ہوم << اے پاسبان حرم کعبہ صدا دیتاہے - محمد سعد سعدی

اے پاسبان حرم کعبہ صدا دیتاہے - محمد سعد سعدی

سیدنا و حبیبنا محمدﷺ نے فرمایا تھا کہ اسلام کا آغاز ہوا تو وہ اجنبی تھا اور بہت جلد وہ دوبارہ اپنی ابتداء کی طرح اجنبی ہو جائے گا۔ دین اسلام کی موجودہ حالت کا جائزہ لیا جائے تو شاید ہی اس قدر اجنبیت کا اسلام کو سامنا کرنا پڑا ہو جتنا آج پڑ رہا ہے۔ مسلمانوں میں عملی کوتاہیاں اور کمزوریاں پیدا ہوتی رہی ہیں لیکن موجودہ دور میں جس قدر عملی کوتاہی کے ساتھ اعتقادی کمزوریاں وقوع پذیر ہوتی چلی جا رہی ہیں، ان کا تصور بھی نہ تھا۔

وہ دین کہ جس کے ماننے والے دنیا کے لئے ہر میدان میں قابل تقلید اور ایک روشن مثال تھے، ظاہر و باطن میں اخلاق و اوصاف حمیدہ سے متصف اسلام کے یہ نمائندے جہاں جاتے، نقوش چھوڑ آتے اور مختلف رنگ و نسل اور زبان کی حامل اقوام ان سے متاثر ہوئے بنا نہ رہتیں۔ وہ دین کہ جس کا بچہ سے لے کر بوڑھا، عورت سے لے کر غلام ہر ایک دین کا داعی ہوتا اور اپنے مشاغل کے ساتھ دین کی سربلندی کی جد و جہد اس کی روح اور بدن کے خمیر کا حصہ تھا۔ لیکن آج وہ دین اجنبی ہو گیا، اجنبی کا لفظ بھی حقیر لگتا ہے اور اس دوری اور غیر انسیت کی عکاسی کے لئے موزوں لفظ نہیں ملتا۔

مسلمان گھرانے میں آنکھ کھولنے والے، اسلامی معاشرہ کے سائے میں پرورش پانے والے دین سے بیزار ہوتے چلے جا رہے ہیں، ان کے قلوب و اذہان اسلام پہ متزلزل ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ انہیں اسلامی اصول و عقائد، عبادات و اخلاق، معاملات و معاشرت سے کوئی وابستگی نہیں، ایمان سیکھنا ان کے لیے کچھ اہمیت نہیں رکھتا، عبادات کے متعلق جاننا ان توجہ کا محور نہیں، اخلاق حسنہ کی تعلیم ان کی دلچسپی کا موضوع نہیں، زندگانی کے معاملات کو دائرہ شریعت میں لانے کی چنداں ضرورت نہیں سمجھی جاتی، ان کی فکر و نظر کی انتہا بس خود مسلمان کہلوانا اور زبانی اسلام کا دعویدار ہونا ہی ہے۔ غیروں سے شکوہ کیا کرتے. اسلام تو اپنے گھر میں ہی اجنبی کر دیا گیا، اسے بھلا دیا گیا، اسے کامیابی و ترقی میں رکاوٹ سمجھ کر پس پشت ڈال دیا گیا۔

وہ نسل جسے اسلام کا علم لے کر کھڑا ہونا تھا، غیروں کا علم لئے کھڑے نظر آتے ہیں، جنہیں اسلام کی شان و شوکت کو دنیا پہ عیاں کرنا تھا، کفر کی شوکت و غلبے سے متاثر و مرعوب دکھائی دیتے ہیں، جنہیں اسلام کی حقیقی تصویر اور عملی نمونہ بننا تھا، غیروں کی پیروی میں اس قدر آگے بڑھ گئے کہ انہیں دیکھ کر کافر بھی شرمانے لگا، جنہیں دنیا کی ظاہری زیب و زینت اور اس کی محبت سے اپنے نفوس کو پاک رکھنا تھا، ان کے جسم و جاں اسی دنیا کی ظاہری چمک دمک کے دلدادہ ہو گئے اور مادیت پرستانہ سوچ سرایت کر گئی، جنہیں اپنی جد و جہد کا سب سے بڑا محور اسلام کے غلبے کو بنانا تھا، ان کی توانائیاں باطل کے افکار و نظریات کی ترویج کی نظر ہو گئیں، جنہیں قرآن و سنت کے علوم میں گہرائی و پختگی حاصل کرنا تھی، ان کی تعلیم فقط چند کاغذ کے ٹکڑوں تک محدود ہو گئی، جنھیں فکر و اجتہاد کے ذریعہ امت کے پیش آمدہ مسائل کا حل تجویز کرنا تھا، ان کے اذہان چند ٹکوں کی خاطر باطل کے غلام بن کر ان کی ترقی کے لئے مصروف عمل ہو گئے، جنہیں دین اسلام کے عملی نفاذ کے فریضہ سے عہدہ برآں ہونا تھا، وہ باطل نظاموں پر استوار ریاستوں کو ہی فلاحی تصور کر کے انہی راہوں کے راہی ہو گئے، جنہیں مجاہدہ و جفا کشی سے لیس ہو کر امت کے درد کا درماں کرنا تھا، وہ اپنی خواہشات کی تکمیل اور راحت و آسائش کے حصول کے لیے اوقات و صلاحیتیں وقف کرنے لگے، جنہیں جہاد کا علم لے کر دنیا سے ظلم و فساد کا خاتمہ اور اپنے تمام مقدسات کی حفاظت کرنا تھا، وہ بزدلی کی علامت کر ظلم و فساد پہ خاموش تماشائی بن گئے، جنہیں اسلام کا پر جوش داعی بن کر دنیا میں اسلام کا تعارف کرا کر اس کی حقیقی تصویر دکھانی تھی، وہ فخریہ انداز میں باطل تہذیب کا پرچار کرنے لگے اور کفر کی تعریف و توصیف میں ایک دوسرے سے سبقت کرنے لگے۔

اسلام کے نام لیواؤں کو اللہ اور رسول سے تعلق کی تمنا ہے، نہ ہی تہذیب اسلامی ان کے لئے فخر و اعزاز کی بات ہے اور نہ ہی دین کے جھنڈے کو بلند کرنا ان کی ترجیح کا حصہ ہے، انہیں مسلمان کہلوانا عار لگتا ہے، اسلامی اصول و قوانین فرسودہ اور ناکارہ دکھائی دیتے ہیں، سو ان حالات میں آج امت کو ایسے نوجوان کی ضرورت ہے جو رضائے الٰہی کو مقصد زندگی بنا کر، دلوں کو مادہ پرستانہ افکار کی آلودگی سے پاک رکھتے ہوئے اسلام کی ترویج و اشاعت اور نفاذ کی جد و جہد کے لیے اپنے اوقات کا ایک معتد بہ حصہ وقف کریں، ان کا ظاہر و باطن اسلام کی عملی تصویر ہو، اسلامی تہذیب کو اپنانا اپنے لئے اعزاز سمجھیں، اسلام کے پرجوش درد دل رکھنے والے داعی ہوں کہ ان کا ایک بول بول سامعین کے دلوں پہ دستک دے اور اسلام پہ ان کا اعتماد بحال کر سکے، گھر سے لے کر بازار تک، عبادات سے معاشرت تک، معاملات سے اخلاق تک، سیاسیاست سے ثقافت تک اسلامی تعلیمات کو ہر شعبہ زندگی میں زندہ کرنے والے ہوں اور دینی اصول کی پاسداری کرتے ہوئے ہر شعبہ زندگی کو کامیابی و ترقی کے ساتھ لے کر چلنے کی روشن مثالیں قائم کریں۔

کتنے ہی مقدس و پاکیزہ اور محبوب نفوس ہوں گے جو اس اجنبی دور میں اسلام کا جھنڈا لے کر میدان کار زار ثبات و استقامت کے ساتھ کھڑے رہیں گے اور کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کریں گے، یہی فلاح پانے والے مخلصین لوگ ہوں گے جن کے بارے میں نبی کریمﷺ نے فرمایا تھا: "غرباء کے لئے خوشخبری ہو"۔ اللہ کرے کہ ہمارا شمار بھی ان خوش نصیب انفاس میں ہو اور ہماری زبان و قلم، قوت و صلاحیت اعلائے کلمۃ الله کے لئے بارگاہ ایزدی سے قبول کر لی جائے۔