت کے ان سندیسوں سے۔۔دلِ ناداں پر۔۔دانائی کا یہ راز کھلا کہ کبھی ایسے مرحلے آئیں جن سے میں دوچار ہوں،یا کوئی بھی ہوسکتا ہے۔۔۔اللہ سب کو ہر قسم کی پریشانی اور بیماری اور تکلیف و آزمائش سے محفوظ رکھے۔۔تو دوستوں کا گلہ یا شکایتِ زمانہ کی بجائے ۔۔۔۔سراپا امتنان و تشکر ہوجائیے۔۔۔۔ ان کی محبتوں کو حیات نو کا پیام جانیے اور انہیں متاعِ ثمین سمجھ کر سمیٹ لیجیے ۔۔
تبصرہ لکھیے