ہوم << رمضان میں شیطان قید مگر ڈاکو آزاد - رفیع عباسی

رمضان میں شیطان قید مگر ڈاکو آزاد - رفیع عباسی

رمضان المبارک کا مقدس مہینہ پہلے عشرے کی طرف گامزن ہے۔ آج پانچواں روزہ ہے اور لوگ اپنے ننھے منے بچوں، شریک زندگی و دیگر اہل خانہ کے لئے عید کی خوشیاں سمیٹنے کی تگ و دو میں لگے ہوئے ہیں کیوں کہ ماہ رمضان کی اختتامی شب کو ہلال عید نظر آتا ہے جو دوسرے روز عید سعید کی نوید دیتا ہے۔ شعبان کے مہینے سے ہی لوگ رمضان کے مبارک ماہ کا انتظار کرنے لگتے ہیں تاکہ اس کے اختتام پر عید کے روز اپنے پیاروں کے چہرے پر مسکراہٹیں بکھری دیکھیں۔ اس مقصد کے لئے اپنی بساط سے بڑھ کر رات دن محنت کرتے ہیں۔ وہ آنکھوں میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ خوشیوں کے لمحات گزارنے کے سپنے سجائے دن گنتے رہتے ہیں۔ لیکن اس مہینے کی آمد کا اسٹریٹ کریمنلز، ڈکیت اور راہ زن بھی بڑی شدت سے انتظار کرتے ہیں۔ویسے تو ڈکیت و راہ زنوں کے لئے ہر دن عید اور رات، شب برات ہوتی ہے۔ کیوں کہ قانون کی مجہول عملداری کی وجہ سے وہ روزانہ ہی لوگوں کے خون سے ہولی کھیلتے ہیں۔

پاکستان کے لوگ ویسے ہی معاشی تنگدستی کی وجہ سے مالی بدحالی کا شکار ہیں لیکن اسٹریٹ کریمنلز جو پرایا مال اپنا کرنے کے لئے سارا سال سرگرم رہتے ہیں، ان کے سہولت کاروں کی جانب سے اس ماہ انہیں مال و زر سمیٹنے کا خصوصی ٹاسک دیا جاتا ہے۔ رمضان کی آمد کے ساتھ ہی ڈکیتی، لوٹ مار، اسٹریٹ کرائمز کی وارداتوں میں شدت آجاتی ہے۔ عوام اس ماہ مقدس میں سحر و افطار کے لئے خریداری کے علاؤہ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ عید سعید کی خوشیاں منانے کے لئے نئے کپڑوں و جوتوں کی خریداریوں میں مصروف ہوتے ہیں۔ لیکن ڈاکوؤں، لٹیروں و اسٹریٹ کریمنلز کے مسلح گروہ ان کی خوشیوں کو آہوں و سسکیوں میں بدلنے کے لئے شہر قائد کی ہر گلی، کوچے، شاہراہ، بازار میں دندناتے پھرتے ہیں اور بھرے پرے بازاروں، پرہجوم شاہراہوں پر راہ گیروں پر حملہ آور ہو کر نہ صرف ان کی تمام مال و متاع چھین لیتے ہیں بلکہ ڈاکوئوں کے وضع کردہ قانون "ڈکیتی مزاحمت قتل" کے تحت بے دریغ فائرنگ کرکے مزاحمت کار کو زندگی سے بھی محروم کردیتے ہیں۔

رمضان المبارک میں شیطان تو قید ہو جاتا ہے، مگر شیطان کی باقیات و ذریات شہر کے طول و عرض میں پھیل کر آزادانہ وارداتیں کرتی ہیں، ان کو روکنے کے لئے نہ تو پولیس نظر آتی ہے اور نہ ہی رینجرز۔ تین سے لے کر پانچ یا اس سے زائد مسلح ڈاکو سڑکوں، بازاروں، گلیوں، گھروں پر گروہوں کی صورت میں حملہ آور ہوتے ہیں۔ انہیں نہ تو پولیس کی مداخلت کا ڈر ہوتا ہے نہ رینجرز کے جوانوں کا خوف۔ یہ سکون و اطمینان کے ساتھ وارداتیں کرتے ہیں، اپنے شکار کی طرف سے مزاحمت یا لٹنے والے شخص کی طرف سے طبیعت پر گراں گزرنے والی کسی بھی بات کا جواب وہ ہاتھ میں دبے پستول سے "ٹھائیں" کی صورت میں دے کر اس کی زندگی "ٹائیں ٹائیں فش" کردیتے ہیں۔ ان کے ہاتھوں میں موجود آتشیں ہتھیار آگ اگل کر ،"جرم مزاحمت" کی سزا مزاحمت کار کی زندگی کا چراغ گل کر کے دیتے ہیں۔

مزاحمت یا مداخلت کار، ڈاکوؤں کے مروجہ قانون "ڈکیتی مزاحمت قتل" کے تحت موت کی سزا پاکر سڑک پر خاک و خون میں لوٹتے ہوئے اپنے پسماندگان کو روتا، سسکتا اور بلکتا چھوڑ کر منوں مٹی تلے دب کر تہہ زمین ہو جاتا ہے۔ لیکن اس وقت پولیس کی فرض شناسی بھی قابل دید ہوتی ہے۔ وہ مذکورہ واردات کے رونما ہونے کے آدھے گھنٹے کے بعد جائے وقوعہ پر پہنچتی ہے اور بدنصیب شخص کے بے گور و کفن لاشے کو قانونی کارروائی جو پوسٹ مارٹم کی صورت میں ہوتا ہے، اسپتال پہنچا کر بری الذمہ ہوجاتی ہے۔ دوسری جانب ڈاکوئوں کی فائرنگ سے زخمی ہونے والے افراد کو طبی امداد کے لئے اسپتال پہنچاکر نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی خانہ پری کرتے ہیں۔

ڈکیتی راہ زنی اور لوٹ مار کی 85 فیصد وارداتیں ایسی ہوتی ہیں جن کے متاثرین تھانے جانے سے کتراتے ہیں کیوں کہ اول تو وہاں ایف آئی آر کا اندراج کرانا بھی کوہ ندا کی خبر لانے کے مترادف ہوتا ہے اور بالفرض ہو بھی جائے تو مال کی برآمدگی اور ڈاکوئوں کی گرفتاری کی بجائے لٹنے والے شخص کو ملزمان کی شناخت کے نام پر روزانہ تھانے میں حاضری دینا پڑتی ہے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اخبار نویسوں کے پاس سینٹرل پولیس آفس کے شعبہ اطلاعات کی جانب سے بھیجی گئی ڈاکوؤں کے ساتھ پولیس مقابلوں، آئی جی اور کراچی پولیس چیف کی کاروباری یا حکومتی شخصیات سے ملاقاتوں کی روزانہ نصف درجن پریس ریلیز یا ہینڈ آؤٹ واٹس ایپ یا ای میل پر آتے ہیں، جن کے بھیجنے کا مقصد محکمہ پولیس اور اعلیٰ عہدیداران کی کارکردگی دکھانا مقصود ہوتا ہے۔ ہمیں حیرانی ڈاکوؤں و اسٹریٹ کریمنلز کے بنائے ہوئے قانون "ڈکیتی مزاحمت قتل" پر ہے جو ملکی قوانین سے ماورا اور بالاتر ہے۔ پولیس حکام اور قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی شاید اسے 1992 میں دہشت گردی کی بیخ کنی اور دہشت گردوں کے خاتمے کے لئے حکومتی سطح پر نافذ ہونے والے "ماورائے عدالت قتل" کے قانون کا تسلسل سمجھتے ہیں۔

یاد رہے کہ مذکورہ قانون تو کئی صدی قبل بنایا گیا تھا لیکن پاکستان میں اس کا اطلاق 19 جون 1992 میں کیا گیا تھا۔ اس کے محرک اس دور کے وزیر داخلہ میجر جنرل (ریٹائرڈ) نصیر اللہ بابر تھے۔ اس کے لئے انہوں نے شہید وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کو اعتماد میں لیا تھا۔ اس کی منظوری کے سلسلے میں کور کمانڈر آفس میں اجلاس منعقد ہوا جس میں شہر قائد کے تمام اسٹیک ہولڈرز نے شرکت کی تھی۔ اجلاس میں غیر معینہ مدت تک دہشت گرد عناصر کے خلاف ماورائے عدالت قتل کے قانون کے تحت بے رحمانہ آپریشن کی منظوری دی گئی۔ دہشت گردی کے خلاف ہونے والے آپریشن کی زد میں آکر بے گناہ افراد کی بڑی تعداد موت کے گھاٹ اتر گئی جب کہ دہشت گردوں کی کثیر تعداد مذکورہ آپریشن کی خفیہ ذرائع سے اطلاع ملتے ہی اندرون ملک و بیرونی ممالک میں روپوش ہوگئی۔ مرنے والوں کے ورثاء اس دور میں بھی سوائے اپنے پیاروں کے لئے رونے اور آہیں بھرنے کے کچھ بھی نہیں کرسکے کیوں کہ کسی بھی سطح پر ان کا احتجاج حکومتی رٹ کے خلاف بغاوت کے زمرے میں آجاتا۔ آج ڈکیتی مزاحمت قتل کے قانون کی رو سے بھی مرنے والے کے لواحقین کسی بھی جگہ فریاد نہیں کرسکتے، کیوں کہ "ہم اس دیس کے باسی ہیں جہاں خونی درندے رہتے ہیں"

Comments

Avatar photo

رفیع عباسی

رفیع عباسی سینئر صحافی اور مزاح نگار ہیں۔ جنگ، جسارت، مارننگ نیوز سمیت کئی اخبارات و جرائد میں کام کر چکے ہیں۔ ان دنوں ایک آن لائن روزنامہ میں ریذیڈنٹ ایڈیٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ اندرون و بیون ملک کئی اخبارات و رسائل کےلیے لکھتے ہیں۔ طنزیہ و مزاحیہ مضامین کی کتاب "نام میں کیا رکھا ہے" کے مصنف ہیں۔

Click here to post a comment