قوموں کے زوال کی ایک نشانی یہ بھی ہوتی ہے کہ ان کی حس مزاح ختم ہوتی چلی جاتی ہے. اس حس کا دماغ کی صحت مند کارکردگی اور تروتازگی سے بڑا گہرا تعلق ہے. ہر مزاحیہ بات میں ایک ’’لطیف نکتہ‘‘ ہوتا ہے جسے انگریزی میں ’’پنچ لائن‘‘ کہتے ہیں. اور غالباً اسی لیے اسے لطیفہ کہا جاتا ہے.
ذہنی سطح پر ہوتا یہ ہے کہ کوئی واقعہ سننے یا پڑھنے کے دوران انسانی دماغ خودکار اور غیر محسوس طریقے سے، اپنے علم اور تجربے کی روشنی میں اس کے بہت سے ممکنہ نتائج اور پہلوؤں پر غور کر رہا ہوتا ہے کہ لطیفہ گو ’’اچانک‘‘ اس کا ایک ایسا قطعی’’غیر متوقع‘‘ موڑ لے آتا ہے یا اختتام کر دیتا ہے جو سننے والے کے تمام اندازوں کے خلاف ہوتا ہے. اور جب سننے والا اس اختتام یا ’’لطیف پہلو‘‘ پر حقیقی زندگی کی روشنی میں غور کرتا ہے تو اسے محسوس ہوتا ہے کہ اگر حقیقتاً ایسا ہوتا تو بڑی دلچسپ صورتحال ہوتی.
یہی معاملہ حقیقی زندگی کا بھی ہے کہ جب کوئی شخص گفتگو یا عمل کے دوران کوئی غیر متوقع اور لطیف بات کر جائے تو انسانی دماغ اسے لطف اندوزی والے مرکز کی طرف ریفر کر دیتا ہے اور ساتھ ہی ایک خوشگوار یادداشت کی تخلیق ہوتی ہے جسے پھر ذہن کے نہاں خانوں میں محفوظ کر لیا جاتا ہے. یہی وجہ ہے کہ لطیفے سے وہی لوگ محظوظ ہوتے ہیں:
.. جو ایک خاص درجے کی ذہانت اور تجربے کے حامل ہوں. اسی لئیے بچے اور محدود عقل والے اکثر لطائف نہیں سمجھ سکتے. اور اسی طرح ایک مخصوص شعبے سے متعلق لطائف، مثلاً طب سے متعلق لطائف دوسرے شعبے سے متعلق لوگوں، مثلاً انجنئیرز کو متاثر نہیں کرتے.
.. جو لطیفہ گو کے ماحول میں ہی رہتے ہوں یا کم از کم اس سے واقف ہوں. اسی لیے ایک خطے اور معاشرے کے لوگوں کیلئے دوسرے خطے یا معاشرے کے لوگوں کے لطائف کو سمجھنا مشکل ہوتا ہے.
.. جنکی دماغی حالت صحتمند ہو. اسی لئیے بیماری، ذہنی دباؤ وغیرہ کی موجودگی میں لطیفے سے ہنسانا تو دور کی بات ہے، الٹا زہر لگتا ہے.
.. جنہوں نے وہ لطیفہ پہلے نہ سن رکھا ہو کیونکہ پھر پیش کردہ صورتحال ان کے لیے غیر متوقع نہ ہو گی.
تو جناب، قوموں کے زوال کی ایک نشانی یہ بھی ہوتی ہے کہ ان کی حس مزاح ختم ہوتی چلی جاتی ہے. کیونکہ غلامی کے اثرات دماغ کو کند کر دیتے ہیں، ظالم حکمرانوں کی زیادتیاں مسلسل ذہنی تناؤ اور ڈپریشن کا باعث بنتی ہیں، مطالعے اور ابلاغ کی کمی دوسرے معاشروں سے لاعلم رکھتی ہے، اور مخصوص حالات سے ناواقفیت کے باوجود اس کم علمی کو تسلیم نہ کرنے کی جاہلانہ روش، اکثر لطائف کی لطافت کو کثافت بنا دیتی ہے.
تبصرہ لکھیے